نیا سال… آئیں، دعا کریں!

حیاتِ مستعار کا ایک اور برس بیت گیا… مہلتِ عمل ایک سال مزید کم ہوگئی… عیسوی کیلنڈر پر نیا ورق الٹ رہا ہے مگر انفرادی اور اجتماعی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں مسلمان کفار کی تیغِ ستم کا شکار ہیں، خصوصاً قبلۂ اوّل اور اُس کے محافظ فلسطینی مسلمان اس کا نشانہ ہیں۔ حماس کے مجاہدین کے خلاف عالمِ کفر کی یلغار ہے۔ غزہ کے مجبور اور محصور مسلمانوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور معذوروں کے لیے اسرائیل ننگی تلوار ہے۔ دنیا بھر کے مہذب و ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک کی کھلی سرپرستی اور آشیرباد دہشت گرد صہیونی ریاست کو حاصل ہے۔ ہر قسم کا اسلحہ، مادی، سیاسی اور سفارتی امداد اسے طاقت ور دنیا فراہم کررہی ہے، مگر اس کے مقابل مسلم امت کی حالت شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ایسی ہے کہ ؎

بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام وسائل فراہم کیے جانے کے باوجود، مادی و افرادی طاقت کی بہ افراط دستیابی کے باوجود تمام مسلمان ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم… دم نہ کشیدم کی کیفیت ہے کہ کہیں مغربی آقائوں کی پیشانی پر بل نہ آجائے۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی کے در پے ہے، حماس کی قیادت دنیا کی واحد اسلامی جوہری قوت اور بہترین پیشہ ور فوج کو مدد کے لیے پکار رہی ہے، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نگران حکمران پون صدی سے مسلمہ اور متفقہ قومی مؤقف، بانیانِ پاکستان کی واضح رائے سے کھلے بندوں انحراف کرتے ہوئے دو ریاستی حل یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں جو ان کو ٹوک سکے، ان کی زبان کو روک سکے۔ انہیں ذرا پروا نہیں کہ وہ اسلامیانِ پاکستان کے جذبات کس قدر مجروح کررہے ہیں۔ ایسے میں عظیم مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور پیامبر انقلاب، مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ شدت سے یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز اور نہایت مؤثر الفاظ میں ایک صدی قبل امت کو اتحاد و اتفاق، تعلیم اور تنظیم کا درس دیا۔ عزائم کو سینوں میں بیدار کرنے اور نگاہِ مسلمان کو تلوار کرنے کی دعا کے ساتھ اس تمنا کا اظہار بھی کیا کہ ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

امت ِمسلمہ کی حالت و کیفیت تب بھی یہی تھی اور آج بھی یہی ہے جسے دیکھ کر علامہ اقبالؒ نے استفسار کیا تھا کہ ؎

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہوں، بتائو مسلمان بھی ہو

علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ جیسے ملت کا درد رکھنے والے رہنما توجہ دلاتے رہے مگر افسوس کہ ان کی آواز صدابہ صحرا ثابت ہو رہی ہے اور وہ آج بھی پکار پکار کر مسلمانوں کو متوجہ کر رہے ہیں کہ

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ملکی سطح پر بھی صورتِ حال نہایت دگرگوں اور ایسی ہے کہ دعا کے سوا چارہ نہیں۔ عریانی، فحاشی اور بے راہ روی عروج پر ہے مگر کسی کو اس کی فکر ہے نہ پروا کہ ملک کی نئی نسل کس طرح گمراہ ہو رہی ہے۔ مہنگائی و بے روز گاری کا عفریت سب کچھ نگلتا چلا جا رہا ہے، دو وقت کی روٹی پوری کرنا ہی آج کل کمال ہے، عام آدمی کا جینا محال ہے۔ مجبور اور مفلوک الحال، بے بس اور بے کس لوگ زندگی پر بچوں سمیت خودکشی کو ترجیح دے رہے ہیں، مگر حکمران اور مقتدر طبقات اس سے قطعی لا تعلق اپنے حال میں مست ہیں۔ ملک معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی بحرانوں کی زد میں ہے، عوام میں حالات سے بے زاری اور مایوسی کا رجحان فروغ پا رہا ہے، سیاست میں انتشار و افتراق اور باہمی نفرت پروان چڑھائی جا رہی ہے، جبر اور گھٹن کے ماحول میں انصاف کا فقدان نا امیدی کی فضا کو مزید تقویت بخش رہا ہے۔ 2023ء انتخابات کا سال تھا مگر آئین شکنی سے دوچار رہا… سارا سال سازشوں کی نذر ہوا… جس کے سبب آج خوف کی ایک فضا پورے ماحول پر طاری ہے۔ ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ 2024ء کا آغاز عام انتخابات سے ہو گا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بار بار یقین دہانیاں کرا رہی ہے مگر بے یقینی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایسے میں آیئے ہاتھ اٹھا کر دعا کریں کہ نئے برس میں دنیا بھر میں مسلمانوں کو امن اور تحفظ نصیب ہو۔ غزہ کے مسلمانوں نے صبر اور استقامت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کے بعد کفار پر فتح اُن کا مقدر بنے۔ امت کو اتحاد و اتفاق کی توفیق ملے اور جرأت مند و باصلاحیت قیادت میسر آئے جو ہمیں مشکلات سے نکال کر ترقی کی راہ دکھائے۔ پاکستان میں 2024ء میں پُر امن ماحول میں صاف، شفاف، آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور سب کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ اعتماد انتخابات ہوجائیں اور قوم دردمند، ہمدرد، امانت و دیانت کے حامل حکمران اپنی آزادانہ مرضی سے منتخب کرسکے جو ملک کو معاشی و سیاسی استحکام اور ایک جوہری طاقت کے شایانِ شان باوقار مقام عالمی برادری میں دلانے کی صلاحیت سے مالامال ہوں۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

(حامد ریاض ڈوگر)