ـ16 دسمبر 1971ء قومی تاریخ کا سیاہ ترین دن

مغربی پاکستان کے حکمران بنگالیوں کو اچھوت سمجھتے تھے

یوں تو ارضِ وطن پر فرزندانِ وطن نے اَن گنت مظالم ڈھائے ہیں لیکن جو کچھ مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا گیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 16 دسمبر اسلامی تاریخ میں ’’سیاہ ترین دن‘‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن قائداعظم کا پاکستان بدمست حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کے نتیجے میں دم توڑ گیا تھا۔ مشرقی پاکستان، جہاں کے 96 فیصد مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان کے حق میں ووٹ ڈال کر پاکستان بنایا تھا، 16 دسمبر کو وہ خطہ قصۂ پارینہ بن گیا۔ بادہ مست حکمرانوں کی عیاشی اور نااہلی کے باعث غازی اور شہید کا موٹو رکھنے والی دنیا کی جری اور بہادر فوج کو دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک کر جنگی قیدی بننا پڑا۔ اس سانحے نے دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے اہلِ ایمان اور بالخصوص پاکستانیوں کو اشک بار کردیا۔ 16 دسمبر کے گھائو سے آج بھی اسی طرح خون رِس رہا ہے۔ دردمند پاکستانیوں کے دلوں میں اس کی کسک آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ پاکستان کو شکست سے دوچار کرنے والے جرنیلوں کی صحت پر تو اس المناک حادثے کا کوئی اثر نہ پڑا لیکن پاکستان سے محبت کرنے والے اس سانحے کے بعد بالکل ہی ڈھے گئے جس کی ایک مثال سید مودودیؒ ہیں۔ سید صاحب آہنی اعصاب کے مالک اور صبر و تحمل کا کوہِ گراں تھے۔ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد جب انہیں کال کوٹھری میں محبوس کیا گیا اور موت ان کے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی، اُس وقت بھی سید صاحب بالکل پُرسکون رہے۔ کال کوٹھری پر موجود پہرے دار کا بیان ہے کہ رات کو سید صاحب معمول کے مطابق سو گئے۔ میں ان کے خراٹوں کی آوازیں مسلسل سنتا رہا۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ جس شخص کو دو ایک روز میں پھانسی ملنی ہے بھلا وہ کس طرح گہری نیند سوسکتا ہے! لیکن یہ ناممکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے سانحے نے آہنی اعصاب کے مالک سیّد کو توڑ ڈالا۔ ان کے صاحب زادے محمد فاروق مودودی کا بیان ہے کہ مشرقی پاکستان کے سانحے کا سیّد صاحب نے اتنا اثر لیا کہ ان کی صحت ٹوٹ کر رہ گئی۔ سید مودودیؒ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ’’اس سانحے سے ان پر کیا گزری، اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں دل کا دورہ تبھی پڑا تھا۔‘‘سید صاحب جب امریکہ علاج کی غرض سے گئے تو ان کے میزبان ڈاکٹر مقبول احمد کہتے ہیں کہ ہم سید صاحب سے ملنے کے لیے آنے والوں کو سختی سے تاکید کردیتے تھے کہ وہ مشرقی پاکستان سے متعلق کوئی گفتگو نہ کریں۔ ہم جانتے تھے کہ اس تذکرے کے بعد سید صاحب بہت زیادہ دکھی ہوجاتے تھے۔

دوسری جانب اُس وقت کے حکمران طبقے کی بے حسی اور ڈھٹائی دیکھیں۔ عین اُس وقت جب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج ہتھیار پھینک رہی تھیں، صدرِ پاکستان جنرل یحییٰ خان اخبارات کو یہ پریس ریلیز جاری کررہے تھے کہ 20 دسمبر 1971ء کو وہ اپنے خودساختہ آئین کا اعلان کریں گے۔ 17 دسمبر 1971ء کے اخبارات میں دو سرخیاں ایک ساتھ لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف 20 دسمبر 1971ء کو ملک میں ’’یحییٰ خانی آئین‘‘ کے نفاذ کا اعلان، دوسری جانب پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کی خبر۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم کہ جنرل یحییٰ خان اس المناک حادثے کے بعد بھی صدر رہنے پر مُصر تھے۔

سانحۂ مشرقی پاکستان کے ضمن میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ پہلی بات یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کوئی حادثہ نہیں تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے فوری بعد ملک پر قابض حکمران ٹولہ دل و جان سے یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح مشرقی پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ اس خواہش کا اظہار وہ زبان سے بھی کرتے رہے اور عملاً اس کے لیے کوشاں بھی رہے۔ نظریۂ ضرورت کی آڑ میں آمریت کو عدالتی سند دینے والے جسٹس منیر صاحب اپنی کتاب “Zia to Jinnah” میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے مجھے مشرقی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر رمیض الدین کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اس محب وطن بنگالی نے ڈکٹیٹر کو منہ توڑ جواب دیا اور کہا کہ ہم اکثریت ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے۔آپ اقلیت ہیں، آپ کو الگ ہونا ہے تو ہوجائیں۔ 1954ء میں غلام محمد نے جنرل ایوب کے ایماء پر دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور بنگالی اسپیکر مولوی تمیزالدین نے اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ جسٹس کارنیلیس اس مقدمے کی سماعت کررہے تھے۔ مقدمے کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے چند صحافی آصف جیلانی، مشیر حسن روزنامہ ڈان، اطہر علی روزنامہ جنگ اور مظفر احمد منصوری APP، عدالت میں موجود ہوتے تھے۔ آصف جیلانی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم احاطۂ عدالت میں موجود کینٹین میں چائے پینے کے لیے بیٹھے تھے، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر تجارت فضل الرحمن ہمارے قریب سے گزرے، ہم نے انہیں چائے کی دعوت دے ڈالی جسے انہوں نے بکمالِ مہربانی قبول کرلیا۔ جیسے ہی وہ بیٹھے، ہم نے اُن سے پوچھا کہ اب کیا ہوگا؟ انہوں نے ایک لمحہ توقف کے بعد جواب دیا: پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اُن کا جواب سن کر ہم سب بھونچکا رہ گئے۔ ہم نے کہا کہ آپ کس بنیاد پر اتنی بڑی اور بُری بات منہ سے نکال رہے ہیں! انہوں نے بلاجھجک کہا کہ: دیکھیں دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور اب بہت جلد فوج ملک پر قبضہ جمالے گی۔ فوج کلیتاً مغربی پاکستان کی ہے، اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں سے یہ حقیقت نہیں مٹائی جاسکتی کہ اُن پر مغربی پاکستان حکومت کررہا ہے۔

بنگالی سیاسی اعتبار سے بالغ نظر تھے اور ان کا سیاسی شعور بلند اور پختہ تھا۔ برصغیر میں انگریز کی غلامی کے خلاف سب سے پہلے علَمِ بغاوت اہلِ بنگال ہی نے بلند کیا تھا۔ انگریز خوب جانتا تھا کہ بنگالی مسلمان کی خاکستر میں شرارِ آزادی موجود ہے، چناں چہ جب اُس نے برصغیر میں اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے مقامی لوگوں پر مشتمل فوج بنائی تو بنگالی مسلمانوں کو اس سے پاک رکھا۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ انگریز کے جانشین جرنیلوں نے مارشل ریس کا جعلی فلسفہ گھڑا اور بنگالیوں کے چھوٹے قد کو جواز بناکر انہیں مارشل ریس سے باہر رکھتے ہوئے فوج میں ان کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ 1971ء تک 56فیصد بنگالی آبادی کا فوج میں حصہ صرف 8 سے 10 فیصد تھا اور44 فیصد مغربی پاکستان کی آبادی کا حصہ فوج میں 90 سے 92 فیصد تھا۔ 1906ء میں مسلم لیگ بنانے والے اور پاکستان کے حق میں 96 فیصد ووٹ ڈالنے والے بنگالی 1906-1947ء تک پاکستان کے معمار تھے، لیکن ڈکٹیٹروں کے عہد میں وہ غدار ٹھیرائے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد Parity کی بنیاد پر جب 56 فیصد بنگالیوں کو 44 فیصد کے برابر گردانا گیا تب بھی بنگالیوں نے پاکستان کی محبت میں اسے تسلیم کرلیا۔ اس کے باوجود بھی بنگالیوں سے نہایت تحقیر آمیز سلوک جاری رکھا گیا۔ مغربی پاکستان کے حکمران بنگالیوں کو اچھوت سمجھتے تھے۔ مغربی پاکستان کے حاکم اعلیٰ گورنر کالا باغ جب بنگلہ دیش جاتے تھے تو اپنے کھانے کی چھوٹی سے چھوٹی چیز، حتیٰ کہ پینے کا پانی بھی مغربی پاکستان سے لے کر جاتے تھے اور مشرقی پاکستان کی کوئی چیز استعمال نہیں کرتے تھے۔

1954-55ء میں منتخب بنگالی اراکینِ اسمبلی مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کو مسلسل باور کراتے رہے کہ اگر انہوں نے مشرقی پاکستان سے ناروا سلوک جاری رکھا تو مستقبل میں ملک کا اتحاد قائم نہیں رہ سکے گا۔ لیکن کسی کے کانوں پر جُوں نہیں رینگی۔ جب ایوب خان 1956ء کے آئین کی جگہ اپنا آئین 1962ء لارہے تھے، تب ان کے اپنے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے انہیں خبردار کیا کہ ان کا یہ عمل ملک کو توڑنے کا باعث بنے گا۔ ہر آمر عقلِ کُل ہوتا ہے، وہ کب کسی کی سنتا ہے! جسٹس صاحب کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ جسٹس ابراہیم کی بات نہ سنی گئی تو وہ مستعفی ہوکر گھر چلے گئے۔ سید مودودیؒ سقوطِ مشرقی پاکستان سے دو برس پہلے جب مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو وہاں کے حالات دیکھ کر انہوں نے بڑی دردمندی کے ساتھ حکمرانوں کو بروقت متنبہ کیا کہ اگر مشرقی پاکستان سے رویہ نہ بدلا گیا تو پھر ملک کو بہت زیادہ دیر تک متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں مست غاصب حکمران احساس اور شرم دونوں سے عاری تھے اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔

1971ء کے انتخابات کے بعد جب عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی تو ان کے مینڈیٹ کو پائے استحقار پر رکھا گیا۔ انتخابات کو سال بھر گزرنے کے بعد بھی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ نہ دی گئی۔ جنرل یحییٰ خان پاکستان کی 300 نشستوں میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والے مجیب کو یہ کہتے پائے گئے:

I will sort out this bastered.

’’میں اس حرام زادے کو ٹھیک کردوں گا۔‘‘

پھر جرنیلی حکم کے مطابق مجیب الرحمن کو ’ٹھیک‘ کرنے کی خاطر داخلِ زنداں کردیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج شروع ہوگیا، جسے بوٹوں تلے کچلنے کے لیے براہِ راست ملٹری ایکشن شروع کردیا گیا۔ جنرل ٹکا خان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’مجھے آدمی نہیں زمین چاہیے‘‘۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان علیحدہ نہیں ہوا تھا بلکہ ڈکٹیٹروں نے اسے علیحدہ کیا تھا۔ سید مودودیؒ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا ’’مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا ، اسے تو یوں سمجھیں کہ مغربی پاکستان والوں نے دھکے دے کر الگ کیا ہے۔ حقیقت میں ہمارے یہاں کی مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان کے ساتھ چوہڑوں (بھنگیوں)والا سلوک روا رکھا اور ان کے ساتھ ناانصافیاں کیں۔‘‘غاصب حکمرانوں کی اس طویل بدسلوکی کے بعد بالآخر وہی کچھ ہوا جو ہونا تھا۔ عوامی مینڈیٹ کو بوٹوں تلے کچلنے اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو، جو 1947-1906ء تک پاکستان کے معمار تھے، غدار قرار دے کر گولیوں کی باڑھ پر رکھ دینے کے بعد بنگالیوں کے پاس دوسرا اور کون سا راستہ باقی رہ گیا تھا جسے وہ اختیار کرتے! جنرل صاحب زادہ یعقوب اور ایڈمرل ایس ایم احسن مغربی پاکستان میں غاصب جرنیلوں کو دہائیاں دیتے رہے کہ فوجی ایکشن ملک اور فوج دونوں کو توڑ دے گا۔ لیکن شراب اور طاقت کے خمار میں مست جرنیلوں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ بالآخر وہ دونوں شریف آدمی بطور احتجاج مستعفی ہوگئے۔

حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ قومی سطح پر اتنی بڑی قیامت گزرنے کے بعد بھی اقتدار پر قابض ٹولہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس المناک حادثے کا کوئی نوٹس لیا گیا، نہ ہی اس کے اسباب کا تعین کیا جاسکا۔

ذمہ داروں کو سزا تو کیا ملنی تھی الٹا انہیں اعزاز کا مستحق ٹھیرایا گیا۔ ’’مردِ مومن۔ مردِ حق‘‘ نامی ڈکٹیٹر نے جب ملک پر قبضہ جمایا تو پہلا کام یہ کیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے سب سے بڑے مجرم جنرل یحییٰ خان کی نظربندی ختم کرنے کے احکامات صادر کیے، ساتھ ہی ان کی مراعات ، اعزازات اور تمغہ جات جو ضبط کیے جاچکے تھے، بحال کردیے۔ اس دشمنِ ملک و ملت کی وفات پر آمر ضیاء الحق کے حکم پر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اس کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو اپنے اس شعر میں لفظ تیمور ہٹا کر ’’پاکستان کے ڈکٹیٹر‘‘ کا اضافہ کردیتے:

مگر یہ راز کھل گیا زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس حقیقت کو سربستہ راز رکھا گیا کہ معمارانِ پاکستان بنگالی بھائی آخر مغربی پاکستان سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے اس آخری حد تک کیوں گئے؟ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اگر یہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی تو پھر آمروں کے جرائم آشکارا ہوجاتے۔آمروں نے اپنی رسوائی، ناکامی اور جرائم کو پوشیدہ رکھنے کے لیے عوام الناس کو حقیقت ِحال کی ہوا بھی نہ لگنے دی اور اس سانحے کو پاکستانی قوم کے شعور میں رجسٹر ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ زندہ قومیں شکست اور سانحات سے بھی سبق حاصل کرتی ہیں، لیکن یہاں یہ حال ہے کہ قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا جو قوموں کو نئی زندگی بخشتا ہے اور مستقبل میں سانحات سے محفوظ رکھتا ہے۔ قومی سطح پر اربابِ اقتدار نے مشرقی پاکستان کے تذکرے کو اجتماعی شعور سے کھرچنے کی کوشش کی۔ پورا تعلیمی نصاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کہیں مشرقی پاکستان کا ذکر ہی نہیں ملے گا۔ فوجی آمر ضیاء الحق نے سرکاری سطح پر 14 اگست کو جشنِ آزادی منانے کی روایت تو ڈالی لیکن اس زندہ احساس کو بالکل ملیامیٹ کردیا کہ موجودہ پاکستان 14 اگست کو بننے والا پاکستان نہیں ہے۔ یہ اُس پاکستان کا آدھا حصہ ہے، بقیہ آدھا حصہ ہم نے کاٹ کر پھینک دیا۔ بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی۔ اس رسوائی کو زیرزمین دفن کرنے کے لیے یہ سارا اہتمام کیا گیا کہ قوم میں اس سانحے کے حوالے سے آگاہی اور احساسِ زیاں ہی نہ پیدا ہونے دیا جائے۔ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی ہوش کے ناخن لیے جاتے تو ملک پر دوبارہ آمریت کبھی مسلط نہ ہوتی۔

سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا

اب اس بیانیہ کو نمایاں کیا جارہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار پھینکنے والے فوجیوں کی تعداد 90 ہزار نہیں، 34ہزار تھی۔ ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ ازبریگیڈیئر صدیق سالک…

سانحہ مشرقی پاکستان کی چشم دید اور چشم کشا تفصیل پر مبنی کتاب ہے۔بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان میں 45 ہزار فوجی اور 73 ہزار نیم عسکری نفری موجود تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں یہی بات دہرائی تھی کہ ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد 90 ہزار نہیں 34 ہزار تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا 34 ہزار کا ہتھیار ڈالنا کوئی معمولی بات تھی؟ اور کیا تعداد کے اس فرق سے شکست کی کالک دھل سکتی ہے؟ دوسری مضحکہ خیز بات انہوں نے یہ کہی کہ یہ فوجی شکست نہیں بلکہ سیاسی شکست تھی۔ اب ان سے کون پوچھے کہ جناب 1958ء سے لے کر 16 دسمبر 1971ء تک تو سیاست و حکمرانی ساری کی ساری فوج ہی کے ہاتھ میں تھی۔ تو پھر یہ سیاسی شکست کیسے ہوگئی؟ یہ وہی یحییٰ خانی mindset ہے۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب ملکی اور غیر ملکی پریس کے سامنے بریفنگ کے لیے یحییٰ خان نے مجھے کہا تو میں نے اُن سے درخواست کی ’’چوں کہ یہ ایک فوجی شکست ِفاش ہے لہٰذا میرے ساتھ کسی فوجی افسر کو بھی بھیجا جائے۔ فوجی شکست کا لفظ سن کر یحییٰ خان آگ بگولہ ہوگئے، کہنے لگے تمہیں فوجی شکست کا لفظ استعمال کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا