اقبال اور خدا (تفہیم اقبال: شکوہ جوابِ شکوہ)

لیفٹیننٹ (ر) کرنل غلام جیلانی نے شکوہ، جوابِ شکوہ کی اسکول و کالج کے طلبہ کے لیے اچھے اور دل نشین انداز میں تشریح کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ علامہ محمد اقبال ایک بے بدل شاعر ہی نہیں بلکہ بلند پایہ فلسفی اور امت کے حقیقی دردمند تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو امت کی علمی و فکری بلندی، اصلاح اور عروج کا ذریعہ بنایا، ان کا کلام رواں اور اسلوب کی پختگی کا حامل ہے، اقبال کی بہت سی اردو اور فارسی نظمیں ان کا شاہکار ہیں۔

بانگِ درا کی ’’شکوہ‘‘ ،’’جوابِ شکوہ‘‘ اردو کی دو نمائندہ نظمیں ہیں، ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان نظموں کی آب و تاب قائم و دائم ہے۔ شکوہ1909ء میں سامنے آئی جو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی۔ مسدس کے طور پر لکھی گئی یہ نظم چھ مصرعوں پر مشتمل ہے۔ پہلے چار مصرعوں کی ردیف ایک لیکن قافیے مختلف، جب کہ آخری دو مصرعے مختلف قافیے اور ردیف پر مشتمل ہیں۔ اس نظم کے 31 بند اور کُل 93 اشعار ہیں۔

1909ء کے بعد امت کی کسمپرسی، زوال، زبوں حالی اور یورپ کی بڑھتی ہوئی قوت، ترقی، چکاچوند اور رونق نے اقبال کو اداس کیا۔

1913ء میں بلغاریہ نے ترکی سے آزادی حاصل کی۔ یہ لمحہ عالم اسلام کے لیے دکھ اور تکلیف کاتھا۔ اسی زمانے میں اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ لکھی اور موچی گیٹ کے جلسے میں سنائی۔ تحریکِ خلافت بھی اسی زمانے کی یادگار ہے جو مسلمانانِ ہند کی اسلام پرستی اور ترک دوستی کی آئینہ دار ہے۔

’’جوابِ شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کے ملی انتشار، مختلف قومیتوں اور قبیلوں میں تقسیم، پیغمبر اسلام کی سنت پر عمل پیرا نہ ہونے کے بارے میں دل سوزی سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ اقبال کا کلام عصرِ حاضر میں نوجوان نسل کو قرآن کے ساتھ جوڑنے کابہترین اور عمدہ ذریعہ ہے۔ پاکستان اقبال کے خوابوں کی سرزمین ہے لیکن آج مسلمانانِ پاکستان اپنے اعمال، کمزوریوں اور اسلام پر عمل پیرا نہ ہونے کے باعث خوار و زبوں حال ہیں، ضرورت ہے کہ امت ِمسلمہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرے، اپنی اصلاح کرے اور بھولا ہوا سبق یاد کرکے عروج و سربلندی کے سفر کا دوبارہ آغاز کرے، یہی کلام اقبال کی پکار ہے اور یہی کرنل(ر) جیلانی کا مطمح نظر بھی۔

کتاب کی طباعت و اشاعت اچھے سفید کاغذ پر کی گئی ہے، پڑھنے کے لائق ہے۔ متعدد کتب کے مصنف اور ترجمہ نگار لیفٹیننٹ (ر) کرنل غلام جیلانی نے شکوہ، جوابِ شکوہ کا نہایت سلیس اور سہل ترجمہ و تشریح کی ہے۔ مشکل الفاظ کے معانی، دوسرے شعرا کے اشعار کے استعمال، اور کہیں کہیں پنجابی ترجمے سے بھی کام لیا ہے۔ اقبال کے اشعار کی تشریح اچھے انداز اور محنت سے کی گئی ہے جس نے شکوہ و جوابِ شکوب کو سمجھنا آسان بنادیا ہے۔ بالخصوص طلبہ اور اساتذہ کے لیے یہ تشریح بے مثال ہے۔ یہ کتاب علم و عرفان پبلشرز نے خوب صورت انداز میں شائع کی ہے اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اپنے پیش لفظ میں بے نظیر کاوش قرار دے کر اس کی وقعت بڑھادی ہے۔