ہمارے حکمرانوں نے مشرق پاکستان سے سبق نہیں سیکھا
بلوچستان کی آگ کی تپش اور شعلے کوئٹہ سے باہر کیوں اور کیسے نکلے؟ اگر اس سوال کا جواب بہت پہلے تلاش کرلیا جاتا تو ایسی مشکل اور مصیبت کبھی دیکھنے کو نہ ملتی۔ اسلام آباد کے حکمران اور میڈیا والے سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کوئی فریاد لے کر وہاں گئی ہیں تو ان کا اندازہ غلط ہے، کیونکہ ماہ رنگ پاکستانی عوام کو بتانے گئی ہیں کہ ہم نے آخر تک آپ سے درخواست کی کہ ہماری بات سنو، اپنے مظالم بند کرو اور ہمیں بھی اس ملک کا باشندہ سمجھو۔ اپنے اس مؤقف کا اظہار انہوں نے بار بار کیا، لیکن فیڈریشن کے پایۂ تخت کے کان بہرے اور زبان صرف طاقت کی زبان ہے۔
ذرا ماضی کو دیکھتے ہیں۔ 1970ء کے عام انتخابات میں عوام نے ایک فیصلہ دیا تھا جسے تسلیم نہیں کیا گیا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ بھی دیکھیں کہ وہ نتیجہ کس نے تسلیم نہیں کیا تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے فروری کے مہینے میں پنجاب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا کہ جو اراکین مغربی پاکستان سے اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے ڈھاکہ جائیں گے میں ان کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ یہ عوام کے خلاف طاقت کا بے رحم فیصلہ تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بھٹو نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے اسباب اور عوامل کا کھوج لگانے کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن بنایا لیکن اس کی رپورٹ شائع نہیں ہونے دی گئی۔ اکتوبر 1973ء میں جنرل ٹکا خان کی سربراہی میں بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔ یہاں پر ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ البتہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے مجرم اور ملزم ضرور اپنے انجام کو پہنچے ہیں، جو رہ گئے ہیں انہیں اپنے انجام کو ضرور پہنچنا ہے۔
اِس وقت بھی ملک میں انتخابات کا بگل بجا ہوا ہے، مگر ’’جہانگیر ترین اور پرویز خٹک‘‘ بھی میدان میں ہیں۔ سیاست میں کٹھ پتلی کے کردار ہی اصل میں عوام کا ہدف بن جانے چاہئیں۔ انہیں ووٹ کی طاقت سے پُرامن جمہوری عمل کے ذریعے شکست دینا ہوگی۔ حالیہ بلوچ مارچ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ماہ رنگ کی قیادت میں اس مارچ کو ملک بھر میں جو پذیرائی ملی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو موجودہ سیاست دانوں پر کوئی اعتماد نہیں، اور وہ کسی مردِ آہن یا صنفِ آہن کے منتظر ہیں جو انہیں مظالم اور زیادتیوں سے نجات دلا سکے۔ اگرچہ ماہ رنگ کی حالیہ تحریک کا مقصد ریاست میں کوئی تبدیلی لانا نہیں ہے بلکہ بلوچستان کی صورتِ حال سے عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ یہ شیخ مجیب کے آخری دور جیسا طرزِعمل ہے۔ ماہ رنگ واپس بلوچستان جاکر اپنے عوام کو مزید منظم کرنے کی راہ پر چلیں گی۔ اُن کے عمل کے نتیجے میں بلوچستان کے لوگ موجودہ نظام، پارلیمانی جماعتوں اور سرکاری سرداروں اور میروں سے مزید برگشتہ ہوں گے۔ ماہ رنگ کو جو پذیرائی حاصل ہوئی وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے ہوئی ہے۔ ان کے کامریڈوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے اور سرکار کو شکستِ فاش سے دوچار کردیا ہے۔ ماہ رنگ نے پاکستانی عوام کو اصل صورتِ حال بتا دی ہے۔ اب ان کا ٹھکانہ بلوچستان کے کوچہ و بازار ہوں گے، پہاڑ ہوں گے اور ان کے نعرۂ مستانہ کے نتیجے میں بلوچ تحریک ایک اور سمت کی طرف چلے گی جو زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہوگی، کیونکہ بلوچ تحریک کی گونج واشنگٹن، لندن، پیرس اور برسلز تک پہنچ گئی ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کی تحریک بن گئی ہے۔ اگر حکمرانوں نے طاقت کا استعمال جاری رکھا تو ماہ رنگ اور اس تحریک کے بڑے لیڈر نئے راستے اختیار کریں گے۔ کون سے راستے؟ یہ صرف ان کو ہی پتا ہے۔ بلوچستان کے معاملے کے سوا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو پاکستان میں کسی کی سیاسی پوزیشن کو واضح کرتا ہو۔
تربت سے اسلام آباد جانے والے پُرامن، غیر مسلح مظاہرین کے ایک قافلے کو وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے جبری طور پر روک دیا گیا۔پچھلے چند ہفتوں میں بلوچ لانگ مارچ نے حقیقتاً ایک ہلچل پیدا کی ہے اور ہزاروں بلوچ خواتین، مردوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سیاسی کارکنوں، دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں اور عام لوگوں کو بھی متحرک کیا ہے۔ نوجوان خواتین کی قیادت میں یہ قافلہ بلوچستان اور پھر سرائیکی، پختون اور پنجابی علاقوں سے گزرا۔ یہ جمہوری امنگوں کا سب سے بامعنی اظہار تھا اور اس بات کا بھی کہ حالیہ دنوں میں ایک فیڈریشن کیسی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ لوگ اسلام آباد کے مضافات میں پہنچ گئے۔
مارچ کرنے والوں کے مطالبات سادہ ہیں، لیکن یہ ان کی سادگی ہی ہے جو ہم پر حکمرانی کرنے والوں کے لیے ناگوار ہے۔ مظاہرین کے مطالبات ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے گھناؤنے عمل کو ختم کیا جائے، ’انکاؤنٹر کلنگ‘ کا خاتمہ کیا جائے جو ابتدائی طور پر تربت میں احتجاج کا سبب بنی، اور اُن لوگوں کا احتساب ہو جو اس طرح کے تمام طریقوں میں ملوث ہیں۔ یہ بہت سادہ سے مطالبات ہیں جن کے مضمرات بہت گہرے ہوسکتے ہیں۔ایسے مطالبات اٹھانا ممنوع کیوں ہے؟ اور خاص طور پر بلوچ نوجوانوں کے لیے وہ کچھ بیان کرنا کیوں ممنوع ہے جو پاکستان میں تقریباً ہر کوئی پہلے ہی جانتا ہے؟ یعنی ریاست کے کچھ اہلکار ایسے ہیں جو اپنی مرضی کے مالک ہیں اور ان کا احتساب نہیں کیا جا سکتا۔
جس وقت لانگ مارچ جاری تھا اُس وقت مرکزی دھارے کی جماعتیں بلوچستان کے الیکٹ ایبلز کو گھیرنے میں مصروف تھیں۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی تو سب کی نظروں میں تھے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے 8 فروری کے انتخابات کی تاریخ کی توثیق کرتے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ آخرکار وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ نگران وزیراعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ لانگ مارچ کرنے والوں پر پُرتشدد کریک ڈاؤن کے بعد بتایا گیا کہ انہوں نے فوری نوٹس لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی حراست میں لیے گئے سیکڑوں افراد کی جانب سے درخواست دائر کرنے کے بعد کارروائی کی۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بلوچوں کو بار بار ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے بعد ہی ان کا برائے نام مداوا کیا جاتا ہے؟ درحقیقت رواں ہفتے اسلام آباد کے مضافات میں نظر آنے والے مناظر نے شکوک و شبہات کا شکار افراد کو اس بات پر قائل کرنا مزید مشکل بنادیا ہے کہ ایک جمہوری وفاق اب بھی ممکن ہے جس میں بلوچ جیسی قومیں حقیقی شہریت رکھتی ہوں۔ یقینی طور پر اُن لوگوں کے رویوں اور اعمال کو بیان کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے جو ہم پر پرانے زمانے کے نوآبادیاتی طریقوں سے حکمرانی کرتے ہیں۔ مارچ کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے اور اپنی بات کہنے دی جائے۔ ان کی زبان آگ بھڑکانے والی نہیں تھی، یہ ایک درخواست تھی کہ انہیں سنا جائے۔ تاریخی ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے وہ یقینی طور پر بہت زیادہ توقعات کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان خواتین اور مائیں جو پیدل چل کر اُس مقام تک پہنچیں جو وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے، صرف یہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں پُرامن احتجاجی کیمپ میں جانے کی اجازت دی جائے۔ ان پر لاٹھی چارج نہیں ہونا چاہیے تھا، ان پر واٹر کینن کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور پولیس وین میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ ملک کے مرکزی دھارے کو بھی حالیہ مہینوں میں ان میں سے کچھ ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر اُن لوگوں کو جو جیل میں بند سابق وزیراعظم سے اپنی وفاداری کا عہد کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنہوں نے اب جبر کا تجربہ کیا ہے، پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ اتنا وحشیانہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ اب ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو بہت سے بلوچوں اور اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں کو ایک طویل عرصے تک برداشت کرنا پڑا۔ اس بات کو تسلیم کرنا واقعی ایک ایسی جمہوری جدوجہد کے امکانات کو بڑھانا ہے جس میں سب سے زیادہ مظلوم کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔اسلام آباد میں داخلے پر لانگ مارچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اس مارچ کے راستے میں ہونے والے اظہارِ یکجہتی کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ تسلیم کرلیں کہ یہ جدو جہد شاید اب بھی ایک منصفانہ اور جمہوری مستقبل کی طرف لے جائے۔