یہودی بھی اللہ کو ایک مانتے تھے، وہ بھی رسالت کے قائل تھے، ان کے پاس بھی اللہ کی کتاب تھی، وہ بھی ایک نبی کی شریعت کے علَم بردار تھے، ان کی مسجدوں میں بھی نمازیں ہوتی تھیں، وہ اللہ کے نام پر ذبیحہ بھی کرتے تھے اور بہت ساری اخلاقی خوبیوں کے مبلغ تھے جن کا حکم شریعتِ موسوی میں دیا گیا تھا… مگر مدینہ کے مسلم معاشرے اور خیبر و اطراف کے یہودی معاشرے کا فرق ہر ایک کوصاف صاف نظر آتا تھا۔
اللہ، رسول، کتاب اور شریعت سے جو تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو تھا، وہ تعلق یہودیوں کی زندگی میں نظر نہیں آتا تھا۔ اللہ کو خالق، رازق، مالک اور حاکم ماننے کے باوجود وہ ایک ایسی زندگی بسر کررہے تھے جیسے اُن کا اپنے رب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نمازوں میں اللہ کا نام لیتے تھے، اس کی کتاب کی تلاوت کرتے تھے، اس کے حضور دعائیں بھی مانگتے تھے، اور اوراد و وظائف بھی پڑھتے تھے۔ ان کے عالموں اور زاہدوں نے صورت شکل خدا والوں کی بنا رکھی تھی۔ اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کی سیرت و کردار پر وعظ بھی بیان کرتے تھے۔ بزرگوں اور پیروں کے نام کے نذراتے بھی دیتے تھے، مگر ان کی یہ ساری دین داری بس رسمی دین داری تھی۔ شریعتِ موسوی کے دس احکام کا زبانی چرچا تو بہت تھا مگر عملاً زندگی میں ان کا کوئی اثر اور نشان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے اپنے نفس کو اپنا خدا بنا رکھا تھا، احکامِ خداوندی میں حسبِ منشا رد و بدل کرتے رہتے تھے۔ مذہبی معمولات میں بھی بہت ساری مشرکانہ رسوم کو شامل کرلیا تھا۔ دین اور دنیا کو علیحدہ علیحدہ دو خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ وہ اپنی حرص و طمع کے دام میں گھرے ہوئے اپنی جگہ آپ خدا بنے بیٹھے تھے، اور جب ان کی مستحکم حلقہ بندیوں سے گزر کر لوگ مدینہ پہنچتے تو وہاں زندگی کا ایک بالکل ہی مختلف نقشہ نظر آتا تھا۔ ایک طرف ستھرا شہر جس میں نہ گندگی تھی، نہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر… صاف ستھرے لوگ کہ پیوند لگے کپڑے بھی ہوتے تو دھلے دھلائے۔ نمود و نمائش سے دور، سچے اخلاق ومحبت سے پیش والے… جن کو دیکھ کر ہی دل ان کی طرف راغب ہوجاتے تھے۔ اپنے رب کے گرویدہ، اس کے رسولؐ کے عقیدت مند اور اس کے احکام کے مطیع و فرماں بردار… ان کی زندگی ایک جیتا جاگتا نصب العین تھی، ان کا معاشرہ بجائے خود ایک پیغام تھا جو لوگوں کو بھلائیوں اور نیکیوں کی طرف بلا رہا تھا۔
یہودی اور مسلم معاشرے کا فرق اتنا واضح تھا کہ یہودیوں کو خود اس کا اعتراف تھا، مگر اس کے باوجود وہ اپنی نسلی ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا تھے اور کسی طرح اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے تھے کہ اللہ غیر یہودیوں میں بھی اپنے رسول کو مبعوث کرسکتا ہے اور اپنی کتاب اتار سکتا ہے۔ مگر یہ ضد اور ہٹ دھرمی ان کے کسی کام نہیں آئی۔ قرآن نے ان کے نفاق اور ان کی دنیا پرستی اور ان کی بداعمالیوں پر ایسی جچی تلی تنقید کی کہ اس کا جواب ان سے بن نہ پڑا، اور جن کے دلوں میں رمق برابر بھی صداقت رہ گئی تھی وہ اس حق کی طرف مائل ہوگئے جو مدینہ کی زندگی میں صاف صاف نظر آرہا تھا۔
قرآن نے ان کو وہ عہد یاد دلایا جو اللہ نے بنی اسرائیل سے لیا تھا ’’یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔‘‘
اس عہد کو یاد دلانے کے بعد ان کی اجتماعی روش پر اس طرح تنقید کی گئی:
’’مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔‘‘
’’پھر ذرا یاد کرو کہ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو۔‘‘
’’مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو اور اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو، ظلم اور زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھہ بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔‘‘
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔‘‘
مسلم معاشرے کے مقابلے میں یہودی معاشرے کا یہ نقشہ ایک درسِ عبرت ہے۔ آج ہم مسلمانوں کے معاشرے پر غور کریں تو اللہ کے رسولؐ، اللہ کی کتاب اور اس کی نازل کی ہوئی شریعت کے معاملے میں ہمارا اجتماعی اور قومی رویہ اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا، اور صحیح معنوں میں ہمارے زوال کا بھی وہی سبب ہے جو یہودیوں کے زوال کا سبب تھا کہ ہم نے دین و دنیا کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے دین کو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے حوالے کردیا اور دنیا کو اپنے گلے سے لگا لیا ہے۔