برطانوی عدالت کا اہم فیصلہ

”مرر گروپ نیوز پیپرز“ کو برطانوی شہزادے ہیری کو ایک لاکھ چالیس ہزار پاؤنڈ بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

برطانوی عدالت نے فون ہیک کرنے کے الزامات درست ثابت ہونے پر برطانوی جریدے و بڑے میڈیا گروپ ”مرر گروپ نیوز پیپرز“ کو برطانوی شہزادے ہیری کو ایک لاکھ چالیس ہزار پاؤنڈ بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس عدالتی حکم نے برطانوی صحافت کے لیے ایک نئی مثال قائم کردی ہے جس سے اب برطانوی صحافت اور خاص طور پر منفی صحافت کے لیے گنجائش مزید کم ہوجائے گی۔ برطانوی اخبار ڈیلی مرر اور گروپ کے دیگر دو اخبارات نے غیر قانونی طور پر نہ صرف شہزادہ ہیری کے فون ہیک کیے بلکہ اس سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر خبریں بھی شائع کیں۔ یہ سارا عمل 2006ء سے 2011ء کے درمیان ہوا۔ برطانوی عدالت نے اس معاملے پر سخت ترین حکم جاری کرتے ہوئے اخبار کو غیر قانونی طریقے سے خبریں حاصل کرنے کا مرتکب قرار دیا۔ یعنی خبر کی صداقت پر اگر اخبار قائم بھی ہے تو اُس کو اس کے ذرائع کے بارے میں بھی بتانا ضروری تھا جس میں وہ نہ صرف ناکام ہوا بلکہ اس کیس کو اگر آپ مکمل تناظر میں دیکھیں تو مذکورہ اخبار کسی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب نظر آتا ہے۔

برطانیہ میں قوانین محض قوانین نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد اس معاشرے کا خاصہ ہے، اور حکومتیں و عدالتیں قوانین پر عمل درآمد کو سو فیصد یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور عدالتوں پر حکومت کا دباؤ بھی ناقابل قبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی شہزادہ ہیری جوکہ اس وقت خود برطانوی شاہی خاندان میں شدید تقسیم و اختلافات کے بعد اب امریکہ میں مقیم ہیں اور وہ اب بھی شاہی خاندان و برطانوی میڈیا پر شدید تنقید کرتے ہیں، اس سب کے باوجود عدالتوں پر اعتماد کرتے ہوئے نہ صرف ایک بڑے اخبار کو عدالتی کٹہرے میں لائے بلکہ گزشتہ 130 سال میں شاہی خاندان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ شاہی خاندان کا کوئی فرد عدالت کے روبرو نہ صرف خود پیش ہوا بلکہ اس عدالت پر اعتماد بھی کیا۔ برطانوی شہزادہ ہیری نے اپنی والدہ کے قتل کا الزام بھی برطانوی میڈیا پر عائد کیا ہے اور ایک ڈاکومنٹری کے ذریعے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ کس طرح ہیری کو ایک شہزادہ ہونے کے باوجود میڈیا کے ذریعے ہراساں کیا گیا، اس پر ہیری نے بار بار آڈیو، ویڈیوز کے ثبوت پیش کیے جن میں بتایا گیا کہ میڈیا نہ صرف ان کی خاندانی زندگی میں مخل ہوتا رہا بلکہ اس میڈیا مہم جوئی نے ان کی والدہ لیڈی ڈیانا کا سکون بھی غارت کیے رکھا۔ شہزادہ ہیری کا پہلے میڈیا کی اس غنڈہ گردی کے خلاف ڈاکومنٹری بنانا، اس کو نیٹ فلکس پر ریلیز کرنا، اس کے بعد اب خود فون ہیک کرنے کے معاملے کو عدالت میں لے جانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ برطانیہ کہ جہاں میڈیا کے قوانین بہت سخت ہیں اس کے باوجود بھی کسی نہ کسی طور پر میڈیا قوانین کی خاموشی یا اس سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرکے صحافت کو گھٹیا طور پر پیش کرتا ہے، اور اب یہ بات بار بار کئی مقدمات سے ثابت ہوچکی ہے کہ میڈیا اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرتا ہے۔ اس ضمن میں جہاں آخری داد رسی کی جگہ عدالت رہ جاتی ہے وہاں بھی میڈیا کے بعض عناصر خبر کے ذرائع نہ بتانے کی آڑ میں بہت کچھ ایسا کر جاتے ہیں جس کے نتائج انتہائی بھیانک اور دور رس ہوتے ہیں۔ برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ کا پاکستانی کرکٹرز کو میچ فکسنگ میں ملوث کرنے کا معاملہ بھی کچھ یہی تھا جس پر پاکستان کی پوری دنیا میں سبکی ہوئی۔ اخبار اپنی خبر کی صداقت پر قائم رہا لیکن اخبار اور اس کے رپورٹر کا خود اس عمل میں ملوث ہونا ایک منظم جرم میں اعانت کا اعتراف تھا، گوکہ اخبار نے اس پر وضاحت پیش کی کہ یہ ان لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے تھا، لیکن برطانوی عدالت نے جرم کے لیے کسی بھی قسم کی معاونت یا منصوبہ بندی کو بھی جرم کے زمرے میں ہی سمجھا اور یوں اس اخبار کو اس خبر کے ساتھ فون ہیک کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر آخر کار بند ہونا پڑا۔

اس معاملے میں بھی مرر گروپ نے اس کو پرائیویٹ جاسوسی یا عام فہم الفاظ میں انتہائی باخبر ذرائع جوکہ اُن کے سسٹم کا جزوِ لاینفک ہیں، کا نام دیا لیکن اس کے لیے کوئی ثبوت عدالت کے سامنے نہ لاسکا کہ وہ ذرائع کون سے تھے؟ البتہ خبریں غلط نہ تھیں، لیکن شہزادہ ہیری نے ثابت کیا کہ یہ سب معلومات ان کے فون کو ہیک کرکے حاصل کی گئی ہیں۔ جو 33 خبریں و آرٹیکل اس کیس میں پیش کیے گئے عدالت نے ان میں سے 17 کا مواد فون ہیک کرکے حاصل کرنے، یا غیر قانونی ذرائع سے معلومات جمع کرنے کا مرر گروپ کو مرتکب قرار دیا اور شہزادہ ہیری کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ برطانوی اخبارات نے اس فیصلے کو حق کی فتح قرار دیا ہے، جبکہ اس عدالتی حکم کے بعد اب خود اخبارات اس عمل کو صحافتی بددیانتی کی بدترین مثال کے طور پیش کررہے ہیں کہ جس میں فون ہیک کرنے کا عمل 1995ء سے جاری تھا اور اخبار کے کئی ایڈیٹرز جن میں معروف صحافی پیئرس مورگن بھی شامل ہیں اب اس جرم میں شریک سمجھے جارہے ہیں، کہ ان کی نگرانی یا ان کے ماتحت یہ کام اخبار میں ہوتا رہا اور وہ اس بنیاد پر خبریں شائع کرتے رہے۔ اس پر پیئرس مورگن نے کہا کہ انہوں نے کسی کا فون ہیک نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس معاملے سے واقف تھے۔ تاہم اس سوال کی وضاحت بھی اب ان پر قرض ہے کہ جب کوئی صحافی خبر لے کر اخبار میں آتا ہے تو کیا ایڈیٹر اُس کی سورس کے بارے میں چھان پھٹک کرتا ہے؟ کیونکہ یہ تمام اور متواتر خبریں براہِ راست شاہی خاندان سے متعلق تھیں تو اس کی حساسیت کے تحت اس پر مذکورہ ایڈیٹر خاموش رہا، یا پھر وہ کون سی ایسی خبر کی سورس تھی جس پر وہ مطمئن ہوگیا کہ یہ خبر درست ہے۔ عدالت نے برطانوی فون ہیکنگ کی صحافت پر پہلے بھی ایسے فیصلے دیے ہیں جن کے باعث بڑے اخبارات کو متعلقہ افراد کو بھاری ہرجانہ ادا کرنا پڑا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد شہزادہ ہیری کے وکیل نے ان کا مختصر بیان عدالت کے باہر پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ آج کا دن سچ و احتساب کے لیے اہم دن ہے جس میں عدالت نے مرر گروپ کے اخبارات کی خبروں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اب یہ برطانوی اتھارٹی و پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔

صحافت اور صحافتی اخلاقیات کا معاملہ ہر زندہ معاشرے میں ایک اہم معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم پاکستان کا موازنہ کسی طور پر اس کیس سے کریں تو جسٹس قیوم سے لے کر جسٹس منیب تک کی فون ہیکنگ کی گئی لیکن خود پاکستانی عدلیہ اس معاملے پر فون ہیک کرنے والوں، اس کو عوام تک پہنچانے والوں اور اس کی بنیاد پر خبر سازی کرنے والوں سے اس کے ماخذ کے بارے میں پوچھ سکی اور نہ ہی عدالت نے اس کی زحمت گوارا کی۔ یہی عدالتی ریکارڈ کے لیے پوچھ لیا جائے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں یہ سہولت کن اداروں کو حاصل ہے اور اس سہولت کا استعمال کب، کیوں اور کن مقاصد کے تحت کیا جاتا ہے؟

یہ کوئی راز نہیں کہ ہر ملک کے حساس اداروں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کا استعمال بھی کرتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ممالک میں اس کا استعمال ملکی سلامتی سے زیادہ سیاسی و عدالتی مینجمنٹ کے لیے کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کا عمل دخل سیاست و عدالتی مینجمنٹ میں کتنا ہے اس کو محض عدالتوں میں موجود دو کیسز سے سمجھا جاسکتا ہے جن میں سے ایک کیس تو خود اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہے، جبکہ دوسرا فیض آباد دھرنا کیس ہے جس میں سابق چیئرمین پیمرا کی گواہی بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے کہ میڈیا کے ذریعے سارے ماحول کو مینج کیا جاتا تھا اور اتھارٹی اگر کوئی کارروائی کسی چینل کے خلاف کرتی تو اسے اس کارروائی سے روک دیا جاتا تھا۔

ایک طرف قانون اور اس پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، دوسری جانب غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی خبروں یا مواد کی اشاعت و ترسیل کا معاملہ ہے کہ جس میں صحافتی اخلاقیات اور صحافتی ذمہ داریوں کے تعین کا معاملہ بھی اہم ہے۔ غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی معلومات اب پاکستانی میڈیا کا اہم ترین جزو ہیں، اور یہ لت گو کہ بہت پہلے سے پاکستانی صحافت کو لگ چکی ہے لیکن اب سوشل میڈیا کے بعد افراد اور اداروں کا ٹرائل جھوٹ و سچ کی بنیاد پر اب معاشرے میں نئے گل کھلا رہا ہے۔ میڈیا کے چینلز و اخبارات کو تو پھر بھی کسی قانونی گرفت میں لایا جاسکتا ہے لیکن اب خودرو پودوں کی طرح اگتے سوشل میڈیائی صحافیوں کو کس طرح قانون کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے یہ اہم ترین معاملہ ہے۔ کچھ دن قبل ہمارے ایک دوست صحافی نے سوشل میڈیا پر توجہ دلوائی تھی کہ میڈیا کی تدریس سے وابستہ اساتذہ کو جدید میڈیائی رجحانات پر تحقیق پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بات اہم ہے، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ تحقیق اور اس پر عمل، سوچ بچار، اس پر نئی قانون سازی و معاشرتی رجحانات کا جائزہ زندہ معاشروں میں ہوتا ہے، اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اپنے خود وضع کردہ قوانین پر کتنا عمل کروا سکتے ہیں اس کی مثال ججوں کی فون ہیکنگ کا معاملہ ہے کہ جس میں عدلیہ بھی مٹی پاؤ کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ تاہم اس ضمن میں اگر ”غیر قانونی ذرائع سے حاصل شدہ معلومات“ پر کوئی آزادانہ تحقیق کی جائے تو شاید یہ بات علمی طور پر ثابت ہوجائے کہ اس کا ماخذ کیا ہے، اور کس طرح سے نہ صرف ان ٹیلی فون کالز کو لیک کیا جاتا ہے بلکہ کس طرح ان کو من پسند صحافیوں کو دے کر ان کو نمبر ون صحافی بنایا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں اصل کھیل کہیں اور سے کھیلا جاتا ہے جبکہ صحافی تو محض ایک آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ برطانیہ میں بھی مبینہ طور پر ہوئے۔ اس پورے عمل پر قدغن لگانا شاید ناممکن ہے، لیکن دنیا بھر میں قانون سازی اور قانون کی عمل داری کے ذریعے ایسے اقدامات کا سدباب ضرور کیا جاتا ہے، اور یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے پہلی اور بنیادی شرط قانون کا بلاتفریق و فوری اطلاق ہے۔ اس ضمن میں عدلیہ سب سے اہم ادارہ ہے۔ پاکستان کی عدلیہ اس وقت عالمی رینکنگ میں 100 میں سے 82 ویں نمبر پر اور برطانیہ 100 میں سے 8 ویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست عدلیہ کے حوالے سے معتبر ادارے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ نے جاری کی ہے جس میں صرف اُن 100 ممالک کا موازنہ کیا گیا ہے جہاں عدلیہ کسی حد تک آزاد تصور کی جاتی ہے۔ اس سے مزید موازنہ کرلیں کہ عوام کہاں رہنے اور کہاں سے ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ ہے اور اس کا اصل سبب قانون کی عدم حکمرانی، عدالتوں سے انصاف کی عدم فراہمی یا اس کے حصول میں تاخیر ہے۔ اس کے بعد میڈیا جس کا بنیادی کام ہی عوام کو تعلیم اور صحت مند تفریح فراہم کرنا تھا وہ اس کام سے دور نظر آتا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان کا انڈیکس 39.95 فی صد اور برطانیہ کا 78.51 فی صد ہے۔ یعنی آزاد پریس کے حوالے سے پاکستان کی صحافت کم و بیش عدلیہ کی ہی صف میں کھڑی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس فوج کی طاقت کے حوالے سے گلوبل پاور انڈیکس کے تحت دنیا کی 145 افواج کا موازنہ کیا گیا جس میں برطانیہ 0.1435 انڈیکس کے ساتھ پانچویں نمبر پر جبکہ پاکستان 0.1694 انڈیکس کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔ اس سارے موازنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کی فوج چاہے دنیا کی صفِ اوّل میں کیوں نہ ہو اگر آپ کے پاس آزاد صحافت اور قانون کی عمل داری کے لیے آزاد عدلیہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ عوام کو نہیں ہوتا اور آہستہ آہستہ اس کے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ اگر برطانیہ دنیا کی عالمی طاقتوں کی صف میں شامل ہے تو اس کی اصل و بنیادی وجہ قانون کی عمل داری اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہے کہ جہاں عدالت ہر کس و ناکس کو ایک ہی طریقے سے انصاف فراہم کرتی ہے، اور جہاں فون ٹیپ کرکے یا کسی کی جانب سے فراہم کردہ ٹیپ کال کو خبر بنانے کو میڈیا میں نمبر ون کی دوڑ میں شامل ہونے کی بنیاد نہیں بنایا جاتا بلکہ اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

عدلیہ اور صحافت پر تحقیق کی ضرورت ہے لیکن اس پر آزادانہ تحقیق کرنے والوں کو نہ صرف ان حلقوں بلکہ نادیدہ قوتوں کی جانب سے جس مزاحمت کا سامنا ہوگا اس کی تاب کوئی آزاد محقق نہیں لا سکے گا۔ اگر کسی کو یہ شوق چرایا ہے تو اس کو چاہیے پہلے عارفہ صدیقہ کو اُن کی کتاب کے بعد ملنے والی ”پذیرائی“ کا تجزیہ کرلے، اور پھر بھی اس کے عزائم جواں ہوں تو کسی اور ملک میں بیٹھ کر یہ کام کرے اور وطن واپسی کا ارادہ ترک کردے۔ پاکستان میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کا ٹرائل جاری ہے، دیکھیں اس میں سے کیا نکلتا ہے۔ اگر عدلیہ کو کچھ وقت مل جائے تو عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور اُن کی بیگم کی فون کال ہیک و لیک کرنے والوں کی بھی سنوائی کرے۔ گوکہ عمران خان خود اس ناجائز اقدام کو اپنے بیانات میں قانونی قرار دے چکے ہیں لیکن ملک بیانات پر نہیں قانون پر چلتے ہیں۔ کاش کہ ایسے فیصلے پاکستان کی عدلیہ نہ صرف کرسکے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کروا سکے۔ قانون کے نفاذ کے سوا پاکستان کو اس پستی سے نکالنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔