حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”قیامت کے دن میں سب سے پہلے جنت کی شفاعت کروں گا اور سب نبیوں سے زیادہ میرے امتی ہوں گے“۔(مسلم، کتاب الایمان)
جب جناب سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپؐ کی تشریف آوری سے کئی روز پہلے مشتاقانِ جمال شہر سے نکل کر راستے پر آبیٹھتے اور شام کو مایوسانہ واپس ہوجاتے۔ بہت انتظار اور بڑی آرزوئوں کے بعد جب آپؐ تشریف لائے، وہ دن ہی مدینہ کے لیے عید ہوگیا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جس روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو آپؐ کے جمال سے مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ روشن ہوگیا۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی خوشی منارہے تھے اور لڑکیاں مبارک باد کے یہ سیدھے سادے گیت گارہی تھیں:
’’ثنیات الوداع سے ہم پر بدرِ کامل طلوع ہوا ہے، اس لیے خدا کا شکر ہم پر واجب ہوا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سن کر ہر جانب سے لوگ دوڑے چلے آرہے تھے۔ ان میں انصار کا ایک نوجوان طلحہ بن براء بھی تھا۔ وہ بے اختیار آپؐ سے لپٹا جارہا تھا۔ اس نے آپؐ کے مبارک ہاتھوں کو خوب بوسے دیئے اور عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! مجھے جو حکم دیا جائے گا اس پر مستعد پائیں گے‘‘۔ سرورِ کونینؐ اس کی نوعمری میں یہ پختگی دیکھ کر متبسم ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم اپنے والد براء کو قتل کردوگے؟‘‘
طلحہ یہ ارشاد سن کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’رک جائو۔ میں نے یہ بات تمہیں آزمانے کے لیے کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے قطع رحمی کے لیے مبعوث نہیں فرمایا‘‘۔
چند ہی دنوں بعد یہ وفادار عاشقِ رسولؐ بیمار پڑگیا۔ بیماری نے ایسی شدت اختیار کی کہ زندگی کی امید نہ رہی۔ حضورؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو اُس وقت اس پر جانکنی کی علامات طاری ہوچکی تھیں۔ آپؐ نے اس کے اہلِ خانہ سے فرمایا کہ جب اس کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا تاکہ میں اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے آجائوں، اور اس کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا، کیونکہ مسلمان کی میت کو گھر میں ڈالے رکھنا مناسب نہیں۔ بنی عمرو بن عوف کا یہ محلہ جس میں یہ انصاری نوجوان بیمار تھا، مدینہ منورہ سے تین میل دور مسجد قبا کے اطراف میں واقع تھا اور درمیان میں یہودی بستیاں تھیں۔ اس نوجوان کی جس وقت وفات ہوئی تو رات ہوچکی تھی۔ وفات سے پہلے نوجوان طلحہؓ نے اہلِ خانہ سے کہا: ’’دیکھو! جب میں مر جائوں تو تم لوگ حضورؐ کو میری موت کی اطلاع مت دینا کیونکہ رات کا وقت ہے اور درمیان میں دشمن یہودیوں کی بستیاں ہیں، مباداکہ وہ حضورؐ کو ایذا پہنچائیں۔ اس لیے تم لوگ خود ہی میرا جنازہ پڑھ کر مجھے دفنا دینا‘‘۔
اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ نے طلحہؓ کی وصیت پر عمل کیا اور طلحہؓ کو رات ہی کو دفن کردیا۔
صبح کو محلے کے لوگ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور طلحہؓ کی وفات اور اس کی وصیت کے مطابق اس کی تدفین کی خبردی۔ حضورؐ پر طلحہؓ کی موت بالخصوص آپؐ کی حفاظت کے خیال سے آپؐ کو زحمت نہ دینے کی بات کا بہت اثر ہوا۔ آپؐ اسی وقت محلہ بنی عمرو تشریف لے گئے اور اہلِ محلہ کی معیت میں طلحہؓ کی قبر پر گئے۔ جب آپؐ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیئے تو سب لوگ آپؐ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے طلحہؓ کے لیے جو دعا فرمائی وہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’یااللہ! طلحہ کو ایسی حالت میں ملنا کہ تم اسے دیکھ کر ہنس رہے ہو اور وہ تم کو دیکھ کر‘‘۔
(ماخوذ از ’’اقرا ڈائجسٹ‘‘ کراچی)