خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں: اسٹیبلشمنٹ کا طریقہ کار تو آج بچوں کو بھی سمجھ میں آرہا ہے

نومنتخب سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین ڈاکٹر حمیرا طارق سے گفتگو

جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی سے الیکشن ہوتا ہے۔ یوں قیادت کی تبدیلی کا عمل مستقل طور پر عمل میں آتا ہے۔ حال ہی میں جماعت اسلامی خواتین کی نئی قیمہ محترمہ ڈاکٹر حمیرا طارق منتخب ہوئیں۔ ان کے انتخاب کے بعد ہم نے ان سے کچھ گفتگو ریکارڈ کی جسے ہم اپنے قارئین کے لیے یہاں پیش کررہے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ اپنے بارے میں بتایئے… خاندان، تعلیم، شادی اور سب سے اہم یہ کہ جماعت سے کیسے تعارف ہوا؟

حمیرا طارق: میرے والد صاحب ذہنی طور پر جماعت کو سمجھتے تھے لیکن عملی طور پر منسلک نہیں تھے۔ مولانا مودودیؒ سے عقیدت رکھتے تھے، کچھ لٹریچر بھی پڑھا تھا۔ ہم دو بہنیں تھیں، والد صاحب کی خواہش تھی کہ ہم دونوں جمعیت سے منسلک ہوں۔ میرا جمعیت سے تعارف یونیورسٹی میں ہوا۔ جس وقت میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا طلعت ظہور پنجاب یونیورسٹی کی ناظمہ تھیں۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی، پھر لٹریچر پڑھایا۔ میں ان کے ساتھ پروگراموں میں جانے لگی۔ یونیورسٹی کے پہلے سال ہی میری جمعیت کی رکنیت منظور ہوگئی۔ پھر دوسرے سال یونیورسٹی کی نظامت دے دی گئی۔ میرا یونیورسٹی میں ریسرچ ورک شروع ہوا تو جمعیت لاہور کی نظامت میرے پاس تھی، اور پھر دو سال پورے پاکستان کی نظامتِ اعلیٰ میرے پاس رہی۔ میرا کوئی چار پانچ سال جمعیت کا ساتھ رہا۔

جس سال میری شادی ہوئی اُس سال میں نے عربی اور اسلامیات میں ایک ساتھ ماسٹرکا امتحان دیا تھا۔ شادی کے بعد رزلٹ آیا تو میری ایک بیٹی تھی۔ پھر میں نے ایم فل میں داخلہ لیا، ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا رہی تھی۔ دو سال کالج کی تدریس سے چھٹی لے کر ایم فل کیا، اُس وقت میں لاہور کی ناظمہ تھی۔ جب فارغ ہوئی تو دوسری بیٹی ہوئی۔ میری پوزیشن آئی تھی۔ اسکالرشپ ملی، پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا، اسکالرشپ کی سیٹ تھی، لیکن اس وقت اللہ نے تیسری بیٹی سے نوازا۔ تینوں بیٹیاں چھوٹی تھیں، لہٰذا ان کے ساتھ تعلیم جاری رکھنا مشکل تھا۔ اسکالرشپ اور پی ایچ ڈی کی سیٹ چھوڑ دی لیکن نظامت جاری رکھی۔ پانچ سال کے گیپ سے بیٹا ہوا۔ پھر دوبارہ پی ایچ ڈی کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں اپلائی کیا۔ لیکن میں لیٹ تھی انہوں نے نہیں لیا، ان کا کہنا تھا کہ آپ نے ہماری اسکالرشپ کی سیٹ ضائع کردی ہے۔ لہٰذا میں نے بہاول پور یونیورسٹی میں اپلائی کیا۔ کلاس ورک کے ساتھ مقالہ مکمل کیا۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کے مقالے کا عنوان کیا تھا؟

حمیرا طارق: ’’حدیث میں جرح و تعدیل‘‘۔ حدیث کے بہت سے راوی ایسے ہیں جن کے بارے میں امام بخاری نے سکوت کیا ہے۔ امام بخاری کا معاملہ یہ تھا کہ جب ان کو کسی راوی کے بارے میں شک ہوتا تھا تو وہ سکوت اختیار کرتے تھے، یعنی کسی قسم کا کوئی جملہ نہیں کہتے تھے نہ حمایت میں نہ اختلاف میں… ایسے راوی کو مسکوت راوی کہا جاتا ہے۔ تو مجھ کو ان مسکوت راویوں پر ریسرچ کرکے ان کے درجوں کا تعین کرنا تھا۔ یہ مقالہ عربی میں ہے۔ ویسے میرا تو ایک تخصیص کا مضمون ہی عربی ہے لیکن بہاول پور یونیورسٹی میں ریسرچ اور مقالہ عربی ہی میں منظور کیا جاتا ہے۔

جمعیت میں نظامتِ اعلیٰ کے ساتھ ہی شادی ہوگئی۔ پھر جماعت میں گوشوارۂ رکنیت دیا گیا۔ فوزیہ ناہید اُس وقت ناظمہ لاہور تھیں، انہوں نے اپنا معتمد بنایا، یعنی ابھی رکنیت منظور نہیں ہوئی تھی لیکن ضلع لاہور کی ناظمہ نے اپنا معتمد بنالیا تھا۔ 6 ماہ لگے رکنیت منظور ہونے میں۔ اس دوران فوزیہ ناہید امریکہ چلی گئیں۔ پھر ڈاکٹر فائقہ کے ساتھ ضلع لاہور کی ناظمہ رہی۔ ان کے بعد ڈاکٹر رخسانہ جبیں ضلع لاہور کی ناظمہ رہیں تو ان کی نائب رہی۔ 2008ء میں، میں حج پرگئی تھی، وہاں لاہور ضلع کی نظامت کی اطلاع ملی۔ یہ نظامت میرے پاس 6 سال رہی۔ اس کے بعد 3 سال رخسانہ جبیں اور 9 سال دردانہ صدیقی قیمہ جماعت اسلامی کی نائب رہی۔ تو یہ تھا اب تک کا مکمل سفر جو جمعیت اور جماعت کے ساتھ میں نے طے کیا۔ اب قیمہ کی ذمہ داری ملی ہے، دعا ہے کہ اس کی ادائیگی اللہ بہترین طریقے سے کروادے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ اپنے دن کا آغاز کیسے کرتی ہیں؟

حمیرا طارق: مجھے سب سے زیادہ فائدہ اس عادت سے ہوا جو میری والدہ نے بچپن میں ڈالی تھی۔ وہ فجر کے بعد نہ سونے کی عادت تھی۔ انہیں فجر کے بعد سونا ناپسند تھا۔ رات میں ہمارے ہاں ساڑھے دس بجے تک سونے کا ماحول ہوتا ہے۔ کھانا ایک ہوتا ہے یعنی صرف رات کا۔ دوپہر کو اگر کسی کو بھوک لگے تو پھل یا سینڈوچ لے لیتا ہے وہ بھی خود سے۔ صبح خود شوہر اور بچوں کو ناشتا دیتی ہوں، کالج اور جماعت کے کاموں سے واپس آکر شام کو خود کھانا بناتی ہوں۔

مجھے میرے سسر نے سب سے زیادہ سپورٹ کیا۔ وہ تبلیغی جماعت میں تھے۔ انہوں نے مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگائی، بلکہ میں نے ان سے کہاکہ آپ بھی جماعت میں آجائیں۔ کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں، لائو میں فارم بھردیتا ہوں۔ یعنی وہ متعصب نہیں تھے۔ اگر شوہر مصروف ہوتے تو تنظیمی دوروں پر وہ میرے ساتھ جاتے ۔ میری سسرال میں شروع سے ایک کھانا تھا، یعنی دوپہر کے بجائے صرف رات کا کھانا ہوتا اور وہ بھی ایک ڈش، ایک سے زیادہ نہیں ہوتی۔ صبح اٹھنے کے بعد میری تعلیمی مصروفیات ہوتی ہیں، پھر جماعت کی تنظیمی مصروفیات اور پھر گھر کی مصروفیات۔

فرائیڈے اسپیشل: پنجاب میں جماعت اسلامی کی کامیابی نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور آپ کی آئندہ کی کیا منصوبہ بندی ہے؟

حمیرا طارق: پنجاب ہی میں نہیں، پاکستان کے تمام صوبوں میں یہ مسئلہ ہے۔ الیکٹ ایبلز کا معاملہ ہے جو وڈیروں، جاگیرداروں، چودھریوں، نوابوں کے علاوہ پیری، مریدی اور گدی نشینوں کا نظام ہے۔ گائوں دیہات میں ہمارے وفود جاتے ہیں تو مساجد سے اعلان ہوتا ہے کہ انہیں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ یوں دیہات میں ہمارا کام نہیں ہونے دیا جاتا۔ اگرچہ الخدمت کے تحت جماعت اسلامی کا کام دیہات میں ہے، خصوصاً سیلاب کے وقت ہمارے کارکنان جانوں پر کھیل گئے تھے اور لوگوں کو بچایا تھا۔ پھر جماعت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں۔ الیکشن میں پیسے کا کھیل ہوتا ہے، انتخابی جلسہ گائوں میں کرنے کے لیے دیگیں پکانی ہوتی ہے۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ایسا انتظام کریں۔ ہمارے کارکن محنتی ہیں، لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شہروں میں لوگ ووٹ دینے نہیں نکلتے، اور اگر نکلتے ہیں تو ان ہی جماعتوں کو دیتے ہیں جو مشہور ہوتی ہیں، اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ووٹ ضائع نہ ہوگا، یعنی جس کو ہم ووٹ دیں وہ جیت جائے تو ہمارا ووٹ کا حق ادا ہوا۔ اب ہم لوگوں میں سمجھ پیدا کررہے ہیں کہ آپ کے ووٹ کے ذریعے اگر بے ایمان اور چور حکومت میں آئے تو ان کی چوری کے معاونوں میں آپ کا نام لکھا جائے گا۔ یوں ایک طرف چور حکمران آپ کا حق کھا کر اپنا اُلّو سیدھا کریں گے، دوسری طرف اُن کی چوری کی معاونت کا جرم آپ کے اعمال نامے میں لکھا جائے گا۔

انتخابات کے سلسلے میں پنجاب میں بلاک کوڈ پر تنظیم سازی
پر توجہ دی گئی ہے، ہر بلاک کوڈ پر ناظمہ بنائی گئی ہے، اس کو کام سمجھادیا گیا ہے، اب اس پر مسلسل کام کرنا ہے۔ یہ کام ہماری قیمہ دردانہ باجی نے اپنے دور میں نہایت دل سوزی اور محنت سے کیا ہے۔

اب دیہی علاقوں کے ووٹر پر توجہ دینے کے لیے باقاعدہ ایک نظام کے تحت کام کرنا ہے۔ دیہات میں کام کے لیے مردوں کو کھڑا رکھنا ہوتا ہے۔ سستا بازار، میڈیکل کیمپ یا ڈسپنسری… کسی بھی کام کے لیے مؤثر فرد کو ڈھونڈنا ہوتا ہے، اور پھر مردوں کو ساتھ لے کر وہاں کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ایک الگ نظم کے تحت کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: شفاف الیکشن کے لیے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہیے؟ یعنی آپ کے کیا مطالبات اس سلسلے میں ہیں؟

حمیرا طارق: الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں کو اس کے لیے دو باتوں پر نظر رکھنی چاہیے: (1) دھاندلی (رگنگ) اور (2) پری پول دھاندلی۔ اسٹیبلشمنٹ کا طریقہ کار تو آج بچوں کی بھی سمجھ میں آرہا ہے۔ پہلے ہی سے پورے میڈیا کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے کہ فلاں پارٹی جیتے گی، یعنی اگلی لیڈرشپ کون ہوگی۔ یعنی جو کام عوام کا ہوتا ہے پری پول رگنگ کے ذریعے پہلے سے ہی طے کردیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ میڈیا میں ہر پارٹی کو یکساں موقع ملنا چاہیے، ہر جماعت میڈیا پر آکر اپنا منشور پیش کرے۔ الیکشن کے جو قواعد و ضوابط ہیں ان پر عمل کیا جائے، جیسے اخراجات کے سلسلے میں ایک حد بنائی گئی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔ امیدوار اپنے جیتنے کے لیے کروڑوں روپے لگاتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اُسے امید ہوتی ہے کہ وہ اربوں کمائے گا، اور کماتا ہے۔ آخر وہ کیسے عوام کی فلاح کا کام کرے گا؟ وہ تو اپنی ہی فلاح پر توجہ دیتا ہے۔ اگر انتخابی اخراجات کی حد کے قانون پر پابندی کرائی جائے گی تو وہ لوگ چھٹ جائیں گے جو پیسہ بنانے آئے ہیں۔

پھر ہر سطح سے عوام کے نمائندے ہونے چاہئیں۔ ہمارے ہاں ٹوٹل نمائندگی اَپر کلاس سے ہوتی ہے، اِکا دُکا لوئر اور مڈل کلاس کے لوگ ہوتے ہیں جن کو پیسے اور پریشر ڈال کر اپنے ساتھ ملالیا جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کے نمائندے ہر سطح سے ہوتے ہیں۔ اہلیت اور قابلیت میں ایسے ہوتے ہیں کہ ایوانِ نمائندگان میں ایک بھی ہوتا ہے تو عوام کے حق میں ٹھیک بات کرتا ہے اور ڈٹ جاتا ہے۔ اسے خریدا نہیں جاسکتا۔ ہمارے لوگوں کی ایمان داری کی گواہی فریقِ مخالف بھی دیتے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ کے خیال میں کون سا مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے حل سے سارے مسائل کے حل جڑے ہیں؟

حمیرا طارق: ہمارا سب سے اہم مسئلہ دین سے دوری ہے۔ اس کے لیے کسی اونچی سطح کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، بس اسکولوں اور کالجوں میں سیرتِ رسولؐ پڑھا دی جائے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم پڑھا تو رہے ہیں لیکن روحانی طور پر نہیں پڑھا رہے۔ اس کو اسوہ حسنہ کے طور پر، عملی کردار کے طور پر سمجھانا ضروری ہے۔ ہم محبت کے طور پر پڑھاتے ہیں، اور وہاں ہی ختم کردیتے ہیں۔ عمل میں اتارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ سیرتِ رسولؐ پڑھانے کے ساتھ اگر کردار میں اتاریں اور یہ سمجھادیں کہ اگر یہ کردار ہو تو آپ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ آسمان سے بھی رزق برسے گا اور زمین سے بھی ابلے گا، اور کامیابی تو اصل میں یہی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: بچوں کی تربیت کے سلسلے میں مائوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہیے؟ خاص طور سے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں؟

حمیرا طارق: بچوں کی تربیت کے لیے مائوں کو وقت دینا ہوگا، اُن پر مکمل توجہ دینی ہوگی۔ بچہ جب اسکول سے آتا ہے تو ماں کو پوری کہانی سنانا چاہتا ہے لیکن ماں کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ پھر بیوی اور شوہر کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جن کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی کدورت بچوں پر نکالتے ہیں۔ یہ مسائل ہر دور میں ہوتے ہیں لیکن والدین کو اپنا غم و غصہ بچوں پر نہیں نکالنا چاہیے، خود اپنا کتھارسس کریں، اللہ کے آگے رکھیں اور اس سے حل مانگیں۔ بچہ جب گھر آئے تو اسے ماں کا مسکراتا ہوا چہرہ ملے، ماں کا قرب حاصل ہو۔ والدین بچوں کو محبت اور اعتماد دیں۔ اگر بچوں کو یہ سب نہیں ملے گا تو وہ اسے باہر ڈھونڈیں گے۔

فتنے کے اس دور میں دو چیزوں سے خود بھی جڑنا چاہیے اور بچو
ں کو بھی جوڑنا چاہیے: ایک قرآن، دوسرا نماز۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے، قرآن دلوں کی سیاہی دور کرتا ہے۔

آج والدین بچوں کی تعلیم کے لیے یکسو ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ بیٹی کی تعلیم اُس کے حق کی حفاظت کرتی ہے، یعنی عورت اگر خودمختار ہو تو مرد اس پر ظلم نہیں کرسکتا، اس کا استحصال نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ معاملہ نہیں ہے، عورت نے خودمختار ہونے کے لیے ریسپشن پر کھڑے ہونا، پیٹرول پمپ پر کھڑے ہونا گوارا کرلیا ہے۔ اس سے معاشرہ اور خود عورت عدم توازن کا شکار ہوگئی ہے۔

یہ اس لیے ہوا کہ مرد نے عورت پر ناجائز دبائو ڈالا۔ اگر مرد عورت کے حقوق کا خیال رکھتا اور خاص طور پر وہ حقوق جو اسلام عورت کو دیتا ہے تو بات اس طرف نہ جاتی۔ آج طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے، خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ خودمختاری کے چکر میں لڑکیاں شادی ہی نہیں کررہی ہیں یا پھر بہت دیر میں کررہی ہیں، پھر بچوں کی پیدائش کے مسائل ہوتے ہیں۔

والدین کو بیٹے اور بیٹی دونوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ دونوں کو اپنے اپنے فرائض سمجھائے جائیں۔ فرائض سمجھ میں آجائیں گے تو حقوق خودبخود مل جائیں گے۔ آج کی نسل کو سمجھانا مشکل نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اساتذہ نے بھی اپنا فرض پورا کرنا چھوڑ دیا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ کے خیال میںغزہ میں مسلمانوں کے بہتے لہو کو روکنے کی کیا تدبیر ہونی چاہیے؟

حمیرا طارق: قبلۂ اوّل ہمارے ایمان کا حصہ ہے، یعنی الاقصیٰ ہماری زندگی ہے۔ فلسطین اور غزہ کے لوگوں نے اپنی زندگیاں اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے دیں۔ زندگی دے کر ایمان بچایا، اور ہم ایمان گنوا کر زندگی بچا رہے ہیں۔ ہم مجبور نہیں ہیں۔ ہم مظاہروں اور ریلیوں میں شرکت کرکے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے، سوشل میڈیا وار کا حصہ بن کر کچھ کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسرائیل پر دبائو کے ذریعے جنگ روکی جاسکتی ہے، مسلم حکمرانوں کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اور اپنے بچوں کو بھی اس کی آگاہی دینی چاہیے، اور اللہ سے دعائیں کرنی چاہئیں، اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑانا چاہیے۔

فرائیڈے اسپیشل: خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

حمیرا طارق: خواتین سے یہ کہنا چاہوں گی کہ پیارے رسولؐ کے احسانات ساری انسانیت پر ہیں لیکن عورت پر سب سے زیادہ ہیں۔ آپؐ کے ذریعے ہمیں جینے کا حق ملا، حقِ ملکیت ملا، حقِ وراثت ملا، شادی کے سلسلے میں مرضی کا حق، خلع کا حق، پھر بیٹی کی نگہداشت پر خوش خبری، ماں کے پیروں تلے جنت… یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محسنِ انسانیت تو ہیں ہی، محسنِ نسوانیت بھی ہیں۔ لہٰذا عورت کو اتنی ہی دل سوزی کے ساتھ آپؐ کی پیروی کرنی چاہیے۔

یقین جانیں اگر عورت میں ایمان ہے تو قوم کبھی بے دین نہیں ہوسکتی۔ آج عورت کو برانڈ اور فیشن یاد ہے، بیوٹی پارلر پرانی بات ہوگئی ہے اب تو کالی سے گوری اور بوڑھی سے جوان ہونے کے لیے عورت کیا کچھ نہیں کروارہی! اب یہ لاکھوں کا گیم ہوگیا ہے، ایک انڈسٹری بن گئی ہے۔ نانی دادی بن کر بھی نانی دادی نظر نہیں آنا چاہتی۔ بھلا نئی نسل اُن کی کیوں سنے گی جو اس کے مقابلے میں کھڑی ہونا چاہتی ہیں!

سمجھ لیں کہ عورت بادشاہ گر ہے، نسلوں کی معمار ہے۔ دراصل تہذیب عورت کے ہی ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا میں خواتین سے کہوں گی کہ وہ اپنی نسلوں میں دین سے محبت کے ساتھ اس پر عمل کرنے کے جذبے کو ابھاریں۔ آج ہمیں خالد بن ولید، ابو عبیدہ اور محمد بن قاسم درکار ہیں۔ یقین رکھیں کہ یہ کام آپ نے کرلیا تو جلد اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہوگا، اور مسجد اقصیٰ آزاد ہوگی اِن شاء اللہ۔
آپ کے قیمتی وقت کا بہت شکریہ۔