بہت دنوں کے بعد بہت دلچسپ سوال موصول ہوا ہے:
’’عالی جناب! نیشِ اقرب کے کیا معنی ہیں؟ میں نے بعض جگہ اس کا املا ’نیشِ عقرب‘ بھی لکھا دیکھا ہے۔ مگر مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی ’زرگزشت‘ میں اپنے بینک کے ساتھی خان سیف الملوک خان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ’’نیشِ اقرب سے بلبلا اُٹھتے‘‘۔ یہ بھی بتا دیجیے کہ دونوں میں سے درست املا کون سا ہے؟‘‘ (ساجد حسن۔ ساہیوال)
غالباً پچھلے برس اپنے کسی کالم میں یوسفی صاحب کا یہ فقرہ ہم نے سیاق و سباق کے ساتھ مکمل نقل کیا ہے۔ وہاں بھی شاید یہی بتایا تھا کہ ’نیشِ اقرب‘ کی ترکیب مشتاق احمد یوسفی مرحوم کے کرتب و کمالات کی تخلیق ہے۔ معروف ترکیب ’نیشِ عقرب‘ ہی ہے۔ یوسفی صاحب نے اسی ترکیب میں تحریف کرکے مزاح پیدا کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ یوسفی صاحب اس ضمن میں مزید فرماتے ہیں کہ
’’دشمنوں کے، حسبِ عداوت، تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار‘‘۔
’نیش‘ فارسی میں ڈنک کو کہتے ہیں۔ مجازاً کسی دھار دار آلے کی نوک کو بھی ’نیش‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ نوک دار اوزار کو، جس سے زخم کھولتے یا فصد لگاتے ہیں ’نیشتر‘ (نیش تر)کہا کرتے ہیں۔ نیشتر ہی تخفیف کے بعد نشتر ہوگیا ہے۔ غالبؔ نے نگاہِ ناز کے نشتر سے آشنائی کی تو اس کی وکالت بھی کی۔ فرماتے ہیں:
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اُتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے
اصلاً بچھو، سانپ یا بھڑ کا ڈنک نیش کہلاتا ہے۔ بھڑ کو زنبور یا زنبوری بھی کہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں’زنبوری‘ ہی تبدیل شدہ تلفظ کے ساتھ ’دھموڑی‘ ہوگیا ہے۔ شاید اس تلفظ کی وجہ یہ بھی ہو کہ ’دھموڑی‘ ڈنک مار دے تو ڈنک کھانے والا بلبلا کر دھما دھم کودنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اُس اوزار کو بھی زنبور کہتے ہیں جس کا کسی چیز کو پکڑنے والا منہ آگے سے گول ہوتا ہے، سنسی کی طرح۔ ‘Pliers’کو اگرچہ اُردو نے اپناکر ’پلاس‘ بنا لیا ہے، مگر اس کے لیے بھی ’زنبور‘ کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ نیش یعنی ڈنک کی شکل بھی زنبور کی سی ہوتی ہے۔ فارسی میں شہد کی مکھی کو بھی زنبور ہی کہتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ’زنبور خانہ‘۔ شاید کسی شہد کی مکھی کا ڈنک چکھ کر ناسخؔ بدک گئے تھے:
ترکِ لذت کر دِلا پہنچے نہ تا تجھ کو گزند
نوش تو پیچھے ہے پہلے نیش ہے زنبور کا
’نوش‘ کی ضد کے طور پربھی ’نیش‘ کو استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میرؔ نے فرمایا:
دیکھا یہ نا و نوش کہ نیشِ فراق سے
سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا
گویا کھانا پینا ’نوش‘ ہے توکھایا پیا نکلوا لینے کے لیے ’نیش‘ ہے۔ ’نیش زنی‘ اصل میں تو ’ڈنک مارنا‘ ہے، مگر مجازاً کسی کو کچوکے لگانے، طنز کرنے یا طعنے مارنے کو بھی ’نیش زنی‘ کہا جاتا ہے۔
’عقرب‘ بچھوکا عربی نام ہے۔ فارسی میں کژدُم کہلاتا ہے۔ عقرب کی جمع ’عقارب‘ ہے۔ فارسی ہی کی ایک مشہور ضرب المثل ہے:
نیشِ عقرب نہ از پئے کین است
مقتضائے طبیعتش این است
’’بچھو کا ڈنک مارنا کینے یا دشمنی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس کی طبیعت کا تقاضا یہی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ڈنک مارنا بچھو کی فطرت میں داخل ہے۔ دوست، دشمن جس سے بھی سابقہ پڑے گا اُس کو وہ ڈنک ہی مارے گا۔ جو لوگ اردو پر ’عربی زدگی‘ کی نیش زنی کرتے ہیں، وہ ذرا اوپر کا فارسی شعر بھی دیکھ لیں۔ دو مصرعوں میں تین عربی الفاظ استعمال ہوئے ہیں: عقرب، مقتضا اور طبیعت۔ سانپوں اور بچھوؤں کی طرح آدمی بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ بقول مولانا حالیؔ:
جانور، آدمی، فرشتہ، خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
اس سیکڑے میں شامل ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے، جس کی فطرت میں شرارت ہی شرارت بھری ہوتی ہے۔ یہ پیدائشی شریرالنفس ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت ہی ڈنک مارتی ہے۔ یہ لوگ بزرگ دیکھتے ہیں نہ بچہ۔ نکوکار کی تمیز کرتے ہیں نہ بدکار کی۔ اُن کو بھی ڈنک مار جاتے ہیں جو اُن سے دوستی رکھتے ہیں، اور اُن کو بھی جو اُن سے کسی قسم کی کوئی دشمنی رکھتے ہیں نہ گمان کرسکتے ہیں کہ یہ حضرت کبھی دشمن کا کردار ادا کریں گے۔ ایسے ہی آدمیوں پر یہ ضرب المثل صادق آتی ہے ’’نیشِ عقرب نہ از پئے کین است، مقتضائے طبیعتش این است‘‘۔
’اقرب‘ کا لفظ قرب سے نکلا ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’ق ر ب‘ سے بننے والے بہت سے الفاظ اُردو بولنے اور اُردو لکھنے والوں کے لیے مانوس ہیں۔ قرب کا مطلب ہے نزدیکی، کسی کے پاس ہونا۔ ’قریب قریب‘ کے علاقوں کو ’قرب و جوار‘ کہتے ہیں۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’قربت‘ بنا ہے۔ قریب ہوجانے کو ’قرابت‘ کہتے ہیں۔ اِس کا مفہوم تعلق اور رشتے داری بھی لیا جاتا ہے۔ قریب ترین فرد یا رشتے دار کو ’اقرب‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع اقربا ہے۔ عموماً قاتل نامعلوم ہوتے ہیں مگر کسی مقتول نامعلوم شاعر کو اپنے اقربا کی فکرکھائے جاتی تھی:
وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر؟
قرابت کو ’قُربیٰ‘ بھی کہا جاتا ہے، قرآنِ مجید میں ’ذوی القربیٰ‘ (قریبی رشتے داروں) کا خیال رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔’اقربا‘ کے لیے ’اَقارِب‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’اعزا و اقارب‘ کی ترکیب ہمارے ہاں عام ہے۔ اگر کوئی بات اصل تک نہ پہنچے مگر اصل سے ’قریب قریب‘ ہو تو اُس کے لیے ہم ’تقریباً‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کو ایک جگہ قریب قریب جمع کرکے میل ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے تو اس کو ’تقریب‘ کہا جاتا ہے۔ تقریب کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے، مثلاً تقریبِ نکاح، تقریبِ ولیمہ یا قبل از وقت صاحبِ کتاب بن جانے والوں کی تقریبِ رُونمائی و جگ ہنسائی۔ ’تقریب‘ دو سے زائد افراد کو بھی قریب کرسکتی ہے اوردو افراد کو بھی۔ غالبؔ ایسی ہی کسی قربت کے طالب تھے۔ کہتے ہیں:
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
مشہور ہے کہ ’جو کسی کے قریب ہوتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘۔ ایسے لوگوں کو ’مقرب‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ جنھیں قریب کیا گیا ہو یا قربت دی گئی ہو۔ اس کی جمع ’مقربین‘ ہے۔ سرکار دربارسے خصوصی قربت رکھنے والوں کو ’مقربینِ خاص‘ کہا جاتا ہے۔
قصہ مختصر ’اقرب‘ اور ’عقرب‘ کی صوتی ہم آہنگی سے مشتاق احمد یوسفی صاحب نے فائدہ اُٹھا یا۔ اگر آپ کے قریب ترین اور محبوب ترین لوگوں میں کوئی ایسا نکل آئے کہ جسے آپ اپنا ہم مشرب، ہم ذوق، ہمدم اور ہمراز جانتے ہوں،مگر وہی آپ کو بے سبب ڈنک مار بیٹھے تو اسے کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ ’نیش اقرب‘ ہی کہیں گے اور یہ بھی کہ …’نیش اقرب‘ نہ از پئے کین است!