علامہ محمد طاسین رحمۃ اللہ علیہ

پیدائش:1920ء،ہری پور
وفات:23دسمبر1998ء،کراچی

مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میں نے علامہ محمد طاسینؒ کو پہلے پہل کب دیکھا، لیکن اتنا یاد ہے کہ جب 1960ء میں، میں جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹائون میں داخل ہوا تو اُس کے کچھ دنوں بعد ہی علامہ محمد طاسینؒ کا نام کانوں میں پڑنے لگا تھا۔ غالباً وہ اُس وقت جامعہ علومِ اسلامیہ کے، جو اُس وقت مدرسہ عربیہ اسلامیہ کہلاتا تھا، اعلیٰ تدریسی پروگراموں میں حصہ لیا کرتے تھے، اور اگر مجھے صحیح طرح سے یاد ہے تو درجۂ تکمیل کے بعض اسباق بھی اُن کے ذمے تھے۔

اس وقت بھی اُن کی شہرت ایک غیر معمولی عالم فاضل انسان کی تھی، جو اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے بانی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے داماد اور قریبی عزیز ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس شخصیت کو مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے اپنی رفاقت کے ساتھ ساتھ اپنی دامادی کے لیے بھی منتخب کیا ہو، اس کے علم و فضل کے بارے میں جو بھی تاثر نوجوان طلبہ اور کم سن عقیدت مندوں میں قائم ہوتا وہ حقیقت سے بعید نہ تھا۔

مولانا سے تعارف کا یہ غائبانہ سلسلہ بہت عرصے تک جاری رہا۔ ان سے براہِ راست ملاقات اور استفادے کا تعلق 1970-71ء کے سالوں میں قائم ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے نیا نیا ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں کام کا آغاز کیا تھا اور مختلف علمی موضوعات پر لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس زمانے میں بعض کتابوں کی نشان دہی کے لیے مولانا عبدالقدوس ہاشمی ؒ کے مشورے سے علامہ محمد طاسینؒ مرحوم و مغفور سے رجوع کرنے کی نوبت آئی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی مولانا سے رجوع کرنے کا اتفاق ہوا، انہوں نے انتہائی شفقت اور ہم دردی کے ساتھ مطلوبہ سوال اور استفسار کا جواب دیا۔ وہ ہمیشہ طالب کے لیے اپنا دامن کشادہ رکھتے تھے۔ ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، اُن کے شب و روز اور ان کی ساری سرگرمیاں صرف اور صرف علم کے لیے ہیں۔ 1970-71ء سے لے کر 1980ء تک دس سال کا عرصہ مولانا سے علمی مراسلت اور دور دور سے نیازمندی کا زمانہ رہا۔ ایک آدھ مرتبہ خط کتابت کا تبادلہ ہوا۔ اس دوران کئی بار کراچی جانا ہوا تو میں اُن سے ملنے ’’میری ویدر ٹاور‘‘ گیا، جو اُن کا ٹھکانہ تھا۔

1980ء میں ایک شام میں اور مولانا ظفر احمد انصاری صاحبؒ، علامہ محمد طاسینؒؒ سے ملنے اُن کے مکان پر گئے اور چار پانچ گھنٹے تک بہت تفصیل کے ساتھ ایک اہم علمی موضوع پر تبادلۂ خیال کا اتفاق ہوا۔ اس علمی موضوع اور طویل علمی نشست کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اقتدار میں آئے تو انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک ذمے داری سونپی۔ وہ یہ کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر دورِ جدید کے سیاسی اور دستوری تجربات اور تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جو پاکستان اور جدید دنیائے اسلام کے لیے قابلِ عمل اور جدید مغربی تعلیم یافتہ ذہن کے لیے قابلِ قبول ہو۔

اسلامی نظریاتی کونسل میں بہت عرصے تک یہ مسئلہ زیرِ بحث رہا۔ وقتاً فوقتاً اس کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں۔ ایک کمیٹی مولانا ظفر احمد انصاری صاحب ؒ کی سربراہی میں بنائی گئی، جس میں کام کرنے کی ذمے داری جنرل ضیا مرحوم کے حکم سے مجھے بھی دی گئی اور میں ایک طویل عرصےکراچی جاکر مولانا کے پاس رہا، جہاں اس موضوع پر خاصی تحقیق اور غوروخوض کا موقع ملا۔

1980-81ء اور1982ء کے برسوںمیں کراچی میں قیام کے یہ وقفے کئی کئی ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں پر محیط ہوتے تھے۔ ان ہی وقفوں کے دوران پہلی بار 1980ء میں اور اس کے بعد بھی کئی بار علامہ محمد طاسینؒ ؒ سے تفصیل سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں میں مولانا کے علم و فضل کا بھی اندازہ ہوا، ان کے اخلاق اور مہمان نوازی کا بھی تجربہ ہوا اور براہِ راست اُن کی شخصیت کو دیکھنے کا وہ موقع ملا جو اس سے پہلے نہیں ملا تھا۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں میرے اور مولانا کے درمیان ایک قریبی ذاتی دوستی کا تعلق قائم ہوگیا۔ دوستی کا لفظ میں بڑے تامل کے ساتھ استعمال کر رہا ہوں۔ علم و فضل، عمر اور مقام و مرتبے کے اعتبار سے میرے اور اُن کے درمیان بہت نمایاں فرق تھا۔ لیکن اُنہوں نے اپنی بزرگانہ شفقت سے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ جب بھی ملاقات ہوئی، یا خط لکھا یا کسی تحریر میں میرا ذکر کیا تو اتنے اچھے الفاظ کے ساتھ کیا جن کا میں کبھی بھی مستحق نہیں تھا۔اس کے بعد جب بھی مولانا اسلام آباد تشریف لاتے تو مجھ سے ملاقات کے لیے میرے دفتر یا غریب خانے پر تشریف لاتے۔ اسی طرح میرا بھی جب کراچی جانا ہوتا تو میں مولانا سے ملنے ان کے کتب خانے میں، جو اُن کا گھر بھی تھا، حاضر ہوتا۔ اور مختلف موضوعات پر ہمارے درمیان تبادلۂ خیال ہوتا۔

مولانا کے دل چسپی کے موضوعات بھی تقریباً وہی تھے، جو میری دل چسپی کے تھے، یعنی جدید دنیائے اسلام میں اسلامی احکام کے مطابق جب کوئی نظام بنایا جائے گا تو اس کی جزئیات و تفصیلات کیا ہوں گی؟ اس معاملے میں خاص طور پر مولانا کی دل چسپی کا جو میدان تھا وہ اسلامی معاشیات کا میدان تھا۔ مولانا کے ذہن میں اسلامی معاشیات کے اپنے تصورات تھے جن سے دورِ جدید کے بہت سے اہلِ علم اتفاق نہیں کرتے۔ مجھے بھی بعض معاملات میں مولانا کی تحقیقات پر شرحِ صدر نہیں تھا اور میں ادب کے ساتھ وقتاً فوقتاً ان سے اختلاف کا اظہار بھی کرتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ اختلافِ رائے کو پسند نہیں کرتے یا کسی اختلاف ِرائے کی وجہ سے ان کے تعلقات میں کوئی فرق آسکتا ہے۔ ان کی محبت، شفقت اور غیر معمولی نرم گفتاری کی کیفیت وہی رہی جو روزِ اول سے تھی۔ لیکن علمی مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کا عمل ان سے جاری رہتا تھا۔جب میں دعوۃ اکیڈمی کی انتظامی ذمےداریوں پر فائز ہوا، تو میری تجویز پر یونیورسٹی نے علامہ محمد طاسینؒ صاحب کو دعوۃ اکیڈمی کی انتظامی کونسل کا رکن بھی مقرر کیا۔ اس تعلق سے مولانا سے ملاقاتوں کے مواقع کثرت سے ملنے لگے۔ ان کا اسلام آباد آنا جانا بھی بڑھ گیا اور مختلف موضوعات پر مولانا کے خیالات سے استفادے کے زیادہ مواقع پیدا ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میرے مشورے اور تجویز پر اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی علامہ محمد طاسینؒ کو کئی مرتبہ مختلف موضوعات پر رائے اور مشورے کے لیے اپنے اجلاس میں بلایا اور کونسل نے مختلف معاملات پر مولانا سے مشورہ کیا۔

مولانا پاکستان تشریف لانے کے بعد اپنی زندگی کا پورا عرصہ یعنی تقریباً سو فیصد عرصہ مجلس ِ علمی سے وابستہ رہے۔ مجلس ِ علمی کے نام سے یہ ادارہ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے بعض مخیّر حضرات نے قائم کیا تھا۔ یوں تو یہ ادارہ ہندوستان کے علاقے گجرات میں قائم ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی موضوعات پر بالعموم اور فقۂ حنفی پر بالخصوص جو قدیم مخطوطات ابھی تک طبع نہیں ہوئے تھے، ان کو طبع کرایا جائے اور جدید انداز میں تحقیق اور تدوین کی ضروریات کی تکمیل کے بعد اہلِ علم کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس ادارے نے ہندوستان میں قیام کے دوران خاصا کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ادارہ اس انداز میں کام نہیں کرسکا۔ اس وقت محسوس کیا گیا کہ اس ادارے کی ایک شاخ پاکستان میں بھی قائم کی جائے۔ چناں چہ کراچی میں اس ادارے کی ایک شاخ قائم کی گئی، جس کی نگرانی اور سرپرستی کی ذمے داری مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے سپرد کی گئی۔ انہوں نے اس ادارے کو عملاً چلانے اور اس میں کتب خانہ قائم کرنے کے لیے علامہ محمد طاسینؒ کو مامور کیا۔

مولانا محمد طاسینؒ نے جس دن سے اس ادارے کی ذمے داری سنبھالی، انہوں نے اس کے کتب خانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، اور اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال یا اس سے بھی زیادہ اس ادارے کو بنانے اور اس کی خدمت کرنے میں صرف کیے۔ وہ انتہائی محبت سے اس کتب خانے کے لیے کتابیں جمع کرتے رہتے تھے۔ ان کتابوں کو پڑھتے تھے۔ استفادہ کرتے تھے۔ دوسرے اہلِ علم کی رہ نمائی کرتے تھے اور پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے محققین، اساتذہ اور طلبہ کی مدد اور رہ نمائی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کی ذمے داریوں میں یہ چیز شامل تھی کہ وہ ادارے میں آنے والے محقق طلبہ کی مدد کریں، لیکن جس انداز سےعلامہ محمد طاسینؒ ان کاموں کو کرتے تھے، وہ محض انتظامی ذمے داری نبھانے کے لیے نہیں بلکہ اس میں مولانا کے ذاتی ذوق، جذبے اور علم دوستی کی جھلک بھی نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ جو شخص ایک مرتبہ علامہ طاسینؒ سے استفادے کے لیے کتب خانے میں چلا گیا، اس کی علامہ طاسین سے ہمیشہ کے لیے دوستی ہوگئی۔ پھر علامہ طاسینؒ اور اس کے درمیان تعلق کی وہ نوعیت قائم ہوئی جو صرف اہلِ علم کے درمیان قائم ہوسکتی ہے۔ جس کا محرّک کوئی مادی، انتظامی یا ذاتی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ جس کی بنیاد صرف علم دوستی ہی ہوتی ہے۔ جس زمانے میں اسلامی نظریاتی کونسل ان مختلف موضوعات پر کام کررہی تھی، اس زمانے میں نہ صرف مولانا کی اپنی تحقیق اور اُن کے علمی کارنامے اسلامی نظریاتی کونسل کے کام آئے، بلکہ مجلس ِ علمی کا کتب خانہ بھی مولانا نے اس کام کے لیے وقف کردیا۔ اور نہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل بلکہ جو بھی ایسے ادارے تھے، جہاں اسلامی قوانین کی تحقیق اور تدوین پر کام ہورہا ہو اور وہاں کسی کتاب کی ضرورت ہو تو مولانا کا ادارہ یعنی مجلسِ علمی اس کام کے لیے ہر وقت آمادہ اور تیار رہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی بار وفاقی شرعی عدالت میں اور کئی دوسرے اداروں میں علامہ طاسینؒ کی خدمات سے استفادے کے مواقع پیدا ہوئے۔ ان کے ادارے سے کتابوں کی فراہمی میں مدد ملی اور ایسا تحقیقی مواد اُن کے ذریعے سامنے آیا جس کی وجہ سے مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد ملی۔

1998ء میں جب مجھے کچھ عرصے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بینچ میں کام کرنے کا موقع ملا اور اسی زمانے میں ربا سے متعلق مشہور اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو مولانا کے بعض اہم تحقیقی مقالات جو غیر مطبوعہ تھے، شریعت اپیلٹ بینچ کی مدد کے لیے اُن کے صاحب زادے نے پیش کیے، جو مولانا کے کئی سال کے مطالعے کا نچوڑ تھے اور اُن کی طویل تحقیقات پر مبنی تھے۔ انہوں نے مضاربہ اور مشارکہ کے علاوہ اسلامی بینکاری پر اور بعض ایسے موضوعات پر جو دورِ جدید میں اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق تھے، بہت تفصیل اور گہرائی کے ساتھ غور و خوض کیا۔ اس سلسلے میں مولانا کی رائے بقیہ اہلِ علم کی رائے سے بہت حد تک مختلف تھی۔ اس لیے مولانا کی رائے سے وسیع پیمانے پر تو استفادہ نہیں کیا جاسکا لیکن جو تحقیقی مواد اُنہوں نے تیار کیا تھا، بہت سے لوگوں کو اس سے استفادے کا موقع ملا۔ کئی معاملات میں نہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان بلکہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے صاحبان کو اپنے خیالات کو مزید پختہ کرنے کا موقع ملا۔

علامہ محمد طاسینؒ کی ایک خاص خوبی، جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، وہ یہ تھی کہ انہوں نے ایک طرف اپنے خیالات میں خاصی پختگی پیدا کی تھی لیکن اس کے باوجود اختلافِ رائے کو نہ صرف برداشت کرتے تھے، بلکہ اس کا خیرمقدم بھی کیا کرتے تھے۔ وہ اُن تمام لوگوں سے گفتگو کے لیے تیار رہتے تھے، جو اُن سے مختلف رائے رکھتے ہوں۔ اس سے اُن کے مزاج میں ایک ایسی وسعت اور فکر میں ایسی گہرائی پیدا ہوگئی تھی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

علامہ محمد طاسینؒ ایک طویل عرصے تک مرحوم خالد اسحاق کے حلقۂ احباب میں بھی شامل رہے۔ خالد اسحاق صاحب کے ہاں ایک ہفتے وار فکری نشست ہوا کرتی تھی۔ مولانا اس میں باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے۔ خالد اسحاق مرحوم ایک بڑے وکیل اور قانون دان تھے۔ سیاسیات کے ماہر تھے۔ ان کے ہاں باقاعدگی سے آنے والے احباب میں بعض دانش ور بھی ہوتے تھے۔ علمائے دین بھی ہوتے تھے۔ وکلا، ادیب اور شاعر حضرات بھی ہوتے تھے۔ ان میں بعض ایسے حضرات بھی ہوا کرتے تھے جو مذہب اور خاص طور پر اسلام کے بارے میں اپنے رویوں کی وجہ سے عام مذہبی طبقوں میں زیادہ نیک نام نہیں تھے۔ ان ہفتہ وار نشستوں کا مقصد خالد اسحاق صاحب مرحوم کی نظر میں نہ صرف اہم معاملات پر تبادلۂ خیال تھا، بلکہ ملک کے مختلف فکری رجحانات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرکے حتی الامکان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بھی تھا۔ علامہ محمد طاسینؒ باقاعدگی سے ان محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کی قوت کے ساتھ توازن، اخلاق اور بہت دھیمے انداز میں بیان کرتے تھے۔ ان کا لب و لہجہ ہمیشہ انتہائی دھیما، آواز انتہائی نرم، دلائل انتہائی مضبوط اور گفتگو انتہائی عالمانہ ہوتی تھی۔ اگرچہ اُن کی مادری زبان اُردو نہیں تھی، لیکن جب وہ اُردو لکھتے تھے تو اتنے ادبی انداز سے لکھتے تھے کہ پڑھنے والوں میں سے شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوتا ہوگا کہ اُن کی مادری زبان اُردو نہیں بلکہ پشتو ہے۔ نہ صرف زبانی گفتگو میں بلکہ تحریر میں بھی مولانا کا قلم اتنا خوب صورت اور اتنا صاف تھا کہ خیال ہوتا تھا کہ لکھنے والا شاید کوئی کاتب ہے۔ ان کے پاس غالباً پوری زندگی ٹائپ رائٹر نہیں رہا۔ آخری عمر میں بھی ان کو کمپیوٹر کی سہولت حاصل نہیں رہی۔ وہ اپنا سارا کام براہِ راست اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ چالیس چالیس اور پچاس پچاس صفحات کے طویل مقالات اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ وہ اتنے خوش خط تھے کہ ان کے ہاتھ کی تحریر دیکھ کر کتابت شدہ مواد کا گمان ہوتا تھا۔

افسوس یہ کہ ان کی تحریریں شائع نہیں ہوسکیں۔ ان کو اپنے مقالات و تحقیقات کی اشاعت سے کوئی خاص دل چسپی بھی نہیں رہی۔ ان کے مخاطبین عامتہ الناس نہیں بلکہ اہلِ علم ہی ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کوئی تحقیق کرتے تھے اور اپنی تحقیق کے نتائج کو کسی مقالے کی شکل میں مرتب کرتے تھے تو یا تو کسی علمی رسالے مثلاً ”فکر و نظر“ یا اس طرح کے کسی رسالے میں شائع کرادیا کرتے تھے، اور اگر کوئی رسالہ ان کی تحقیقات کو شائع نہیں کرتا تھا تو اس کی عکسی نقول ملک کے منتخب اہلِ علم کو بھیج دیا کرتے تھے۔ اس طرح لوگ ان کے خیالات سے استفادہ کرسکتے تھے اور ان کے خیالات کو محفوظ بھی کرلیا کرتے تھے۔ میرے پاس بھی وقتاً فوقتاً ان کے مقالات کی عکسی نقول آتی رہتی تھیں اور میں حسب ِ موقع ان سے استفادہ بھی کیا کرتا تھا۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا جس زمانے میں شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن کے طور پر کام کررہا تھا اور بینچ کے سربراہ جناب جسٹس (ر) خلیل الرحمٰن خان نے ربا کے مشہور فیصلے کی تدوین کی ابتدائی ذمے داری مجھے ہی سونپی تھی اور میں اس فیصلے کا ابتدائی مسودہ تیار کرنے میں مصروف تھا، اس زمانے میں مولانا کے صاحب زادے عامر طاسین نے مولانا کے مقالات پر مشتمل ایک وقیع علمی مواد مجھے فراہم کیا، جس سے کماحقہ تو فیصلے میں استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے کہ فیصلہ کرنے والا بینچ جن نتائج تک پہنچا تھا، ان میں کئی نتائج ان سے مختلف تھے جن تک مولانا پہنچے تھے۔ لیکن اس مواد سے مولانا کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ جہاں جہاں مولانا کی تحقیقات سے استفادہ کیا جاسکتا تھا، شریعت بینچ کے فیصلوں میں ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا گیا۔

افسوس ہے کہ آج وطنِ عزیز میں علامہ محمد طاسینؒ مرحوم کی صلاحیت کے اہلِ علم موجود نہیں ہیں۔ وہ اہلِ علم جو خاموشی کے ساتھ علم کی خدمت کے لیے آمادہ رہتے ہوں۔ جو اپنی تحقیقات کو علمی استدلال اور شواہد کی بنیاد پر منوانا چاہتے ہوں۔ جو اپنے نقطۂ نظر کو عالمانہ اور مہذب انداز میں بیان کرسکتے ہوں۔ جن کے دلائل مؤثر اور وقیع ہوں۔ جن کی پشت پر سال ہاسال کی تحقیق اور مطالعہ ہو۔

علامہ محمد طاسینؒ مرحوم نے جو کچھ لکھا، آج اس کو مرتب کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ان کے مقالات اگر سیکڑوں نہیں تو درجنوں کی تعداد میں ضرور ہوں گے۔ اگر ان تمام علمی تحریروں کو شائع کیا جائے تو ان سے کئی جلدیں مرتب کی جاسکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا کے صاحب زادگان، خاص طور پر عزیزم محمد عامر طاسین سلمہ مولانا کے اس علمی ورثے کو محفوظ کرنے کا اہتمام کریں گے۔ وہ مجلس ِ علمی کے کتب خانے کو اسی طرح چلائیں گے جیسا علامہ محمد طاسینؒ نے چلایا، اور اس کتب خانے سے وہی کام لیں گے جس مقصد کے لیےیہ کتب خانہ قائم کیا گیا تھا۔
https://telegram.me/ilmokitab