قومی کرکٹ ٹیم اس وقت آسٹریلیا میں موجود ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا آغاز14دسمبر سے ہوا۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ 14سے 18دسمبر تک پرتھ میں کھیلا گیا جس میں پاکستان کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیانے پاکستان کو 360 رنز سے شکست دی۔ اس میچ میں کمزور ستونوں پر کھڑی پاکستان کرکٹ ٹیم اور بالخصوص ہماری بیٹنگ لائن دھڑام سے گرگئی۔ پرتھ ٹیسٹ میں پہاڑ جیسا ہدف دیکھ کر ہمارے بیٹسمینوں کے اوسان خطا ہوگئے اور 450رنز کے تعاقب میں پوری ٹیم محض 89رنز بناکر آئوٹ ہوگئی۔ بیٹنگ کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس اننگ کے ٹاپ اسکورر سعود شکیل تھے جنہوں نے 24رنز بنائے۔ اس کامیابی کے بعد آسٹریلیا کو تین میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔ یہ گرین شرٹس کی ریڈ بال کرکٹ میں آسٹریلیا کی سرزمین پر لگاتار 15 ویں شکست ہے۔پہلے ٹیسٹ میںپاکستان کے تمام بلے باز جن میں بابر اعظم، سرفراز احمد،سعود شکیل،عبداللہ شفیق، امام الحق اور سلمان علی آغا شامل تھے،ناکام رہے۔بنیادی طور پر آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر ہمارے بلے بازوں کو کوئی خاص تجربہ نہیں تھا، جس کا بھرپور فائدہ آسٹریلیا کے فاسٹ بولرز نے اٹھایا۔
اس سیریز کا دوسرا ٹیسٹ 26سے30 دسمبر تک میلبورن میں، جبکہ تیسرا ٹیسٹ سڈنی میں 3 سے 7جنوری تک کھیلا جائے گا۔ دیکھنا ہوگا کہ اگلے دو ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی کارکردگی پہلے ٹیسٹ میچ کے مقابلے میں کیسی رہتی ہے، اورکیا پاکستان آئندہ مقابلوں میں کچھ بہتر کارکردگی دکھا سکے گا! پاکستان کی ٹیم میں بیشتر کھلاڑی نئے ہیں جو یا تو پہلی بار ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے ہیں، یا پھر یہ ان کا پہلا دورۂ آسٹریلیا ہے جہاں کی تیز اور بائونسی وکٹوں پر انہیں کھیلنے کا کوئی تجربہ بھی نہیں۔ کپتان شان مسعود کے بقول: تسلیم کرتے ہیں کہ ہم پہلے میچ میں اچھا نہیں کھیل سکے، مگر کوشش ہوگی کہ اگلے میچوں میں پچھلی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے، اگر ہم پہلی اننگ میں آسٹریلیا کو کم اسکور پر آئوٹ کرلیتے اور خود اچھا اسکور کرتے تو میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔
سرفراز احمد سے ٹیم کو بڑی امیدیں تھیں، انہوں وکٹ کیپنگ تو بہت اچھی کی مگر بیٹنگ میں کوئی جوہر نہ دکھا سکے۔ اسی طرح ورلڈ کلاس بیٹسمین بابراعظم بھی اس میچ میں کچھ نہ کرسکے، اگر وہ کچھ کرتے تو یقینی طور پر دیگر بیٹسمین بھی اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے، کیونکہ جب کوئی بڑا کھلاڑی وکٹ پر کھڑا ہو تو باقی کھلاڑیوں کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ بھی وکٹ پر کھڑے ہوکر اچھا اسکور بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں کپتان شان مسعود کی کپتانی بھی کوئی بڑا کام نہیں دکھا سکی، اور لگتا ہے کہ ان کے پاس کپتانی تو ہے مگر وہ ٹیم نہیں جو میچ جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اگر چہ ان کو دو سابق کپتانوں بابراعظم اور سرفراز احمد کی حمایت اور ان کا تجربہ میسر ہے لیکن اصل مسئلہ ٹیم کی کارکردگی کا ہے۔
اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کے 18رکنی اسکواڈ پر نظر ڈالیں تو اس میں شان مسعود کو پہلی بار پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا، اور ان کی تقرری سابق کپتان بابراعظم کی جگہ کی گئی ہے۔ جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں عامر جمال، عبداللہ شفیق، بابراعظم، فہیم اشرف، حسن علی، امام الحق، خرم شہزاد، میر حمزہ، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، نعمان علی، صائم ایوب، سلمان علی آغا، سرفراز احمد، سعود شکیل، ابرار احمد اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔ لیکن ٹیسٹ سیریز شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستانی ٹیم کو دھچکا لگا اور لیگ اسپنر ابرار احمد انجری کا شکار ہوگئے، جس کے بعد آف اسپنر ساجد خان کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ آل رائونڈرفہیم اشرف جو آخری مرتبہ ٹیسٹ میچ انگلینڈ کے دورۂ پاکستان میں کھیلے تھے وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ بنے۔ اسی طرح محمد وسیم جونیئراور میر حمزہ کی بھی ٹیسٹ ٹیم میں واپسی ہوئی۔ یہ دونوں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیم کا حصہ تھے جو دسمبر 2022ء/ جنوری 2023ء میں کھیلی گئی تھی۔
چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے حارث رئوف سے ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل ہونے کا کہا تھا، لیکن حارث رئوف نے ٹیسٹ سیریز کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ حارث رئوف سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی دستیابی سے انکار کردیا، جبکہ دوسری طرف وہ آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ حارث رئوف اب آپ کو پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں نہیں بلکہ بیگ بیش لیگ میں میلبورن اسٹار کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
پاکستان نے ورلڈ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز اس سال سری لنکا میں جیت سے کیا۔ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان ٹیسٹ میچوں میں جیت کے اس تسلسل کو برقرار رکھے گا، لیکن آسٹریلیا کے خلاف اسے پہلے ہی ٹیسٹ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ میں مسلسل تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ بالخصوص سابق کپتان سلمان بٹ کو سلیکشن کمیٹی کا حصہ بنایا گیا، یا ان کو سلیکشن کمیٹی میں بطور کنسلٹنٹ لیا گیا، لیکن اس پر سابق کھلاڑیوں اور میڈیا کی تنقید کے بعد ان کو اس عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ چیف سلیکٹر وہاب ریاض پر اس دوست نوازی کے حوالے سے خاصی تنقید بھی ہوئی۔ سلیکشن کمیٹی کے لیے اسد شفیق اور کامران اکمل کا نام بھی زیر غور تھا۔ اسی تناظر میں اسد شفیق نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے اور ان کو نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں الوداعی میچ بھی ملا۔ ان کے سلیکشن کمیٹی کے رکن بننے کے امکانات بہت واضح ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں سپر لیگ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ تمام ٹیمیں بھی مکمل ہوچکی ہیں اورپاکستان سپر لیگ کا شمار دنیا کی بہترین لیگز میں ہوتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم شروع ہی سے ٹی ٹوئنٹی کی ایک اچھی ٹیم کے طور پر دنیا میں اپنی شہرت رکھتی ہے۔ اس بنیاد پر پاکستان سپر لیگ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، اور سے ٹی ٹوئنٹی کے نئے کھلاڑی بھی سامنے آتے ہیں جو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024ء میں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان کو آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز کے بعد نیوزی لینڈ سے ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز بھی کھیلنی ہے۔ اس لیے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کو ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے بھی اچھا موقع مل جائے گا۔
اب اگر بات ٹی ٹوئنٹی کی ہورہی ہے تو ہمیں یہاں پاکستان کی ویمن کرکٹ ٹیم کو بھی مبارک باد دینی ہوگی جس نے نیوزی لینڈ کی ویمن کرکٹ ٹیم کو ان کے ہوم گرائونڈ پر دو ایک سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم دنیا کی دوسری ٹیم بن چکی ہے جس نے نیوزی لینڈ کو اُس کے اپنے گھر میں شکست دی ہے۔ اس سے قبل صرف انگلینڈ کی ویمن کرکٹ ٹیم واحد ٹیم تھی جس نے نیوزی لینڈ کو اُس کے گھر میں شکست دی تھی۔ پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ سے تین ون ڈے میچوں کی سیریز بھی کھیلی جس میں اسے 1-2 سے شکست ہوئی۔ پہلا میچ نیوزی لینڈ ویمن ٹیم نے بآسانی جیت لیا، دوسرا میچ میں پاکستان ٹیم نے شاندار کھیل پیش کیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم بمشکل ایک وکٹ سے فتح حاصل کرسکی، جبکہ تیسرے میچ میں پاکستان نے سپر اوور میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں ویمن کرکٹ کا مستقبل بھی شاندار ہوگا۔