آئندہ حکومت اور عالمی اداروں کے خدشات
انتخابات کے لیے پہلامرحلہ مکمل ہوچکا ہے، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے اٹھائیں ہزار سے زائد امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں، امیدواروں کی دلچسپی دیکھ کر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ملک میں انتخابات کا ماحول بن گیا ہے ۔ سب سے اہم نکتہ امن و امان کا ہے۔ اسلام آباد میں بلوچستان سے آئے ہوئے بلوچ یک جہتی مارچ کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا کہ سبزی منڈی میں ایک تاجر کی ٹارگٹ کلنگ ہوگئی۔ انتخابی فضا کے لیے پُرامن ماحول درکار ہے، اس کے باوجود کچھ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ سب کچھ ان کی پلیٹ میں آچکا ہے۔ مسلم لیگ(ن) دل ہی دل میں خوش ہورہی ہے کہ اب بس اس کی کامیابی کا اعلان باقی ہے، اس کے امیدواروں کو نیب نے کلین چٹ دے دی ہے۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے پر کوئی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ آج کا منظرنامہ تو یہی ہے کہ تحریک انصاف انتخابی عمل سے باہر ہوگئی ہے، اس کی سوشل میڈیا ٹیم سیاسی حریفوں کو ناکوں چنے چبوائے گی البتہ عدالتی محاذ پر اسے ریلیف مل سکتا ہے وہ بھی صرف اعلیٰ عدلیہ ہے۔ عدلیہ سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیے جانے تک تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت مستقبل میں عام انتخابات ہی نہیں بلکہ ہر سطح کے انتخابی عمل سے باہر رہے گی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف یہ ہے کہ پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہی پارٹی آئین کے مطابق نہیں تھا اور پی ٹی آئی کے وکیل نے خود انتخابی عمل میں پارٹی آئین کی خلاف ورزیوں کو تسلیم کیا، اور اعتراف کیا کہ الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی تک فراہم نہیں کیے گئے۔ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتوں کی فہرست جاری کی ہے، اس میں تحریک انصاف کا نام شامل نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے کچھ فیصلے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ الیکشن کمیشن سرفراز بگٹی کے معاملے پر خاموش رہا، فواد حسن فواد کا معاملہ زیر التواء رکھ لیا ہے، احد چیمہ کو فارغ کردیا ہے۔ سرفراز بگٹی ’باپ‘ پارٹی کی جانب سے سینیٹ کے رکن تھے، پھر انتخابات نزدیک آتے ہی وہ دوسری پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ایک کالعدم جماعت نئے نام سے رجسٹرڈ ہوگئی ہے اور اس کے امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ آئین و قانون کی پاس داری تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔ ملک میں قانونی مساوات اور یکساں انصاف کا کلچر ہی ہماری قومی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ بہرحال الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لیے اعلیٰ عدلیہ کا فورم ہے۔
اگلے سال فروری میں ملک میں عام انتخابات تو جیسے تیسے ہو ہی جائیں گے لیکن حکومتوں کے لیے اصل چیلنجز کیا ہیں؟ یہ بات ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگی کہ اِس وقت ہماری ریاست کو سب سے زیادہ قومی معیشت کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے۔ کچھ بہتری ہوئی ہے لیکن استحکام لانے کے لیے بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری لانے کی ضرورت ہے۔ بہت زور لگاکر معیشت کو سیدھا کرنے کی کوشش کرلی جائے مگر عدلیہ اور سیاست کے مختلف فیصلے اس کے راستے میں مزاحم ہیں۔ کچھ تحفظات حال ہی میں عالمی بینک نے بھی ظاہر کیے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر پاکستان کی مدد جاری رکھیں گے، تاہم اصلاحاتی پروگرام پر عمل درآمد انتخابات کے بعد کچھ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے خیال میں پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت متعدد اقدامات واپس لے سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منظم مفاد پرست طبقہ تیزی سے ضروری اصلاحات کو واپس لے سکتا ہے، نئی حکومت گیس، توانائی، ٹیکس اقدامات سے متعلق اقدامات ختم کرسکتی ہے، سبسڈی، تجارتی ٹیرف اور جائدادوں پر ٹیکس وصولی بھی ختم ہوسکتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ اپنی جگہ، یہ بات درست ہے کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے گورننس میں بہتری لانے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آسکتی ہیں، خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کے خاتمے پر نئے فیصلے لیے جاسکتے ہیں۔ قومی معیشت میں بہتری لانے کے لیے صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کا خاتمہ ضروری ہے۔ زراعت، چھوٹے تاجروں اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لاکر ٹیکس کا دائرہ بڑھانا ہوگا۔
ان تحفظات کے پس منظر میں اب آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ملکی سیاسی جماعتیں اصل میں سوچ کیا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ اقتدار اسے ہی ملنا چاہیے، اگر عمران خان ملک کی اصل قوت بھی یہی سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کے بارے میں جو فیصلے کیے وہ ملک کو تیزی سے نادہندگی کی طرف لے جارہے تھے۔ سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بہت تلخی میں دکھائی دی ہیں، ان دونوں نے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے، اگر اعلیٰ عدلیہ سے بلے کے نشان کی بحالی کا فیصلہ آجائے تو یہ ردعمل مزید بڑھ جائے گا اس سے انتخابی عمل بھی متاثر ہوسکتا ہے، اور جن ’’مثبت نتائج‘‘ کے بارے میں سوچ رکھا گیاہے وہ سب تلپٹ ہوجائے گا۔ ملک میں مقابلہ اصل میں مسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف کے مابین ہی ہے لیکن بلّے کا نشان بحال ہوگیا اور بیلٹ پر آگیا تو اس کے لیے مشکل ہوجائے گی، انتخابات والے دن تحریک انصاف کا ووٹر باہر نکل کر سارے تخمینے غلط ثابت کردے گا۔ تحریک انصاف کے انتخابی نشان کی بحالی تک سیاسی منظر نامہ دھند کا شکار رہے گا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی نے اپنی صفوں میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کی، اور مثبت نتائج کے لیے جہاں معاملات درست کرنے کی ضرورت تھی وہاں اپنے معاملات درست کرلیے ہیں۔ ملکی سطح پر انتخابات کا اصل میدان پنجاب ہے۔ سندھ میں اصل انتخابی معرکہ کراچی میں لڑا جائے گا۔ ان انتخابی معرکوں کے نتائج جو بھی نکلیں ریاست کے معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اگر الیکشن کی گرما گرمی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی رہی تو ملک کے مسائل بڑھ جائیں گے۔ یہ بات طے ہوجانی چاہیے کہ سارے اسٹیک ہولڈرز جوش سے نکل کر ہوش کی طرف آئیں۔ اس حوالے سے خبر یہ ہے کہ تین بڑوں کی ملاقات ہوئی ہے جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔
اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث معاملہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکثر انتخابی نتائج متنازع رہے ہیں جس کی وجہ سے تشکیل پانے والی حکومتیں سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہیں۔ایک طرف پی ٹی آئی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ پر تحفظات ہیں، دوسری جانب بلے کے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا تقاضا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ ہمیں انتخابی نشان بلا نہ ملا تو ہمارے امیدوار آزاد تصور ہوں گے۔ ابھی تحریک انصاف کوکلیئرنس کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرلی ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو جہاں سپریم کورٹ سے سائفر کیس میں ضمانت پر رہائی کے حکم کی شکل میں ایک بڑی کامیابی ملی، وہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیے جانے اور انتخابی نشان بَلّے سے محرومی کی صورت میں ایک بڑا دھچکا بھی لگا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن کبھی یہ فیصلہ نہ دیتا اگر تحریک انصاف کے وکیل پارٹی آئین کے مطابق پارٹی الیکشن ثابت کردیتے۔ انہوں نے تو خود ہی تسلیم کرلیا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔ اس مؤقف کے بعد تحریک انصاف اعلیٰ عدلیہ میں اپنا کیس کس طرح لڑے گی ؟ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تو یقینا معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو بھی اپنے فیصلے کے دفاع کا موقع ملے گا۔
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات اس کے وجود میں آنے کے 22 سال بعد ہوئے۔ 1970ء میں ہونے والے ان انتخابات کے بعد 2018ء تک مزید 9 انتخابات ہوئے۔ 1977ء کے انتخابات کو اپوزیشن نے مسترد کردیا، جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگا۔ اس کے بعد ہونے والے دیگر انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 3 بار، مسلم لیگ (ن) نے بھی تین بار، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف نے ایک ایک بار حکومت بنائی ہے۔ جوں جوں ہم پولنگ کے دن کے قریب پہنچ رہے ہیں یہ عیاں ہے کہ یہ ڈرامائی طور پر مختلف انتخابات ہوں گے جن کا اس قوم نے اب تک تجربہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے پورے منظرنامے کو بدل دیا ہے، گزشتہ برسوں کے دوران انتخابی مقابلے انتہائی تلخ ہوگئے ہیں اور مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کردہ مسائل اور حل کی جگہ ذاتی حملوں نے لے لی ہے۔ یہ گزشتہ برسوں میں بتدریج ہوا ہے، اور اس کا ایک بڑا سبب سیاسی تربیت کا فقدان ہے جو کبھی ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کے انتخابات کے ذریعے دی جاتی تھی۔ موجودہ نسل کو اندازہ نہیں ہے کہ ان انتخابات نے ملک کے نوجوانوں کی سیاسی نفسیات اور سیاست دانوں کے مجموعی طرزعمل پر کیا اثر ڈالا ہے۔ یہ واقعی ملک کے مستقبل کے لیڈروں کو تیار کرنے کے لیے ایک اچھی تربیت تھی، لیکن طلبہ یونینوں پر پابندی لگانے کے بعد یہ سب کچھ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا کیونکہ کچھ حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ اس سے ان کی حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔