(احمد حاطب صدیقی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے لکھ نہیں سکے ہیں، اس لیے ان کا پرانا مضمون شائع کیا جارہا ہے،قارئین سے دُعائے صحت کی درخواست ہے۔ادارہ)
داماد والا کالم شاید ہر ’ساس‘ کو خوش آیا۔ اب معلوم ہوا کہ ہر داماد اپنی ساس کو ’خوش دامن‘ کہہ کہہ کر کیوں یاد کرتا ہے۔ خبر نہیں ’خوش دامن‘ کی ترکیب کس خوش فہم نے ایجاد کی؟کون جانے خوشی کس کے حصے میں آتی ہے اور دامن کس کا تار تار ہوتا ہے؟
مگر اپنے اطہر شاہ خان جیدیؔ مرحوم تو لوگوں کو نیکی کی تلقین یوں فرمایا کرتے تھے:
نیکی ہی کام آتی ہے
دنیا ہے دو دن کا مال
ساس کسی کی ہو جیدیؔ
نیکی کر دریا میں ڈال
البتہ ہمارے ایک سادہ لوح دوست اُردو کی ایک معروف کہاوت میں محض ایک حرف کا تصرف کرکے یہ کہتے ہیں کہ ’’جب تک ساس ہے، تب تک آس ہے‘‘۔ غالباً یہی عقیدہ حضرتِ بیدلؔ جونپوری مرحوم کا بھی رہا ہوگا۔ بیدلؔ صاحب بڑے ’دلدار‘ شاعر تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ذرا اُن کے اِن اشعار کی بے ساختگی اور بالخصوص دوسرے شعر میں زبان و بیان کے کمالات ملاحظہ فرمائیے:
دوستو! دنیا ہے فانی، اطلاعاً عرض ہے
چار دن ہے نوجوانی، اطلاعاً عرض ہے
اِس جہاں میں جن بتوں کو ہم نے اپنا دل دیا
ہو گئے سب آں جہانی، اطلاعاً عرض ہے
اسی غزل میں وہ اپنی ساس کو ایک ’سانحۂ ارتحال‘ کی اطلاع پہنچاتے پہنچاتے یہ آس بھی لگا بیٹھے کہ
دوسری لڑکی مجھے دے، پہلے والی چل بسی
اے مرے بچوں کی نانی، اطلاعاً عرض ہے
ہاں تو داماد والا کالم پڑھ کر ’ساسیں‘ خوش ہوئیں، مگر سسرے ہتھے سے اُکھڑ گئے۔ اُردو کی ایک اور کہاوت ہے کہ ’’داماد تو ڈائن کو بھی پیارا ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ساس خواہ بہو کے لیے کتنی ہی ڈائن کیوں نہ ثابت ہو، مگر داماد کو خوش رکھنے کے لیے تن، من، دھن اور دامن ہمیشہ کشادہ رکھتی ہے۔
بنگلور (بھارت) سے محترمہ حلیمہ فردوس رقم طراز ہیں: ’’مزہ آگیا دام کی گلیوں کی سیر کرتے ہوئے۔ تان ٹوٹی بے چارے داماد پر، جسے اُلٹا بھی تو داماد ہی رہا۔ آخر… عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ (اللہ انھیں جلد از جلد ساس بنائے، آمین) فرماتی ہیں:
’’عنوان دیکھ کر پڑھے بغیر نہ رہا گیا۔ نیپال سے یہ تبصرہ موصول ہوا ہے کہ آدمی مرد کا بچہ ہے سسر ہونے تک پڑھ کر لطف آگیا۔ جیسے سر چڑھی کا بدلہ لکھا گیا انجانے میں‘‘۔ (ہم نے ایک کالم میں بیگم کو ’سرچڑھی‘ کہہ دیا تھا) لو صاحبو بات چوپال سے نیپال تک جا پہنچی۔
داماد کے بھرپور تذکرے کے باوجود لاہور کی ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کو کالم میں ’پھر بھی‘ تشنگی محسوس ہوئی۔ آپ فرماتی ہیں:
’’آخری شعر میں داماد کے ذکر پر کالم یک دم ’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ کے مصداق ہوگیا‘‘۔
جی ہاں ہوا تو ایسا ہی ہے۔ بس ہم یہ لکھنا بھول گئے تھے کہ… ’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے‘
پچھلے کالم (بعنوان ’’دائم آباد رہے گا داماد‘‘) میں ہم نے مولوی نورالحسن نیر مرحوم کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ ’داماد‘ دراصل دائم باد یا دائم آباد کا مخفف ہے۔ ہندوستان آکر داماد بن گیا (مراد ’پسر نسبتی‘ سے تھی) اس پر رابغ سعودی عرب سے محترم ڈاکٹر محمد سلیم لکھتے ہیں:
’’یہ درست نہیں ہے کہ دائم آباد ہندوستان میں آکر داماد بنا۔ شاباش (شادباش) کی طرح یہ داماد بھی فارسی میں کثیرالاستعمال ہے۔ لیکن ایران میں اس کا اطلاق صرف بیٹی کے شوہر پر ہی نہیں بلکہ بہن کے شوہر پر بھی ہوتا ہے۔ اکثر کسی کی بھی نئی شادی ہوئی ہو تو بھی داماد کہنا کوئی عجیب بات نہیں۔ حتیٰ کہ کوئی بچہ یا نوجوان بن ٹھن کر تیار ہوجائے تو اسے بھی کہتے ہیں داماد لگ رہے ہو۔ میری اہلیہ ایران سے ہیں اور فارسی ان کی مادری زبان ہے۔ اپنے بہنوئیوں کو داماد ہی کہتی ہیں۔ اب مجھے تو نہیں، لیکن ہمارا بیٹا نہا دھوکر تیار ہوجاتا ہے تو اس کو ضرور داماد کہتی ہیں۔ صوتی مماثلت کی بنا پر بعض لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ داماد دائم آباد کی تخفیف ہے جو ممکن ہے درست ہو۔ بہرحال داماد کا استعمال فارسی میں پہلے سے ہے، ہندوستان کی ایجاد نہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے حافظؔ و سعدیؔ کے دو اشعار سے سند بھی دی ہے:
شکایت کند نو عروسی جوان
بہ پیری ز دامادِ نا مہربان
(سعدیؔ)
مجو درستیِ عہد از جہانِ سُست نہاد
کہ این عجوزہ عروسِ ہزار دامادست
(حافظؔ)
اگر ہماری فارسی بھابی ہمارا اُردو کالم پڑھ رہی ہوں تو اُن سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہمارے بھائی پر ’نظر ثانی‘ فرمائیں۔
حیدرآباد دکن سے مولانا عبید اختر رحمانی صاحب نے حسبِ سابق ایک مفصل مضمون ازرہِ علم پروری ارسال فرمایا ہے۔ آپ کے مضمون کا آخری حصہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں: ’’صاحبِ نوراللغات نے جو کچھ لکھا ہے وہ غیاث اللغات کی پیروی میں لکھا ہے کہ داماد اصل میں دائم آباد تھا۔ فارسی کی مشہور لغت ’’لغت نامہ دہخدا‘‘ میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس بات کی پُرزور تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایسی بات ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر فارسی لغات میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس قیاس آرائی کی تائید نہیں ملتی۔ امید ہے کہ احمد حاطب صدیقی صاحب اگلے جمعہ کو اس کی تصحیح کردیں گے‘‘۔
ہم کیسے ’تصحیح‘ کریں گے ہم کو ’گھر‘ میں رہنا ہے
صاحب! ایسی بات نہ کیجیے ’ساس عدو ہو جاتی ہے‘
یہاں ’ساس‘ سے مراد ہمارے ذاتی داماد کی ساس ہے۔ سو، داماد کو دائم آباد رہنے دیجے کہ خانہ آباد رہے۔ورنہ ذرا مغرب کی خانہ بربادی کی طرف دیکھ لیجے کہ بے چارا کسی داماد کو دختر دختر ترس رہا ہے۔
محترم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کی خانم سے ثابت ہوا کہ اہلِ ایران ’داماد‘ کا لفظ ہراُس جگہ استعمال کرنے کو تُلے رہتے ہیں جہاں ہمارے لوگ ’دولھا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ زمانہ قبل از بے روزگاری میں اگر کسی روز ہم اپنے دفتر بہت بن سنور کر جاتے تھے تو اُس روز ہمارے ایک ایرانی افسرہم سے یہی فرماتے تھے کہ ’’آج تو دولھا لگ رہے ہو‘‘۔ اب لوگ دولھا کی جگہ ’ہیرو‘ کہنے لگے ہیں (ہمیں)۔
ایران میں داماد کی بڑی قدر ہے۔ وہاں دولھا بننے کو آج بھی ’داماد شدن‘ کہا جاتا ہے۔ بیٹی کے لیے کسی کا رشتہ منظور کرلیا تو یہ ’داماد کردن‘ ہوا۔ جس سجے سجائے کمرے کو ہم حجلۂ عروسی کہتے ہیں، ایرانی اُسے ’حجلۂ دامادی‘ قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ولیمہ جو مسنون ہے اور ہمارے ہاں بیوی کو مفتوح کرلینے کا جشن سمجھا جاتا ہے، اہلِ ایران کے ہاں وہ بھی ’جشنِ دامادی‘ کہلاتا ہے۔