کیا ہم سب الگ الگ رہنے کے لیے پیدا ہوئے؟ کیا یہ مجبوری اور بیگانگی ہمارا مقدر ہے؟ کیا یہ ہماری ناکامی ہے؟ یہ سب کیا ہے؟ ہم ایک زندگی میں کتنے انسانوں کو نام سے پکار سکتے ہیں؟ کتنے انسان ہمیں نام لے کر بلاسکتے ہیں؟ اگر تعلق اتنا محدود ہے تو یہ وسیع لاتعلقی کیا ہے؟ یہ اجنبی منظر میرے کس کام کا… یہ اخبار، یہ خبریں… ہمارے کس کام کی… کون ہے وہ جس کے بارے میں مجھے بتایا جارہا ہے۔ کون ہیں وہ جو میرے لیے خبریں بن رہے ہیں… میرے لیے تعلق نہیں بنتے، بس خبریں بنتے ہیں… ہر خبر میرا احساس نہیں، ہر واقعہ میرے متعلق نہیں… ہر اہم چیز میرے لیے اہم نہیں… مجھے شناسائی کے ایک مختصر دائرے میں جکڑ کے رکھ دیا ہے اور میرے سامنے ہوتا ہے شب و روز تماشا…
مجھ پر اپنے متعلقین اور وابستگان کے فرائض پورے کرنے کی ذمے داری ہے۔ باقی منظر صرف دیکھنا ہی تو ہے… ہر انسان اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔ اپنی مخصوص مقناطیسی فیلڈ میں بے بس و پابند ہے… یہ بے بسی شاید زندگی کی اساس ہے۔ ہم اپنے شب و روز کا تجزیہ کرنے میں اور شب و روز کے بارے میں ایک فیصلہ کن بیان دینے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ اور ہمارا فیصلہ ہماری مجبوری سے متاثر ہوتا ہے اور یوں اسی شغل میں زندگی تمام ہوجاتی ہے…
ہم پر اس وسیع ہجوم کی ذمہ داری نہیں… ہم جواب دہ ہیں صرف اس دائرے میں، جو ہمارا ہے… اس زندگی کے بارے میں، جو ہماری ہے۔ اس عمل کے بارے میں، جس کی ہمیں مہلت دی جاتی ہے۔ اس لامحدود وقت سے گنتی کی صرف چند ساعتیں ہمارے حصے میں آئیں۔ ہمیں وہیں تک ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ ساعتیں کٹ جائیں تو ہماری زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ وقت کا قافلہ چلتا رہتا ہے۔ ہم ہی اس قافلے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ وسعتیں ہماری تنہائی کو مزید تنہا کردیتی ہیٍں۔
ہماری زندگی ہمارے سورج اور ہمارے چاند سے وابستہ ہے۔ ہم سورج سے پرے وسعتیں جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ ان وسعتوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اگر انسان تقریباً دو لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک سفر طے کرے تو کبھی کبھی یہ فاصلے لاکھوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ وسعتیں بڑھتی جاتی ہیں… خلائیں گہری ہوتی جاتی ہیں… یہ کسی اور مخلوق کا فاصلہ ہے جو انسان طے کرنا چاہتا ہے۔ زندگی کے مختصر ایام خلائوں میں بھٹکتے ہی گزر جاتے ہیں، اور آخر ہماری خاک اس خاک دان میں واپس چلی جاتی ہے۔ وسعتیں ختم نہیں ہوتیں، صرف زندگی ختم ہوتی ہے…
بنانے والے نے ہر طرف لامحدود مناظر بنائے ہیں… ہر انسان کو ہر جلوہ نظر نہیں آتا۔ اور جنہیں کچھ نظر آتا ہے، انہیں بھی بس ایک حد تک آشنائی ہوتی ہے۔ انسان اپنی حدِّ نگاہ کے اندر ہی دیکھنے پر مجبور ہے۔ اور یہ دیکھنا، ضروری نہیں کہ صحیح ہو… اصل جلوہ نظر آنے والے جلوے کے برعکس بھی ہوسکتا ہے… نظر آنے والے ستارے، یوں محسوس ہوتے ہیں کہ ننھے ننھے ٹمٹماتے ہوئے دیئے ہیں۔ روشن فانوس، ہوا میں معلق، ہماری چھت کو سجانے کے لیے کاریگری کا کمال ہے… لیکن یہ کمال، اُس کمال کے مقابلے میں کچھ نہیں جو ستاروں کی اصل کو جاننے میں ہے۔ جتنے ستارے ہیں اگر اتنی زمینیں اکٹھی کردی جائیں تو شاید ایک ستارے کے اصل وجود کے برابر ہوں… وسعت کا اندازہ خوف پیدا کرتا ہے…
صرف یہی نہیں، کچھ ستارے شدید گرم اور کچھ یخ ٹھنڈے… قدرت ہے قادرِ مطلق کی… اس وسعت کا آخر ہمارے ساتھ کیا تعلق! نہ ہم اس کو طے کرسکتے ہیں، نہ ہم اسے پوری طرح محسوس کرکے خوش ہوسکتے ہیں۔ بے تعلق وسعتیں اور بے تعلق فاصلے انسان کے لیے کیا پیغام رکھتے ہیں۔ ہم ’’زمینی مخلوق‘‘ آخر آسمانی وسعتوں سے کیا حاصل کریں گے۔ ہمیں اپنے جامے میں رہنے سے ہی عافیت نصیب ہوسکتی ہے۔ آسمانوں پر جھنڈے لگانے سے کیا مسئلہ حل ہوا۔ زندگی تاریک تر ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں دور کی چمک لے ڈوبی… پاس ہی کراہنے والی زندگی ہمارے لیے اہمیت کھوچکی ہے… ہماری بینائی ہی ہماری راہ میں حائل ہوچکی ہے… ہماری دوربینی دراصل فرائض سے فرار ہے۔ کائنات کی وسعتوں میں یہ فرار آسانی سے ممکن ہے… انسان پر بم گرانے والے، انسانوں کو تباہ کرنے والے، کون سے سفر پر روانہ ہیں۔ کون سی وسعت کو جاننے کے درپے ہیں!
وسعتیں اور فاصلے ختم نہیں ہوسکتے۔ نظارے لامحدود ہیں اور زندگی محدود… ہماری صلاحیتیں تو ہماری زندگی سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ ہم مناظر دیکھنے کے لیے تیاری کررہے ہوتے ہیں کہ ہماری بینائی ناراض ہوجاتی ہے… ہم بہت زیادہ علم بلکہ علوم اپنے ذہن میں محفوظ کرتے ہیں۔ ادیب، اسکالر اور محقق کہلاتے ہیں، لیکن اچانک یادداشت جواب دے جاتی ہے… خدا اُس وقت سے بچائے۔
(’’حرف حرف حقیقت‘‘… واصف علی واصفؔ)
مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔