غزہ کی مزاحمت

(تیسری قسط)

کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والے معاہدے نے مخاصمت کو ختم کردیا اور صرف تین سال کے عرصے میں اسرائیل نے مصر کے سینائی کے علاقے کو مکمل طور پر خالی کردیا۔ اسرائیل اور مصر کے درمیان کم و بیش پانچ سال تک مختلف سطح پر مذاکرات ہوتے رہے، مگر اِس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اور جب امریکہ نے انٹری دی تو دیکھتے ہی دیکھتے امن معاہدہ محض ممکن نہ ہوا بلکہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

یہ بات کسی بھی سطح پر ڈھکی چھپی نہیں رکھی گئی کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں شروع ہونے والا طویل عبوری دور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار اور جامع امن یقینی بنانے کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس کا بنیادی مقصد فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو سلامتی سے متعلق خطرات سمیت ہر طرح کے بوجھ سے پاک کرنا تھا۔ اسرائیلی ذہنیت یہ تھی کہ جب فلسطین کی سرکردہ شخصیات اقتدار کا مزا چکھیں گی اور اُس سے وابستہ مراعات کی حامل ہوں گی تو اُنہیں قدرے پُرتعیش زندگی بسر کرنے کی عادت ہوجائے گی اور پھر وہ پُرلطف زندگی سے الگ ہونے کا تصور بھی نہ کرسکیں گی۔ ایسا نہیں تھا کہ فلسطینی شخصیات کو اقتدار کا مزا یونہی چکھادیا گیا تھا۔ اس اقتدار کے لیے چند بنیادی شرائط بھی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ فلسطینی شخصیات کو اندازہ ہوا کہ جو کچھ اُنہیں دیا گیا ہے اُس کے عوض اُنہیں بھی دینا پڑ رہا ہے۔ بہرکیف، عبوری دور میں اسرائیلی حکومت کو اِن فلسطینی ’’سب کنٹریکٹرز‘‘ پر انحصار کی نوعیت اور ضرورت کا بھی اندازہ ہوگیا، کیونکہ اِن سب کنٹریکٹرز کے لیے سب کچھ آسان نہیں تھا۔ بحران اُبھرتے اور اُنہیں آزماتے رہے۔ جب اوسلو امن عمل ختم ہوا تب اسرائیلی حکام نے اندازہ لگایا کہ یہ امن عمل اُنہیں جو کچھ بھی دے گیا ہے اُس میں ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے انہیں پہلی انتفاضہ سے تب تک فوجیوں کی کم ترین تعداد کو وہاں تعینات رکھنا پڑرہا ہے۔ فلسطینی قیادت میں صرف یاسرعرفات تھے جو اسرائیل کے لیے کسی حد تک دردِ سر بن سکتے تھے اور بنے بھی۔ یاسرعرفات ایک قوم پرست کی حیثیت سے اپنا ماضی نہیں بھولے تھے، اور وہ فلسطینی سرزمین پر جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کی طرف سے دی جانے والی مراعات سے ملتی جلتی کوئی چیز نہیں چاہتے تھے۔ 2004ء میں یاسرعرفات کے انتقال سے اسرائیل کے لیے ایک بڑی پریشانی ختم ہوئی اور اُس کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو اپنی مرضی کے مطابق چلاکر اپنی پالیسیوں سے موافقت رکھنے والے حالات یقینی بنانے میں مدد ملی۔ ہاں، یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

سرکاری سطح پر کئی برس تک غیر معمولی کرپشن بھگتنے اور ہر سطح کے مذاکرات کے نتائج سے مایوس ہونے کے بعد 2006ء میں فلسطینیوں کی اکثریت نے اپنا ذہن تبدیل کیا اور مزاحمتی تنظیم حماس کو اقتدار سے نوازا۔ یہ اقتدار حماس کو ایسے انتخابات کے ذریعے ملا جنہیں مجموعی طور پر مکمل شفاف اور غیر جانب دار قرار دیا گیا۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے بھی انتخابات کے شفاف ہونے کی تصدیق کی۔ ہلیری کلنٹن بعد میں اس بات پر تھوڑی سی جزبز ہوئیں کہ امریکہ نے فلسطینیوں کی حکومت کے تعین میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ طے کرنے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا چاہیے تھا کہ فلسطینیوں پر اب کون حکومت کرے گا۔ 1988ء میں اپنے قیام کے وقت ہی سے حماس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائے جانے والے تنازعے کو ختم کرنے سے متعلق عالمی برادری کے طے شدہ طریق کار کو یکسر مسترد کیا تھا۔ بہرکیف، انتخابی عمل میں حماس کی شرکت اِس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ یہ تنظیم ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور ابھی کچھ مدت تک گزرتی ہی رہے گی۔ حماس کا اقتدار میں آنا اسرائیل سے برداشت اور ہضم نہ ہوا، اُس نے محاصرہ سخت کردیا جس کے نتیجے میں معاشی معاملات تقریباً تھم کر رہ گئے اور فلسطینیوں کی بقاء کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے حماس کے زیرِ اقتدار و زیرِ تصرف علاقوں پر غیر معمولی نوعیت کی اقتصادی پابندیاں نافذ کردیں۔ جو پھندا حماس کے لیے تیار کیا گیا تھا وہ فلسطینیوں کا گلا گھونٹنے کا بھی سبب بنا۔ اور کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہوئے انتخابات کے ذریعے حماس کو حکمرانی کا اختیار بخشا تھا! حماس اور غزہ کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا غیر بیان کردہ پیغام یہ تھا کہ حماس کو ہارنا تھا مگر فلسطینیوں نے اُسے فتح سے ہم کنار کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں حماس اور فلسطینیوںکے خلاف کی جانے والی ’’تادیبی کارروائی‘‘ کے دیگر پہلو بھی اجاگر کیے گئے۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ’’حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لوگوں کو شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اس اقدام کی منطق سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اسرائیل نے کسی بھی علاقے کی نوعیت کو بدلنے اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل سے گریز کے علاوہ 2004ء میں عالمی عدالتِ انصاف کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل سے بھی انکار کیا ہے مگر اِس کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ اس کے بجائے فلسطینی عوام کو عہدِ حاضر کی شاید سخت ترین اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘

غزہ کے خلاف غیر معمولی اقتصادی پابندیوں کا اطلاق بظاہر اس مقصد کے تحت تھا کہ ایک مقبوضہ علاقے میں شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت کو ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ کہتے ہوئے اُسے برطرف کیا جاسکے کہ وہ تو حکمرانی کی اہل ہی نہ تھی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد ترک کرکے اسرائیل کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان طے پانے والے تمام سابق معاہدوں کو بھی تسلیم کرے۔ حماس کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے رکھی جانے والی یہ تمام شرائط یک طرفہ تھیں۔ اسرائیل سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اسرائیل بھی تشدد بندکرے۔ اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا گیا کہ وہ بھی 1967ء کی جغرافیائی حدود کے مطابق فلسطینیوں کا حقِ ریاست تسلیم کرے، اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو بھی سابق معاہدے تسلیم کرنے کا پابند نہیں کیا گیا جبکہ حماس کو پابند کیا گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو قانونی حیثیت دینے والے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کی آبادکاری آسان بنانے والے اوسلو معاہدے کو تسلیم کرے۔ اسرائیل کو سابق معاہدے تسلیم نہ کرنے کا اختیار بخشا گیا۔ ان میں 2003ء کا بش انتظامیہ کا روڈ میپ بھی شامل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتیں ایسی شرائط پیش کر رہی تھیں جن کے تحت حماس کے لیے ان سے مذاکرات ممکن ہی نہ تھے۔ 2014ء کی ایک اسٹڈی میں بتایا گیا کہ جنوری 2006ء میں شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حماس کی حکومت دراصل اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عشروں سے چلے آرہے تنازعے کے حل کا ارتقائی سیاسی عمل شروع کرسکتی تھی، مگر اِس کے لیے بنیادی شرط یہ تھی کہ امریکہ مداخلت سے باز رہے اور یورپی یونین محض خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کرے۔

2007ء میں حماس نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فلسطینیوں کی صفوں ہی سے ابھرنے والی ایسی بغاوت کو کچلا جس کی پشت پر امریکہ اور اسرائیل تھے۔ ایک اسرائیلی اعلیٰ افسر نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ جب ہم قانون اور اخلاقی اقدار کو بھول کر کچھ غلط کرتے ہیں تو کوئی اُسے غلط نہیں کہتا اور اگر حماس ایسا کچھ کر گزرے تو سب لتاڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ حماس کو سفاک اور نفرت سے پُر قرار دینے کی ہر کوشش کے باوجود اسرائیل میں غیر معمولی اشاعت کے حامل ایک اخبار کے ایڈیٹر کو کہنا پڑا کہ حماس نے غزہ پر قبضہ نہیں کیا بلکہ اپنی جائز اور قانونی حکمرانی کے لیے خطرہ بننے والی ایک ملیشیا کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُسے غیر مسلح کیا جو جمہوری روایات کے مطابق اُس کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ امریکہ اور اسرائیل نے ’’جمہوریت کے فروغ‘‘ کی اس کوشش (کھلی بغاوت) کو کچلنے کے حماس کے اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے غزہ کے پیچ کچھ اور کَس دیئے۔ جون 2008ء میں حماس نے مصر کے توسط سے اسرائیل سے مذاکرات کیے اور یوں جنگ بندی ممکن ہوئی، تاہم اُسی سال نومبر میں اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کردی۔ اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر خاصا سفاکانہ حملہ کیا جو اُس کے 1955ء کے حملے سے مشابہ تھا۔ تب حملے کا جو مقصد تھا اب بھی وہی تھا … یہ کہ حماس جواب میں کچھ کرے اور اسرائیل کے پاس اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کا جواز ہو۔

اسرائیلی حملہ غزہ اور ملحقہ علاقوں پر ایک بڑے حملے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ 27 دسمبر 2008ء کو اسرائیلی فوج نے آپریشن کاسٹ لیڈ شروع کیا۔ یہ آپریشن فضائی کارروائی سے شروع ہوا اور پھر زمینی و فضائی کارروائی ایک ساتھ شروع کردی گئی۔ اسرائیلی فضائیہ نے جدید ترین لڑاکا طیاروں کی تقریباً تین ہزار پروازیں کیں اور غزہ پر کم و بیش ایک ہزار ٹن دھماکا خیز مواد گرایا۔ اس دوران اسرائیل کی بری فوج نے خفیہ معلومات جمع کرنے کے اعلیٰ نظام کے علاوہ روبوٹ اور ٹی وی کی مدد سے کام کرنے والی خود کار گنوں سے مسلح کئی بریگیڈ سرحد پر تعینات کیے۔ دوسری طرف حماس نے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ اور گولے داغے۔ 18 جنوری 2009ء کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ امریکہ کے نومنتخب صدر بارک اوباما نے اُسے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔ دو دن بعد بارک اوباما امریکہ کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے تھے۔ بہرکیف غزہ کا محاصرہ جاری رہا۔ اس حملے کے دوران بش انتظامیہ اور امریکی کانگریس نے اسرائیل کی بھرپور غیر مشروط حمایت کی۔ اس حملے کے دوران تمام ہلاکتوں اور تباہی کی پوری ذمہ داری حماس کے سر ڈالنے والی قرارداد امریکی سینیٹ میں مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کی گئی، جبکہ ایوانِ نمائندگان میں اس قرارداد کی حمایت میں 390 ووٹ کاسٹ ہوئے اور 5 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں بھی خاصی بڑی تعداد میں لوگوں نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف اس کارروائی کو غلط قرار دیا۔ 2009ء میں جنوبی افریقا کے معروف قانون دان رچرڈ گولڈ اسٹون کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے حقائق تلاش کرنے والے ایک مشن کے تحت مرتب کی جانے والی رپورٹ میں اسرائیل کو جنگی جرائم اور ممکنہ طور پر انسانیت سوز جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ اس رپورٹ میں حماس کو بھی سنگین جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا، تاہم یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ جرائم اسرائیلی جرائم کا عشرِ عشیر بھی نہ تھے۔ اسرائیلی کالم نگار گڈین لیوی کے مطابق یہ واضح تھا کہ ’’اس بار ہم حد سے کچھ زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔‘‘

اسرائیل نے حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں اپنے حقِ دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے آپریشن کاسٹ لیڈ کو بالکل درست اور قانونی اعتبار سے جائز قرار دیا۔ خیر، محض برائے نام قسم کی تحقیقات میں بھی اسرائیل کا یہ جواز بالکل لاحاصل تھا۔ اگر اسرائیل کو حماس کے راکٹ حملوں سے بچنا ہی تھا تو اُسے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اسرائیل اگر واقعی امن چاہتا تھا تو اُسے جنگ بندی کے معاہدے کی بحالی یا تجدید کا آپشن اختیار کرنا چاہیے تھا۔ اسرائیل کے ایک انٹیلی جنس افسر نے کرائسز گروپ کو بتایا کہ جنگ کا آپشن بات چیت کے دوران پیش کیے جانے کے بعد بھی جنگ بندی کا آپشن بہرحال موجود تھا۔ اگر آپریشن کاسٹ لیڈ کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا نیٹ ورک اور بنیادی ڈھانچہ ختم کرنا تھا تو اسرائیلی حملے کے بعد یہ جواز بھی صفر کے مساوی رہ گیا تھا۔ اسرائیل نے کھل کر ایسے مقامات کو نشانہ بنایا جن کا حماس سے کوئی تعلق تھا نہ دہشت گردی سے۔ (جاری ہے)