انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان بلوچستان بدامنی کی لپیٹ میں

لگتا ہے افغانستان کے ساتھ بگاڑ کا قطعی فیصلہ کرلیا گیا ہے، اور اس ضمن میں حکمتِ عملی بھی اپنائی جا چکی ہے۔ افواج پاکستان کے سالار جنرل عاصم منیر کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ دورئہ امریکہ پر نگاہیں ہیں کہ اس پہلو پر مزید کیا پیش رفت اور پالیسی اپنائی جائے گی۔ انتظامی افسروں کو ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنے کے بعد 8 فروری2024ء کے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانب داری کا عقدہ بھی کھل چکا ہے جس پر محض پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اعتراض اٹھایا۔ تحریک انصاف نے البتہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس نے انتظامی افسران کے بطور آر اوز، ڈی آر اوز تقرر کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا، لیکن عدالتِ عظمیٰ نے 15 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔حیرت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس خطرناک کھیل کا تماشا دیکھتی رہیں، حالاں کہ یہاں انتخابات کے التواکی درخواست یا مطالبہ سرے سے تھا ہی نہیں۔ اعتراض انتظامی افسران پر تھا جن کی موجودگی میں انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان ہے۔ ا نتظامی افسران تو ہر لحاظ سے ماتحت رہتے ہیں اور وہ یقینی طور پر انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوں گے۔ تحریک انصاف تو کھڈے لائن لگے گی ہی، باقی جماعتیں بھی اپنی خیر منائیں۔ البتہ مسلم لیگ نواز، استحکام پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ کے لیے میدان صاف ہوگا۔ جمعیت علماءاسلام، عوامی نیشنل پارٹی بھی اس سیاہ کھیل کا حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنا بویا کاٹ رہی ہے۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کے سروں پر نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی حاوی رکھی جا ئیں گی۔ بلوچستان میں نواز لیگ میں غالب تعداد ایسے لوگوں کی جمع رکھی گئی ہے جو میاں نوازشریف کی ذرا ہل جُل کی صورت میں ایک مرتبہ پھر وار سے گریز نہیں کریں گے۔ ہمنوا بلوچستان عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے اراکین ہوں گے۔ ویسے بھی میاں نوازشریف کے بجائے شہبازشریف مقتدر حلقوں کو محبوب ہیں۔ آشیرباد سے بننے والی حکومت افغانستان سے متعلق پالیسی میں استعمال ہوگی۔ ایسی صورت میں ملک پھر پُرآشوب دور میں داخل ہوگا۔ بلوچستان کے نگراں سیٹ اپ میں بٹھائے گئے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے تو حد کردی۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے کی پیشکش کرے تاکہ ان اڈوں سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے ہوں۔ مگر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے اپنے مذموم بیان کو بعد ازاں ڈیلیٹ کردیا۔ ممکن ہے اسے ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت ملی ہو۔ جان اچکزئی برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ بدعنوان شخص ہیں، اس وقت بھی مال بنانے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ اس لالچ میں رواداری اور سلیقہ مندی بھول بیٹھے ہیں۔ تربت اور چمن دھرنوں سے متعلق غیر سنجیدہ، نفرت انگیز اور اشتعال انگیز گفتگو کرتے رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں! امریکہ کو فوجی اڈے دینے کی پیشکش کی بات کرنے کے بعد انہیں وزارت پر نہیں رہنا چاہیے تھا، کیوں انہوں نے پاکستان کی داخلی خودمختاری اور سلامتی کے بجائے امریکی مفادات کی ترجمانی کی ہے۔ غرض توپوں کا رخ افغانستان کی طرف ہے۔ حال یہ ہے کہ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ریاست کی عمل داری سے آزاد ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے افسوس ناک سانحے پر بھی افغانستان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا جس میں فوج کے23جوان جاں بحق ہوئے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ٹی ٹی پی کمانڈروں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں میں سے دو افغان باشندے تھے۔ اغلب طور پر ثبوت یہ ہوتا ہے کہ نادرا میں ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ دیکھا جائے تو جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں آپریشن راہِ جات اور شمالی وزیرستان میں 2014ء میں آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں ہزاروں خاندان قبائلی علاقوں سے افغانستان منتقل ہوگئے، اور اس منتقلی کو طویل عرصہ ہوگیا ہے۔ کئی بچے افغانستان میں ہی جوان ہوچکے ہیں اور یہ سب نادرا میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ بے شک افغان باشندے بھی ملوث ہوسکتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کابل حکومت نے بھرتی کراکر بھیجا ہوگا۔ افغان حکومت کے امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے فتویٰ دے رکھا ہے کہ افغانستان سے باہر اگر کوئی لڑتا ہوا مرتا ہے تو اس کی موت حرام ہے اور یہ جہاد نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسلح گروہ جدید امریکی اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔ چناں چہ یہ امر بھی راز نہیں کہ یہ اسلحہ افغانستان پر بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران فروخت ہوتا رہا۔ تب کے افغان کمانڈر اور فورسز کے لوگ اسے فروخت کرتے رہے۔ امریکی اسلحہ پاکستان کے اندر نیٹو کے لیے لے جائے جانے والے کنٹینروں سے چرایا جاتا جو کراچی پورٹ سے بلوچستان کے راستے امریکی اور نیٹو فورسز کے لیے لے جایا جاتا۔ یہ کنٹینر بلوچستان کی حدود میں مسلسل لوٹے جاتے اور اسلحہ ملک بھر میں فروخت ہوتا، اور یہ لوٹ مار بھی بغیر تعاون کے نہیں تھی۔ مقصد امریکہ اور نیٹو کو ضعف پہنچانا تھا کیوں کہ افغانستان میں امریکہ نے پاکستان کے بجائے بھارت کو جگہ دے رکھی تھی، اور ان بیس سالوںمیں تمام افغان حکومتیں جو امریکہ کے زیر سایہ بنتی رہیں، پاکستان مخالف تھیں۔

بات بدامنی کی ہو تو خود بلوچستان کے اندر حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ بلوچ عوام حکومت مخالف احتجاج پر ہیں۔ انہوں نے لاپتا افراد کا مسئلہ اٹھا رکھا ہے، وہ الزام لگاتے ہیں کہ فورسز اور محکمہ انسداد دہشت گردی جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کررہے ہیں۔ 22نومبر کو تربت میں بالاچ نامی نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ اِن دنوں بڑا ایشو بنا ہوا ہے جسے سی ٹی ڈی نے ہلاکت سے چند روز پہلے گرفتار کیا تھا اور عدالت سے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے دو دن بعد ایک مقابلے میں ہلاک کیا۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ بالاچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا جس کی نشاندہی پر دہشت گردوں کے ٹھکانے پر چھاپے کے دوران دہشت گردوں نے فائرنگ کی جس کی زد میں آکر بالاچ کی موت ہوئی اور جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد مارے گئے۔ لواحقین نے ان الزامات کو رد کیا اور میت لے کر دھرنا شروع کردیا۔ کئی دنوں کے دھرنے کے بعد میت کی تدفین کی گئی۔ تاہم تربت کے اندر دو ہفتے تک مرد و زن پر مشتمل دھرنا جاری رہا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہ ہونے پر کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ تربت سے 6 دسمبر کو نکلنے والا لانگ مارچ 12دسمبر کو کوئٹہ پہنچا۔ صوبائی حکومت نے ریڈ زون کنٹینر لگا کر بند کردیا۔ مارچ کے شرکاء بلوچستان یونیورسٹی تک پہنچے۔ یہاں دن بھر احتجاج ہوتا رہا۔ پھر سریاب کیچی بیگ کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ مختلف شخصیات نے جاکر خطاب کیا۔ پھر فیصلہ اسلام آباد کی طرف مارچ کا ہوا۔ ضلع کوہلو میں مارچ کا شاندار استقبال ہوا۔ لاپتا افراد کے لواحقین شریک تھے جنہوں نے اُن کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ کوہلو کی تاریخ کا بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ رکھنی اور بارکھان میں بھی بڑا استقبال ہوا۔ اس طرح اسلام آباد روانگی ہوئی۔ اس مارچ کی قیادت میں خواتین بھی شامل ہیں۔ بچے اور بچیاں بھی شریکِ سفر ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں پنجاب پولیس نے جگہ جگہ مارچ کو آگے بڑھنے سے روکا۔ مارچ کے کوئٹہ پہنچنے سے پہلے عدالتی حکم پر سی ٹی ڈی اہلکاروں و افسران کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج ختم نہیں کیا اور بالاچ بلوچ پر لگائے گئے الزامات واپس لینے، ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری، سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو غیر مسلح کرکے ماورائے آئین و عدالت اقدامات کی تحقیقات کرنے، زیر حراست اور لاپتا بلوچ نوجوانوں کو مبینہ جعلی مقابلوں میں مارنے سمیت جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے مطالبات پیش کیے۔ چمن میں دھرنا الگ داستان ہے جو لمحہ بہ لمحہ خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر حکومت اس معاملے کو سلجھانے کے بجائے چھچھوروں کے ذریعے پریس کانفرنسیں کرواکے اور بیانات دلواکر مزید الجھا رہی ہے۔ چمن دھرنے پر دھیان نہیں دیا گیا تو یہ احتجاج بلوچستان کے دوسرے پشتون علاقوں تک پھیل جائے گا۔ چمن دھرنے کے شرکاء پاک افغان سرحدی پٹی کے دونوں اطراف کے باشندوں کو پاسپورٹ اور ویزے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دینے اور سرحد پر چھوٹے پیمانے پر سامان کی ترسیل کرنے والوں کے روزگار پر قدغن ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ غرضیکہ افغانستان کے ساتھ کسی بھی نوعیت کے تصادم کی صورت میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حالات خرابی کی نئی صورت اختیار کرلیں گے جس کی ذمہ دار وہ تمام سیاسی جماعتیں بھی ہوں گی جنہوں نے نگرانوں کے تماشوں پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان میں کسی بھی سیاسی تبدیلی کی صورت میں افغان طالبان جنگ نہیں لڑیں گے۔ اقتدار کی کوئی بھی صورت بنے، طالبان اس کا حصہ ہوں گے یا حکومت مخالف سیاسی عمل میں فعال ہوں گے۔