تربت سے اسلام آباد بلوچ خواتین کا احتجاجی لانگ مارچ

حکومت اور اسلام آباد پولیس کی ہٹ دھرمی نے فضاء حکومت اور ریاست مخالفت میں بدل دی۔

ملک بھر میں عام انتخابات 2024ء کے لیے انتخابی سرگرمیاں اور سیاسی فعالیت زوروں پر ہے۔ تحریک انصاف کے لیے جہاں ملک کے دوسرے حصوں میں حالات نامساعد بنائے گئے ہیں، پنجاب میں اس کے وابستگان سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے اور اس کے امیدواروں کو اٹھائے جانے اور زدوکوب کرنے کے واقعات تواتر سے پیش آئے ہیں، وہاں بلوچستان میں بھی چنداں رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ صوبائی سیکریٹریٹ سیل کیا گیا، جو بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ڈی سیل کیا گیا۔ اس منظرنامے اور انتظامی افسران کے آر اوز اور ڈی آر اوز بنائے جانے کے بعد عیاں ہے کہ انتخابات کسی صورت شفاف نہیں ہوں گے۔ اور عدم شفافیت غیر یقینی حالات کا باعث بنے گی۔ بلوچستان پہلے ہی ایسی کیفیت سے دوچار ہے۔

انتخابات کے ایسے ماحول میں جب بڑی خبریں دب جاتی ہیں، تربت سے شروع ہونے والا لانگ مارچ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نمایاں رہا، حالانکہ ملکی ابلاغ کے ذرائع پر اسے نشر و شائع کرنے پر پابندی تھی۔ اس کے بعد ملک کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کوریج کی ضرورت لانگ مارچ کے شرکاء کو بھی نہیں رہی۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کی سنگین حماقت کے بعد بلوچ خواتین اور بچیوں کے احتجاج کی گونج عالمی میڈیا پر سنائی دی۔ اظہارِ رائے پر قدغن اور انسانی حقوق کی پامالی پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یورپی یونین کو بولنا پڑا، جس کے لیے ملک کی نااہل نگراں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔

تربت سے تعلق رکھنے والے نوجوان بالاچ کا ماورائے قانون و عدالت قتل اوّل فاش غلطی تھی، مابعد اس کے ردعمل میں تربت کے اندر مرد و زن کے میت کے ساتھ کئی دنوں تک دھرنے کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ تدفین کے بعد لاپتا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی ڈاکٹر سمی دین اور تربت سول سوسائٹی کے گلزار دوست کی قیادت میں خواتین، بچوں اور بچیوں نے تربت سے لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔ کوئٹہ سے ڈاکٹر ماہ رنگ نے قیادت سنبھالی۔ لانگ مارچ شروع ہوا تو محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے اہلکاروں پر مقدمات درج ہوئے۔ پھر بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔ لانگ مارچ کوئٹہ پہنچا نہیں تھا کہ صوبے کی نااہل حکومت نے شہر کوئٹہ میں کرفیو کا سا ماحول بنادیا۔ دو دن بعد یہ لانگ مارچ دکی کے راستے کوہلو روانہ ہوا، وہاں زبردست احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ بارکھان کے لوگ بھی یک جہتی کے لیے بڑی تعداد میں نکل آئے۔ دسمبر کو ماہ رنگ بلوچ ڈیرہ غازی خان پہنچیں تو پنجاب پولیس نے زور زبردستی کا چلن کیا۔ تونسہ میں ایک ہجوم لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ یکجا تھا، اور جب اسلام آباد پہنچے تو پولیس اور انتظامیہ نے حد کردی۔ خواتین اور بچوں پر رات کی سردی میں واٹر کینن کا استعمال کیا۔ انہیں زدوکوب کیا گیا۔ مرد اہلکار اُن پر حملہ آور تھے۔ خواتین کے لباس پھاڑ دیے گئے۔ انہیں تھانوں میں بند کردیا گیا۔ بلوچ طلبہ کی گرفتاریاں ہوئیں جو ان کے احتجاج میں شریک ہونے آئے تھے۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ لانگ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ایک دو دن احتجاج کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹنا تھا، مگر حکومت اور اسلام آباد پولیس کی ہٹ دھرمی نے فضاء حکومت اور ریاست مخالفت میں بدل دی۔ ان کی حمایت میں توانا آوازیں اٹھیں۔ اینکر حامد میر گویا ہر لمحہ ہمراہ رہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میں تحریک جمع کرائی، ماہ رنگ بلوچ کے ہمراہ حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ کے جبر اور سلوک پر کڑی تنقید کی، ان کے رویّے اور عمل کو آئین اور قانون کے قطعی برعکس قرار دیا۔ گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ اسلام آباد پہنچے۔ انہیں سردار اختر مینگل نے بھیجا۔ گورنر عبدالولی کاکڑ کا تعلق سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی سے ہے۔ جمعرات 21 دسمبر کو سردار اختر مینگل کی رہائش گاہ پر ان کی پریس کانفرنس میں گورنر کاکڑ بھی موجود تھے۔ سردار اختر مینگل نے انہیں ہدایت کی تھی کہ اسلام آباد جاکر ان خواتین اور بچوں کو رہا کرائیں، صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کریں۔

ماہ رنگ بلوچ غفار لانگو کی بیٹی ہیں۔ غفار لانگو جیل میں قید رہے۔ رہا کردیے گئے، پھر لاپتا ہوگئے، یہاں تک کہ ضلع لسبیلہ میں ان کی لاش برآمد ہوئی۔ ان کی موت پر اخبارات میں خبر لگی کہ ممتاز گوریلا کمانڈر غفار لانگو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔ ان کی موت کے بعد کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج ہوا۔ لواحقین بھی شریک تھے۔ ماہ رنگ بلوچ کم سنی میں اس احتجاج میں شریک تھیں۔ یعنی اس طرح یہ لڑائی سیاسی میدان میں داخل ہوئی۔ غفار لانگو کی البتہ شہرت اچھی نہیں تھی۔ انہیں اغوا برائے تاوان کے پے درپے واقعات میں شامل، اور اُن کا تعلق کالعدم بلوچ گروہ سے بتایا جاتا تھا۔

بہرحال خواتین کے حالیہ احتجاج کو راست طریقے سے نمٹایا نہیں گیا، وگرنہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ اور ریاست کے لیے بدنامی کا باعث نہ بنتا۔ بلوچ خواتین اور بچیاں سڑکوں پر تھیں کہ اس اثناء میں سول سیکریٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں نگراں صوبائی وزیرداخلہ زبیر جمالی اور نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ذریعے پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کالعدم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا کمانڈر سرفراز بنگلزئی سرنڈر ہوا۔

اس نے ہتھیار رکھنے کی وجوہات بیان کیں۔ اسی ہال میں اس تنظیم کا سربراہ گلزار امام میڈیا کے سامنے پیش کیا جاچکا ہے۔ گلزار امام شنبے ترکی سے پکڑا گیا تھا، اب گویا قیدی کی زندگی بسر کررہا ہے، وہ مطلوب جگہ و پروگرام میں کڑی نگرانی میں لایا جاتا ہے، اس سے باتیں کہلوائی جاتی ہیں۔ سرفراز بنگلزئی کئی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور کالعدم تنظیموں کے درمیان بھی اس کی حیثیت متنازع رہی۔ حیربیار مری اور زامران مری کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں بی ایل اے تقسیم ہوئی تو اس نے زامران کے ساتھ یونائیٹڈ بلوچ آرمی بنائی۔ دونوں تنظیموں میں خونریز تصادم ہوئے جن میں درجنوں مسلح لوگ مارے گئے۔ سرفراز بنگلزئی اور یو بی اے نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی کئی سنگین وارداتیں کیں۔ مئی 2015ء میں مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں مسافر بسوں سے 20 مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد نیچے اتار کر گولیاں ماری گئیں۔ ان کی اکثریت کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ اوربلوچستان کے دیگر پشتون علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ بڑا احتجاج ہوا۔ یہ مستونگ، دشت، بولان میں مزدوروں،مسافروں اور نہتے شہریوں کے قتل کے کئی دیگر سنگین واقعات میں بھی ملوث تھا۔ سرفراز بنگلزئی اس جنگ میں خود دو بیٹوں اور قریبی رشتے داروں کو بھی گنوا چکا ہے۔

غرض نگراں حکومتیں خیر کے بجائے بے خیری پھیلانے کا باعث بنی ہیں۔ یہ اپنی نوکری اور عہدے پکے کرنے کی خاطر ریاست کے لیے شرمندگی اور نقصان کی وجہ ہیں۔