پابند صوم و صلوٰۃ، اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفور کے افکار کے علَم بردار تھے
عبدالکریم عابد، ڈاکٹر انور سدید، ذوالقرنین، عطاء الرحمن، چودھری نذیر احمد صدر اخبار مارکیٹ لاہور اور عبدالرئوف طاہر جیسے سالہاسال کے ’’جسارت‘‘ اور ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے دیرینہ ساتھیوں اور محترم و مکرم ہستیوں کے بعد برادرم سید تاثیر مصطفی بھی داغِ مفارقت دے کر خالقِ حقیقی سے جا ملے… ہاں وہی خالقِ کائنات جس نے اپنی آخری کتابِ ہدایت میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ’’ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ شاعر کے الفاظ میں:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اعزہ و اقارب، دوست احباب، اپنوں اور پرایوں کی اس دنیائے فانی سے جہانِ لافانی کی طرف رخصتی ہمیں آئے روز اس متاعِ حیات کی بے بضاعتی کی جانب متوجہ کرتی ہے مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اِس عارضی زندگی کے مشاغل میں منہمک اور مگن رہتے ہیں اور اس حقیقت کو مسلسل فراموش کیے جاتے ہیں کہ:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
نصف صدی سے بھی زائد عرصہ قبل، سید تاثیر مصطفی سے میرا غائبانہ تعارف اُس وقت ہوا جب میں میٹرک میں کامیابی کے بعد 1970ء میں رائے ونڈ سے لاہور چھائونی کے علاقے صدر بازار میں اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے ہمراہ اپنے مستقل گھر میں منتقل ہوا کہ اُس وقت تک رائے ونڈ میں کالج نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ جماعت اسلامی سے محبت کا تعلق 1970ء کے انتخابات ہی میں قائم ہوچکا تھا، لاہور آیا تو جماعت کے بزرگوں نے صدر بازار میں غیر فعال اسلامی جمعیت طلبہ کو پھر سے فعال کرنے کی ذمہ داری سونپی تو جو سابقہ ریکارڈ میرے سپرد کیا گیا اس میں ایک جگہ درج تھا کہ ناظم حلقہ (شاید انجینئر منیر راحت مرحوم) کی حلقے سے غیر حاضری کے دوران سید تاثیر مصطفی قائم مقام ناظم حلقہ ہوں گے۔ اس ابتدائی تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ صدر بازار سے ملحقہ علاقے مصطفی آباد (دھرم پورہ) میں رہائش پذیر ہیں اور جماعت اسلامی کے رکن محترم سید مرتضیٰ حسین کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ اس کے بعد سید تاثیر مصطفی اُس وقت ابھر کر سامنے آئے جب انہوں نے تاریخی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لیا۔ یہیں سے ان سے قربت اور دوستی کا آغاز ہوا۔ پھر 1979ء میں ایم اے صحافت کے لیے جامعہ پنجاب میں داخلہ لیا تو تاثیر مصطفی پہلے سے سینئر کی حیثیت سے شعبے میں موجود تھے۔ ایم اے کے امتحان میں انہوں نے اوّل حیثیت اور طلائی تمغا حاصل کیا۔ وہ جامعہ سے فارغ ہوئے تو اسی برس روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے لاہور سے اشاعت کا آغاز کیا اور تاثیر مصطفی اس کے بانی کارکنان میں شامل تھے۔ جنگ کے نیوز روم میں انہوں نے طویل عرصہ خدمات انجام دیں، اس دوران سٹی اور ڈسٹرکٹ ڈیسک کے انچارج بھی رہے۔ ان دونوں شعبوں کو اخبار کے بھر پور آمدنی والے شعبے شمار کیا جاتا ہے، مگر تاثیر نے اپنے دامن کو ہر طرح کی آلائشوں سے پاک رکھا اور نیک نامی کو کسی بھی مرحلے پر داغ دار نہیں ہونے دیا۔ برقی ذرائع ابلاغ کا رواج ہوا تو جنگ چھوڑ کر ’دنیا نیوز‘ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی کئی برس خدمات انجام دیں اور پھر آزاد روی کا فیصلہ کیا، جس کے دوران ہفت روزہ ’فرائیڈے اسپیشل‘ کے لیے بھی لکھتے رہے، قومی زبان تحریک کے سیکرٹری جنرل اور ظفر علی خاں ٹرسٹ میں ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھاتے رہے، 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل سے بھی وابستہ ہوئے، اور جب انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز لیگ نے اقتدار سنبھالا تو کوئی عہدہ یا مفاد حاصل کیے بغیر میڈیا سیل سے علیحدہ ہوگئے۔ ملک کی قدیم ترین جامعہ اور اپنی مادرِ علمی جامعہ پنجاب سمیت کئی جامعات میں ابلاغیات کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں بھی بحسن و خوبی نبھائیں، چنانچہ آج ذرائع ابلاغ میں ان کے تربیت یافتہ سیکڑوں نوجوان اپنی صحافتی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں ’اسپیشل ٹی وی‘ سے وابستہ رہے۔ ابلاغیات کی دنیا میں مفادات کے حصول کے بے شمار مواقع مہیا ہونے کے باوجود تاثیر مصطفی نے ہمیشہ دنیاوی لالچ اور مادی کشش سے خود کو دور رکھا، البتہ صحافتی فرائض کی ادائیگی اور اپنے طبعی میلان کے سبب احباب کا وسیع حلقہ ضرور بنایا۔
صحافتی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ سرگرم رہے اور اخباری کارکنوں کے مسائل کے حل کے لیے حتی المقدور جدوجہد کرتے رہے۔ جنگ ورکرز یونین کے مختلف عہدوں پر منتخب ہو کر کارکن ساتھیوں کی پریشانیوں کے ازالے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ملک گیر ٹریڈ یونین میں وفاقی انجمنِ صحافیان (پی ایف یو جے) کے دستور گروپ کے اوّلون و سابقون میں شامل تھے اور تادم آخر نہ صرف ساتھ رہے بلکہ نہایت متحرک اور فعال کردار بھی ادا کرتے رہے۔ امسال بھی شدید علالت کے باوجود 24 دسمبر کو ہونے والے لاہور پریس کلب کے انتخابات میں وہ اپنی رہائش گاہ ہی سے مشاورت اور فیصلوں میں شریک رہے۔ وہ جس قدر بھی علیل اور معذور ہوتے ہمیں یقین تھا کہ 24 دسمبر کو کلب کے انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے ضرور آئیں گے، مگر انتخابی عمل کے آغاز سے محض بارہ چودہ گھنٹے قبل 23 دسمبر، جو اُن کی بچپن سے تازیست محبوبہ، اسلامی جمعیت طلبہ کا یومِ تاسیس بھی ہے، کی شب داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی وفات کے سبب کلب کا انتخابی عمل بھی سوگوار رہا۔ متفقہ فیصلے کے مطابق تمام دوستوں نے نعرے بازی، ڈھول ڈھمکا اور شور شرابا سے گریز کیا۔ ہرچہرہ ان کی وفات پر افسردہ اور غم زدہ تھا۔ انتخابی عمل کے دوران ہی بڑی تعداد میں ان کے احباب تمام سرگرمیاں معطل کرکے نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔ نمازِ جنازہ کی امامت معروف عالم دین ڈاکٹر راغب نعیمی نے کرائی جب کہ ملک کے اہم سیاسی وسماجی رہنما اور احباب بھی نمازِ جنازہ میں موجود تھے۔ سب کے لب پر ایک ہی دعا تھی:
خدا مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں…! راقم الحروف کی ان سے سفر و حضر میں طویل رفاقت رہی۔ وہ دین کا واضح شعور رکھتے تھے… پابند صوم و صلوٰۃ، اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفور کے افکار کے علَم بردار تھے۔ فروعی اختلافات سے بچتے ہوئے اتحادِ امت کے داعی تھے۔ صحافتی ٹریڈ یونین میں بھی وہ کارکنوں کے باہمی اختلافات کو مسائل کا بنیادی سبب گردانتے تھے۔ جب بھی موقع ملتا صحافتی تنظیموں کے اتحاد کے لیے نہ صرف آواز اٹھاتے بلکہ عملی اقدامات کے لیے بھی سرگرم دکھائی دیتے۔ مختلف سیاسی، سماجی اور صحافتی معاملات، خصوصاً پی ایف یو جے، پی یو جے اور پریس کلب کے انتخابات میں ان کی واضح رائے ہوتی تھی جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ تاہم جب اجتماعی فیصلہ ہو جاتا، ان کی رائے کے مطابق یا برعکس، تو وہ دل و جان سے اس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ ان سے نصف صدی سے زائد کے تعلق کی بے شمار تلخ و شیریں، گفتہ و ناگفتہ یادیں ذہن میں امڈتی چلی آرہی ہیں، مگر ان کی رخصت کا دکھ ایسا ہے کہ کہنے کا یارا نہیں۔