انسانی تعلقات میں پیدا ہوجانے والے خلا کو انسان اپنی زمینی اور خلائی فتوحات کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
فیشن لباس، تراش خراش اور وضع قطع کاہی نہیں ہوتا… خیالات، تصورات اور رویوں کا بھی ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا بھر کی خواتین میں بلش اون اور مردوں میں جینز مقبول ہے اسی طرح دنیا بھر کے دانش وروں میں سائنسی شعور بڑا پاپولر ہے۔ خواتین ’’بلش اون‘‘ لگا کر اور مرد ’’جینز‘‘ پہن کر جس طرح اپنے آپ کو جدید طرزِ زندگی سے ہم آہنگ محسوس کرتے ہیں، اسی طرح دانش ور سائنسی شعور، سائنسی شعور کی گردان کرکے خود کو عصرِ حاضر سے مربوط خیال کرتے ہیں۔
ہر فیشن کے کچھ بنیادی مقاصد ہوتے ہیں۔ مثال کے طaور پر خواتین بلش اون کا استعمال اس لیے کرتی ہیں کہ خوبصورت نظر آئیں۔ مرد حضرات جینز اس لیے زیب تن کرتے ہیں کہ اسمارٹ نظر آئیں۔ بالکل اسی طرح سائنسی شعور کے گن گانے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ سائنسی شعور کو اپناکر وہ انتہائی ’’معروضی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ سائنسی شعور کی معروضیت بڑی زبردست شے ہے۔ اس تصور کا تقاضا ہے کہ کسی چیز کو اُس وقت تک تسلیم نہ کرو جب تک وہ قابل مشاہدہ اور قابلِ تجزیہ نہ ہو۔ جو شے قابلِ مشاہدہ اور قابلِ تجزیہ نہیں وہ مسترد کیے جانے کے قابل ہے۔ اس دلیل کی بنیاد پر اس شعور نے خدا کا انکار کیا، کیونکہ خدا ایک ناقابلِ مشاہدہ اور ناقابلِ تجزیہ حقیقت ہے۔ اس نے اور بہت سے مذہبی تصورات کی نفی کی کہ انہیں تجزیے کی سان پر نہیں کسا جا سکتا۔ یہ شعور دنیا سے ہر خوبصورت چیز کو ختم کردینے پر تلا ہوا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب شاعری اور تمام فنونِ لطیفہ انسان کی تاریخی بیماریوں کی یادگار قرار دے دیے جائیں گے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس اصول کی رو سے تو سائنسی شعور کے ماننے والے افراد کو اپنی ولدیت سے بھی انکار کردینا چاہیے، کیونکہ ان لوگوں نے اپنی مائوں کے رحم میں اپنے وجود کی درجہ بدرجہ ترقی کا نہ تو مشاہدہ کیا اور نہ ہی یہ کوئی ایسا عمل ہے جس کا اب وہ تجزیہ کرسکیں۔ ان کے والدین اور رشتے داروں نے ہی ان کو بتایا کہ تم ہمارے یا فلاں کے بیٹا بیٹی ہو۔ سائنسی شعور کے ماننے والوں نے اس ’’زبانی روایت‘‘ کو تسلیم کیا ہے۔ مغرب، مشرق کے کسی بھی معاشرے میں مجھے سائنسی شعور کو ماننے والا ایک بھی ایسا نہیں ملا جس نے اپنی پیدائش کے عمل کو Questionکیا ہو۔ ممکن ہے ان کا سائنسی شعور ابھی اتنا ترقی یافتہ نہ ہوا ہو۔ خدا کرے کہ جلد ہوجائے تاکہ اس آخری زبانی روایت پر سے بھی ان کا یقین اٹھ سکے اور وہ سائنسی شعور کے ساتھ کامل ہم آہنگی پیدا کرسکیں۔
سائنسی شعور کے پرستاروں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ گزشتہ 80، 90 برس سے جب سے سائنسی شعور نے دنیا بھر میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں، دنیا تہذیب کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ ایسی تہذیب کے دور میں، جس کی مثال انسانی تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی۔ یہ لوگ اس بات کا دعویٰ اس شدومد سے کرتے ہیں جیسے انسان لاکھوں برسوں میں پہلی بار اب مہذب ہوا ہے۔ اس سے قبل وہ جاہلِ مطلق تھا اور اس حوالے سے اس کا پورا تاریخی تجربہ رطب و یابس ہے۔ ان افراد کے ان تمام دعووں کے باوجود حقیقت کچھ اور ہی ہے، اور وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جتنا غیر مہذب اس سائنسی شعور کے عہد میں ہوا ہے اتنا غیر مہذب وہ کبھی بھی نہیں تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں ہم نے تو یہی پڑھا ہے کہ قدیم زمانے میں امن تو امن، جنگ کی بھی اخلاقیات ہوتی تھیں۔ ان اخلاقیات کے موٹے
موٹے اصول یہ ہوتے تھے:
1… بلا اعلان جنگ نہیں ہوگی۔
2… رات کی تاریکی میں حملہ نہیں کیا جائے گا۔
3… سوائے فوجیوں کے جنگ میں بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
4… کھڑی فصلوں کو آگ نہیں لگائی جائے گی۔
5… بہتے ہوئے پانی میں زہر نہیں ملایا جائے گا۔
یہ بات نہیں ہے کہ اُس زمانے کی جنگوں میں ان اخلاقی اصولوں پر سختی کے ساتھ عمل ہوتا تھا۔ ان اصولوں کی خلاف ورزیاں ہوتی تھیں، مگر ان خلاف ورزیوں کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اور ایسا کرنے والا گروہ چاردانگ عالم میں مطعون ہوتا تھا۔ ذرا ان اصولوں کو دیکھ کر بتائیے کہ سائنسی شعور کے اِس مہذب دور میں مندرجہ بالا جنگی اصولوں میں سے کتنے اصولوں پر عمل ہوتا ہے؟ اور اگر ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو خلاف ورزی کرنے والے کو کہاں کہاں مطعون کیا جاتاہے؟ تو پھر کون زیادہ مہذب ہوا؟ ہم یا قدیم انسان؟
سائنسی برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ سائنس نے انسان کی اکثر بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے، لیکن بیماریوں کے علاج کے لیے جو دوائیاں ایجاد ہوئی ہیں ان کے Side Effects اتنے زیادہ ہیں کہ ان سے سیکڑوں نئی اور انوکھی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ ایسی بیماریاں جن کا علاج شاید ایک آدھ صدی کے بعد دریافت ہوسکے۔ قدیم آدمی کے زمانے کی دوائیاں چاہے انسان کو اچھا نہیں کرسکتی تھیں، مگر وہ نئی بیماریوں کا پیش خیمہ نہیں بنتی تھیں۔
سائنسی شعور کے پرستاروں کا کہنا ہے کہ ہماری سائنس نے انسان کو رسل و رسائل کے حیرت انگیز ذرائع مہیا کرکے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ ٹھیک ہے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا بھر میں ایک سال کے اندر ٹریفک کے مختلف حادثات میں کتنے افراد ہلاک ہوتے ہیں؟ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک لاکھ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پرانے زمانے میں گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایک سال کے اندر دس ہزار افراد بھی ہلاک ہوا کرتے تو آج دنیا بھر میں گھوڑے اور اونٹ سائنسی عہد کی سب سے ناپسدیدہ مخلوقات قرار پاتے۔
قارئینِ کرام! اصل مسئلہ خلائی جہاز یا اونٹ پر سواری کرنے کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان جہاز پر سفر کے زمانے میں زیادہ خوش، مطمئن اور محفوظ ہے یا اونٹ پر سفر کے زمانے میں زیادہ خوش، مطمئن اور محفوظ تھا؟ یہ ٹھیک ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے اور مریخ پر دس بارہ برس میں پہنچ جائے گا، مگر زمین کا حال یہ ہے کہ پڑوسی کو پڑوسی کی خبر نہیں ہے۔ پڑوسی کیا، ایک گھر میں ایک فرد کو دوسرے کی خبر نہیں۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ موت کاتجربہ جتنا عام ہو گیا ہے ہم موت کو اتنا ہی بھول چکے ہیں۔ یعنی اس عہد نے زندگی ہی نہیں موت کا شعور بھی ہم سے چھین لیا ہے۔ زندگی اور موت کے شعور سے محروم ہوکر بھی انسان اگر اپنے آپ کو مہذب کہیں تو اس پر ہنسنے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے! اور اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ایسے سائنی شعور کی ایسی تیسی۔
یہ ایسی تیسی کا احساس اُس وقت اور قوی ہوجاتا ہے جب ہمیں یہ احساس ہوجاتا ہے کہ انسانی تعلقات میں پیدا ہوجانے والے خلا کو انسان اپنی زمینی اور خلائی فتوحات کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اگر انسانی زندگی ہی مسرت سے ہم کنار نہیں تو انسان چاہے مُردوں کو زندہ کرنا سیکھ لے، اسے ترقی نہیں کہا جاسکتا۔
قارئین! یہ کالم دراصل ایک ردعمل ہے۔ کراچی میں نیپا آڈیٹوریم میں علامہ نیاز فتح پوری کے یادگاری لیکچروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کا عنوان ”جبلت، شعور اور سائنسی شعور“ تھا۔ اس لیکچر میں موصوف نے سائنسی شعور کے اتنے گن گائے کہ لگتا تھا جیسے یہ تصور خود ان کی اپنی ایجاد ہو، یہ اور بات ہے کہ پورے مقالے سے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ سائنسی شعور سے مراد کیا ہے؟ اس مقالے میں انہوں نے بھائی ڈی ایچ لارنس پر بھی خامہ فرسائی کی تھی جس سے ظاہر ہوا کہ ایک جامعہ کے انگریزی شعبے کے صدر ہونے کے باوجود وہ لارنس سے اتنے بھی واقف نہیں جتنا لارنس کی کسی بنیادی کتاب کو چاٹنے والی دیمک ہوسکتی ہے۔