متوقع انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے منشور

وطنِ عزیز میں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ آئینی لحاظ سے تو سالِ گزشتہ 2023ء کو انتخابات کا سال ہونا چاہیے تھا مگر ہمارے مقتدر حلقوں اور اربابِ حکومت کی رضا چونکہ اس سے مختلف تھی اس لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں اور احکام کے باوجود عام انتخابات 2023ء میں منعقد نہیں ہوسکے۔ اب 2024ء کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور 8 فروری کی تاریخ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے عدالتِ عظمیٰ ہی کے ایک نئے حکم کے تابع مقرر کی جا چکی ہے۔ حالات کے رخ اور رفتار پر نظر رکھنے والوں کو اگرچہ ابھی تک یقین نہیں کہ 8 فروری کو واقعی انتخابات ہوجائیں گے، تاہم عدالتِ عظمیٰ نے اپنے حکم میں چونکہ شکوک و شبہات کے اظہار پر سختی سے پابندی عائد کررکھی ہے، یوں بھی عدالتِ عظمیٰ ہی کے اصرار پر الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول جاری کرچکا، کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے اور ان کی جانچ پڑتال کے مراحل مکمل ہوچکے ، ایک سابق حکمران مگر آج کی ناپسندیدہ جماعت کے اہم رہنمائوں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد قرار دے کر انہیں انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی پہلی تدبیر بھی روبہ عمل لائی جا چکی جس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا سلسلہ آج کل جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا اگرچہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ جاری نہیں کیے، تاہم یہ عمل بھی تکمیلی مراحل میں ہے اور متوقع امیدواروں کی ہلچل دکھائی دینے لگی ہے۔

جمہوری نظام میں انتخابات اور منشور لازم و ملزوم تصور کیے جاتے ہیں، جو کسی سیاسی جماعت یا انفرادی امیدواروں کی نظریاتی شناخت کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور ان کی سوچ، اہداف اور ترجیحات وغیرہ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ منشور میں سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کے، انتخابات میں کامیابی کے بعد، مستقبل کے عزائم اور رائے دہندگان سے وعدوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ پاکستان میں منشور اگرچہ ایک روایت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے تاہم اس کا اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے، چنانچہ جماعت اسلامی نے تو اپنے انتخابی منشور کو کئی مہینے پہلے ہی حتمی شکل دے لی تھی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک باوقار تقریب میں اس منشور کی رونمائی بھی کردی تھی۔ اب جماعت کے مرکز منصورہ لاہور میں امیر جماعت نے جماعت کے انتخابی نشان ’’ترازو‘‘ کی نقاب کشائی بھی کی اور منشور کو چودہ نکات کی شکل میں عوامی سطح پر متعارف کرانے کی مہم کا افتتاح بھی کیا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اسی ہفتے لاڑکانہ میں اپنے دس نکاتی منشور کا اعلان کردیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی بھی عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں قائم کی جا چکی ہے۔ امید ہے وہ بھی جلد اپنا کام مکمل کرلے گی۔ تحریک انصاف کو دیگر مسائل و مصائب سے کچھ فرصت ملے تو شاید وہ اس جانب بھی توجہ دے سکے۔ جماعت اسلامی کے منشور میں ملک کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرکے خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے، سودی معاشی نظام سے نجات اور جذبۂ خدمت کے تحت عوامی مسائل کے حل کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے نوعمر سربراہ کی طرف سے اعلان کردہ منشور میں کسی نئی سوچ کے بجائے کم و بیش پچپن برس قبل کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے ہی کا اعادہ کیا گیا ہے، اور 8 فروری کو پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے پرانے نعرے ’’دمادم مست قلندر‘‘ ہی کے بلند ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔ پارٹی منشور میں ملازمین کی تنخواہیں پانچ برس میں دوگنا کرنے، غریبوں کے لیے مفت بجلی اور علاج کی سہولت، بے روزگاروں کو ایک سال تک مالی مدد اور بھوک مکائو پروگرام کے آغاز کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے منشور کو اس لحاظ سے تحریک انصاف کے 2018ء کے منشور کا چربہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہاں پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں اور صحت کارڈ وغیرہ جاری کرنے کے وعدے کیے گئے تھے تو پیپلز پارٹی کے 2024ء کے انتخابی منشور میں تیس لاکھ گھروں کی تعمیر اور کسان و یوتھ کارڈ جاری کرنے کی بات کی گئی ہے۔ آئندہ کے وعدوں پر اعتماد سے قبل عوام پیپلز پارٹی کے قائدین سے یہ پوچھنے کا حق بہرحال رکھتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پارٹی کو بارہا اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہنے کا موقع ملا، اس کے باوجود آج تک غریب روٹی، کپڑے اور مکان سے محروم ہی کیوں چلے آرہے ہیں؟

مملکتِ خداداد کی پون صدی سے زائد تاریخ میں اگرچہ ایک بڑا عرصہ آمریت کے زیر سایہ گزرا ہے مگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس دوران جو مواقع ملے، انہوں نے ملک میں جمہوری روایات کو مستحکم کرنے، عوام میں سیاسی شعور کی پختگی اور قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والوں کے کڑے احتساب کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، بلکہ اقتدار کو ذاتی و خاندانی مفادات کے حصول اور اپنی جائدادوں میں بے پناہ اضافے ہی کے لیے استعمال کیا۔ اقتدار میں آکر اپنے منشور پر عمل درآمد کے بجائے منشور کو کاغذات کے پلندے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی دستاویز سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس طرح سیاست کو مثبت بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے مخالفین پر الزام تراشی اور اتہام بازی سے آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ اللہ کرے آئندہ عام انتخابات کے بعد ملک کو ایسی قیادت اور ایسا ماحول میسر آسکے کہ مقتدر طبقہ اپنے منشور اور وعدوں کو واقعی اہمیت دے، ذاتی و خاندانی اثاثوں میں اضافے کے بجائے عام آدمی کے مسائل کا حل اور ملک و قوم کا مفاد اس کی ترجیحات میں شامل رہے…!!! (حامد ریاض ڈوگر)