(دوسری قسط)
یزاک رابن نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کو بھی وہ سب کچھ نہیں کرنا پڑے گا جو خود فلسطینی حکومت کے کارندے کر گزریں گے۔
جولائی 2000ء میں تنظیمِ آزادیِ فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات اور اُس وقت کے اسرائیل کے وزیراعظم ایہود بارک کیمپ ڈیوڈ (امریکہ) میں ملے جہاں انہوں نے اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے توسط سے اس تنازعے کا حتمی حل تلاش کرنے کی خاطر جامع معاہدے کے لیے گفت و شنید کی۔ بات بن نہ سکی۔ گفت و شنید کے دوران اختلافات اِس قدر ابھرے کہ فریقین کو بالآخر اپنے ارادے سے باز آنا پڑا۔ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کے ایک کلیدی مذاکرات کار بین ایمی نے بعد میں کہا ’’میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہیے تھے۔ میں تو کیمپ ڈیوڈ (مذاکرات) کے حق میں تھا ہی نہیں۔‘‘ دوسری طرف اسٹرے ٹیجک امور کے اسرائیلی ماہر زیو ماؤز نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے جو کچھ طلب کیا تھا وہ قابلِ قبول نہیں تھا اور قابلِ قبول ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ تھوڑی بہت کامیابی یقینی بنانے کے لیے بعد میں ہونے والے مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔ دسمبر 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے مسئلہ فلسطین کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں اپنے معیارات کا اظہار کیا جسے فریقین نے تسلیم کرلیا۔ ہاں، اُن کے تحفظات ضرور برقرار تھے۔ جنوری 2001ء میں مصر میں مذاکرات بحال ہوئے۔ فریقین نے برملا کہا کہ اُنہوں نے آپس کے بیشتر اختلافات ختم کرلیے ہیں، کسی جامع تصفیے کے جتنے نزدیک اب ہیں اُتنے نزدیک پہلے کبھی نہ تھے۔ اس کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم ایہود بارک نے یک طرفہ طور پر مذاکرات روک دیے اور اِس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا جامع اور دیرپا حل تلاش کرنے کی خاطر مذاکرات کا عمل مستقل طور پر رک گیا۔
سفارتی تعطل اور اسرائیل کی طرف سے تشدد پر اُکسانے والے اقدامات کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں نے دوسری کھلی بغاوت (انتفاضہ) شروع کی۔ 1987ء میں شروع ہونے والی انتفاضہ کی طرح دوسری انتفاضہ بھی ابتدائی مراحل میں مکمل طور پر پُرامن تھی۔ بین ایمی نے کہا ’’فلسطینی عوام بالخصوص نوجوانوں نے ہلاکت خیز ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی پولیس اور فوج کے خلاف پُرامن احتجاج شروع کیا تھا۔ اِس پہلی انتفاضہ سے نپٹنے کے معاملے میں اسرائیلی فورسز نے طاقت کا غیر ضروری اور غیر دانش مندانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں جذبات بھڑک گئے۔ یوں قدرے پُرامن انداز سے شروع ہونے والا احتجاج ایک طرح کی کھلی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔‘‘ یہ بات کم و بیش مکمل طور پر بھلادی گئی ہے کہ دوسری انتفاضہ کے دوران حماس کی طرف سے پہلا خودکش حملہ اسرائیلی فورسز کی طرف سے طاقت کے بے محابا استعمال اور اُس کے نتیجے میں رونما ہونے والی خوں ریزی کے کم و بیش پانچ ماہ بعد کیا گیا۔ دوسری انتفاضہ کے شروع ہونے کے بعد محض چند دنوں میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو کچلنے کے لیے کم و بیش 10 لاکھ گولیاں داغ دی تھیں۔ پہلے ہفتے میں ہلاکتوں کا تناسب 20:1 تھا یعنی بیس فلسطینیوں کی ہلاکت کے جواب میں صرف ایک اسرائیلی کی ہلاکت واقع ہوئی تھی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی مزاحمت کا جواب غیر ضروری طور پر بہت زیادہ طاقت استعمال کرکے دیا جس کے نتیجے میں فلسطینی نوجوان تیزی سے پُرتشدد ہتھکنڈے اپنانے پر مجبور ہوئے۔ اِس کشیدہ ماحول میں اسرائیل نے قدرے منتقم مزاجی کے ساتھ غزہ کو خاص طور پر نشانے پر لیا۔ ایک طرف تو اندھا دھند فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں غزہ کے باشندے بڑی تعداد میں لقمۂ اجل ہوئے اور دوسری طرف اسرائیل نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نشانے پر لے کر تباہی سے دوچار کرنا شروع کیا۔ 2004ء سے 2008ء کے دوران اسرائیلی فورسز نے جو کارروائیاںکیں اُن کے نام یہ تھے : آپریشن رینبو (2004ء)، آپریشن ڈیز آف پینیٹینس (2004ء)، آپریشن سمر رینز (2006ء)، آپریشن آٹم کلاؤڈز (2006ء)، اور آپریشن ہاٹ وِنٹر (2008ء)۔ اس کے باوجود سابق اسرائیلی صدر اور امن کا نوبیل انعام پانے والے اسرائیلی سیاست دان شمعون پیریز نے کہا ’’ہم نے اُس پوری مدت (آٹھ سال) کے دوران غیر ضروری طور پر ضبط اور تحمل سے کام لیا اور فلسطینیوں کو اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغنے کی اجازت دی۔‘‘
تواتر سے کیے جانے والے اسرائیلی حملوںکے باوجود غزہ کے باشندوں کا مجموعی ردِعمل وحشیانہ نہ تھا۔ اوسلو معاہدے کے موقع پر بھی فلسطینیوں کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے معاملات بگڑتے، اور اِسی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں اسرائیل کو زیادہ مضبوط ہونے اور قدم جمانے کا موقع ملا۔ اس پر اسحاق رابن نے یہ تبصرہ کیا کہ کاش یہ ساری خرابی سمندر میں غرق ہوجاتی۔ اپریل 2004ء میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ سے نکل جائے گا۔ ستمبر 2005ء تک اسرائیلی فوجی اور یہودی آبادکار مقبوضہ علاقوں سے نکال لیے گئے۔ ایریل شیرون کے ایک کلیدی مشیر ڈَو وائزگلاز نے اس اقدام کی منطق بیان کرتے ہوئے کہا ’’عالمی برادری اور بالخصوص امریکہ کا اسرائیل پر شدید دباؤ تھا۔ اسرائیلی فوجیوں اور آبادکاروں کے نکال لیے جانے سے سیاسی عمل کو بھی روکنا ممکن ہوسکے گا۔ اور سیاسی عمل کو روکنے کا مطلب ہے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ مسدود کرنا۔‘‘ بعد میں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ وہ غزہ میں قابض طاقت کی حیثیت ختم کرچکا ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور متعدد بین الاقوامی اداروں نے اسرائیل کا یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کسی نہ کسی شکل میں اب تک قابض و متصرف ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے اندر تعینات رہے یا اُس کے اردگرد، وہ تمام معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ بین الاقوامی قانون کے سرکردہ اسرائیلی ماہر یوریم ڈائنسٹائن نے بھی برملا کہا کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ختم ہوا ہی نہیں۔
عمومی، قابلِ قبول اور قبول شدہ دانش کہتی ہے کہ اوسلو میں مذاکرات کا جو عمل شروع کیا گیا تھا وہ مکمل طور پر ناکام رہا، کیونکہ اِس کے نتیجے میں دیرپا امن کی راہ ہموار نہ ہوسکی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا سوچنا مکمل طور پر درست نہیں کیونکہ یہ سوچ اوسلو مذاکرات کے اصل مقصد کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ بین ایمی کے الفاظ میں ’’اسرائیل چاہتا تھا کہ اوسلو مذاکرات کے نتیجے میں اُسے خاصی بڑی تعداد میں ایسے فلسطینی ملیں جو اُس کے ساتھ مل کر کام کرسکیں۔‘‘ اِس بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو اوسلو میں شروع کیا جانے والا امن عمل مکمل ناکامی سے دوچار نہیں ہوا۔ یہ اسرائیل کے لیے بڑی کامیابی کی مانند تھا۔ اوسلو کے معاہدۂ دوم کا جائزہ لیجیے جو ستمبر 1995ء میں کیا گیا۔ اِس میں فریقین کے حقوق و فرائض کی تفصیل موجود ہے۔ فریقین نے 1993ء کے سمجھوتے سے مکمل اتفاقِ رائے کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ طے کیا اُس کی تفصیل خاصی غور طلب ہے۔ جو کچھ بھی فلسطینی مذاکرات کاروں کے ذہن میں تھا وہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار صفحات سرکردہ فلسطینی شخصیات کو محفوظ راہداری دینے سے متعلق تھے جبکہ فلسطینی قیدیوں اور زیرِ حراست افراد سے متعلق معاملات کے لیے صرف ایک صفحہ مختص تھا جبکہ وہ ہزاروں میں تھے!
المیہ یہ ہے کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں سابق متحارب فریقین کے درمیان باہمی اعتماد پیدا کرنے کے عمل کے نام پر پانچ برس پر محیط عبوری دور شروع ہوا۔ ہاں، جب اور جہاں اسرائیل کو امن کی ضرورت محسوس ہوئی تب امن عمل بہت تیزی سے شروع ہوا۔ اب یہی دیکھیے کہ مصر کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے چل رہے تھے کہ 1973ء میں مصر ہی نے اسرائیل پر دھاوا بول دیا۔ 1978ء میں اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور مصر کے قائدین کو بلایا اور یوں باضابطہ مذاکرات ہوئے اور اگلے ہی سال فریقین میں جامع امن معاہدہ بھی ہوگیا۔ (جاری ہے)