’’…لوگ جہاں میں…اچھے‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لکھے ہوئے خاکوں اور وفیات ناموں کا خوب صورت، دلچسپ اور دلکش مجموعہ ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔
یہ معروف معنوں میں تو خاکے اور وفیات نامے ہیں جو کسی بھی رخصت ہوجانے والی شخصیت کی خوبیوں، عادات و اطوار، چال چلن، گفتگو، تقریر و تحریر، لباس، نشست و برخواست، افکار و نظریات کے بیان پر مبنی ہیں جن سے شخصیت کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ خاکہ نگاری کو اس دور میں کچھ زیادہ ہی عروج ملا۔ لیکن آج کا دور ڈیجیٹل دور میں ڈھل رہا ہے اور پرانے تمام آثار آہستہ آہستہ مٹ رہے ہیں۔
اس کتاب میں چنیدہ اور منتخب افراد کا تعارف یا خاکے ہیں، ان میں زیادہ تر لکھنے پڑھنے والے Self made افراد، اساتذہ، شاعر، ادیب، تحقیق کار، ایڈیٹر، ماہرینِ اقبالیات، لسانیات، نقادانِ ادب شامل ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی، کچھ بھارت سے اور کچھ ایسے ہیں جو دیار غیر میں مقیم رہے، اور کچھ سید مودودیؒ کی فکر اور جماعت سے وابستہ افراد بھی ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جہاں اپنے تاثرات و مشاہدات سے کام لیا ہے، وہیں دوسروں کی تحریروں سے بھی کام لیا (خاص بات یہ ہے کہ کہیں سے اگر جملہ لیا ہے یا پیراگراف، تو بلاحوالہ نہیں لیا)۔ یہ خاکے کچھ تفصیلی، کچھ مختصر اور کچھ تاثراتی ہیں، لیکن ہیں مزے مزے کے۔ ان کو صرف خاکے نہیں کہہ سکتے، یہ کچھ اور چیز لگتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لکھنے کی محض رسم نہیں نبھائی بلکہ جس کے بارے میں لکھا ہے، دل سے لکھا ہے، بلکہ جس کو جیسا پایا ویسا اُس کا سراپا کھینچ دیا… گویا چلتا پھرتا متحرک انسان ہے۔ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، فرشتہ نہیں۔ یہ حقیقی خاکے، شخصیات کا حقیقی تعارف کراتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی اپنی شخصیت کسی انجمن سے کم نہیں، مرنجاں مرنج اور خوش ذوق… گو ان کی پہچان ماہرِ اقبالیات کی ہے لیکن وہ ایک اچھے اور مثالی استاد، ایڈیٹنگ اور اشاریہ سازی، زبان و ادب اور اقبالیات کا بڑا نام، سفرنامہ نگار، خطوط نگار، مؤلف، تحقیق کے رمز شناس ہیں اور چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ ’’لوگ جہاں میں اچھے‘‘ کے خود بھی مصداق ہیں۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج سرگودھا اور اورینٹل کالج لاہور کے نام کیا ہے۔ پیش گفتار میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے نہایت عمدگی سے حقِ دوستی ادا کیا ہے، جن کا نام بھی معتبر اور کام بھی معتبر ہے۔
ان میں سے بعض خاکے ’’سیارہ‘‘ لاہور، ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کراچی اور ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور میں چھپ چکے ہیں۔ چند نام درج ہیں:
بھارت سے ڈاکٹر ابن فرید، پروفیسر اسلوب احمد انصاری، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر خلیق انجم، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سید عبدالباری، شبنم سبحانی، ڈاکٹر کبیر احمد جائسی… پاکستان سے ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، خرم مراد، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید امجد الطاف، پرویز گوہر صدیقی، حفیظ الرحمن احسن، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، سید عبدالعزیز مشرقی، پروفیسر سید وقار عظیم، ملک نواز اعوان اور اٹلی سے ڈاکٹر دیتوسالیرنو، لندن سے حاشر فاروقی اور عبدالرحمن بزمی۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحریر کی خوبی ہے کہ وہ شعروں، اقتباسات اور مشاہدات، سفر و حضر کو ایسے انداز میں تحریر میں سمولیتے ہیں کہ تحریر زیادہ دل کش بن جاتی ہے۔ پھر یہ کہ وہ جولکھتے ہیں حوالہ جات کے ساتھ۔ چاہے کسی کتاب پر تبصرہ کیوںنہ ہو، بلاحوالہ نہیں لکھتے۔ ان خاکوں میں بے ساختہ پن، روانی، شستگی اور اسلوبِ بیان قاری کی توجہ اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتے۔ اقبالیات کے ساتھ گہرے تعلق اور وابستگی کے باعث وہ اقبال کا تذکرہ کسی نہ کسی طرح لے آتے ہیں اور وہ اچھا لگتا ہے۔ عمل پر ابھارنے، کچھ کرگزرنے کا حوصلہ بخشنے اور انگیخت کرنے والے یہ خاکے مقصدی ادب کا خوگر بناتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی چونکہ خود اسلامی ادبی حلقے کے فکری رہنما شمار ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے مقصد کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ یہ خاکے جہاں نئے لکھنے والوں کے لیے راہنماہیں، وہیں اپنی تہذیب و اقدار کو سنبھالنے اور زندہ رکھنے میں ایک مضبوط معاون ہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز نے کتاب کو اچھے اور دیدہ زیب انداز میں طبع کیا ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔