نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا ”مشن مظفرآباد“

مخمصوں کے پردوں میں لپٹی کشمیر پالیسی

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ’’مشن مظفرآباد‘‘پر آئے، اس دوران انہوں نے آزادکشمیر کی سیاسی قیادت اور مقبوضہ کشمیر کی نمائندہ حریت کانفرنس کے وفود سے ملاقاتیں کیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ نگران وزیراعظم کشمیر کے حوالے سے اسلام آباد کی پالیسی کی وضاحت کرنے اور آزاد کشمیر کے مستقبل کے نقشے پر مشاورت کے لیے آئے تھے۔ ان کا یہ دورہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے دو دن بعد ہوا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کشمیری قیادت کو کچھ وضاحتیں دینے اور مایوسی کو امید میں بدلنے کا پیغام دینے آئے ہیں۔ اس کا مظہر اُن کا یہ بیان تھا کہ مسئلہ کشمیر کے لیے تین سو جنگیں بھی لڑیں گے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ کی طرف سے اخبار نویسوں کے سامنے اس اعتراف کے بعد کہ ان کے پاس ٹینکوں کے لیے تیل بھی نہیں تو بھارت سے جنگ کیسے لڑ سکتے ہیں، ریاست پاکستان کی خودساختہ مجبوری کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس بیان کا جو نقصان ہونا تھا، ہوچکا ہے۔ اب اس نقصان کے مضر اثرات کو کم سے کم یا محدود کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، مگر یہ کوششیں بھی نیم دلی سے ہورہی ہیں۔ کہاں ٹینکوں کے لیے تیل نہ ہونے کی بات… کہاں تین سو جنگیں لڑنے کا دعویٰ نقصان کے ازالے کی ہی کوشش ہے۔ ایک نگران وزیراعظم کی زبان سے اسے ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ جنرل باجوہ کے بیان کے نقصان کا ازالہ نگران وزیراعظم کے ہوائی بیانات سے ہونا ممکن نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود نگران وزیراعظم کے پُراعتماد لہجے کی داد ہی دی جا سکتی ہے۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے دوروزہ دورے کے دوران دوسری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مظفر آباد میں ایک پُرہجوم نیوزکانفرنس سے خطاب کیا، اُن کے خطاب کا بنیادی اور مرکزی موضوع مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال تھی۔ مقامی اخبار نویسوں نے بھی سوالات کے دوران اپنا زیادہ فوکس مسئلہ کشمیر پر رکھا، کیونکہ کشمیریوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران انوارالحق کاکڑ کشمیر کے حوالے سے دوٹوک انداز اپنائے ہوئے اور پُراعتماد نظر آئے، جس سے ایک امید سی بندھ چلی ہے۔ وزیراعظم انوارالحق نے کہا کہ وہ وزارتِ خارجہ کو ہدایت کریں گے کہ کشمیر پر زیادہ فعال پالیسی اپنائے، اور جلد ہی اس حوالے سے بیرونی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کی کارکردگی کا فرق بھی معلوم ہوجائے گا، گویا کہ وہ زیادہ فعال ہوکر کام کر یں گے۔ اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت اور اپنے ہم نام وزیراعظم چودھری انوارالحق کی بھرپور مدد کا اعلان بھی کیا۔

نگران وزیراعظم کا کشمیر کی سرزمین پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فعال پالیسی تیار کرنے کا اعلان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ کشمیر کے محاذ پر مایوسی کی سی کیفیت ہے۔ 5 اگست2019ء کے فیصلے کے بعد کشمیری عوام خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں۔ پانچ اگست کشمیر کی تاریخ کا المناک دن تھا جب بھارت نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کشمیر کی شناخت اور تشخص پر آخری وار کیا، اور اس عالم میں کیا کہ کوئی بھی بھارت کا وار روکنے کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ اُس دن بھارت کی انتہاپسند اور جنونی مودی حکومت نے طاقت کے نشے میں کشمیر کو اپنے تئیں ہضم اور ہڑپ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر تاریخ نے کشمیر کو انگریزی محاورے’’ہاٹ پوٹیٹو‘‘ یعنی گرم آلو کے مصداق بنا ڈالا ہے۔کئی برس ہوگئے ہیں یہ گرم آلو بھارت کا منہ جلا رہا ہے۔ بھارت اسے نگلنے کی سکت اور ہمت تو نہیں رکھتا مگر وہ اسے منہ جلنے کی وجہ سے اُگلنے پر مجبور ہوگا۔کشمیر میں کرفیو جیسی صورتِ حال، میڈیا پر پابندیاں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں کی اسیری، میرواعظ مولوی عمر فاروق کی مسلسل نظربندی اور بھارت نواز قیادت کی چیخ پکار… سب اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کشمیر کے حالات پر قابو نہیں پاسکا۔ توقع یہی تھی کہ کشمیری عوام کا عزم وحوصلہ، مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کا جذبہ، بیرونی دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی عوام کی ثابت قدمی بھارت کو اس مقام اور منزل پر لا چھوڑیں گے جہاں اس کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا، مگر ابھی تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے وزارتِ خارجہ اور سفارت خانوں کو متحرک کرنے کی بات کرکے ایک امید پیدا کی ہے۔ بیوروکریسی کو اُن کی اس پالیسی کو راہ دینا چاہیے۔ ماضی میں کشمیری قیادت اکثر یہ گلہ کرتی رہی کہ حکومتِ پاکستان کشمیر پالیسی کی تشکیل میں ان سے مشاورت نہیں کرتی۔ اصولی طور پر یہ شکوہ بجا بھی ہے، جس خطے کے مستقبل اور معاملات پر بات ہورہی ہے اس کا ’’اِن پُٹ‘‘ نہ لینا اور اسے کسی بھی سطح کے مشاورتی عمل میں شریک نہ کرنا ناانصافی ہوتا ہے۔ کشمیریوں کے جذبات و احساسات کو جس اچھے طریقے اور گہرائی کے ساتھ کشمیری نمائندہ سمجھ سکتا ہے اس طرح کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی مخمصوں کے پردوں میں لپٹی رہی ہے۔ اس کا مجموعی طور پر کشمیر کے زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ شاید گزرے وقتوں میں تو گوارا تھا، مودی نے پانچ اگست کے بعد جنگ کو فیصلہ کن موڑ پر پہنچادیا ہے، اب ہم ان مخمصوں، حماقتوں اور تجربات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ہم ’’وقت کم اور مقابلہ سخت‘‘کی کیفیت سے دوچار ہیں، ایک ذرا نظر چُوکی، دشمن کشمیری عوام کو دبوچ لے گا۔ ہمیں ہر لمحہ چوکس اور چوکنا رہنا ہے۔ دفتر خارجہ کی الماریوں میں سجی ماضی کی گرد آلود اور کرم خوردہ فائلوں میں دفن کشمیر پالیسی بدلتے ہوئے وقت اور حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اب ایک ہنگامی اور انقلابی کشمیر پالیسی کی ضرورت ہے جو نہ صرف سری نگر کے حالات بلکہ وہاں کے جذبات سے ہم آہنگ ہو۔ ایسے میں نگران وزیراعظم کا دوٹوک اعلان اچھا ہے، مگر بیوروکریسی کو اس فعالیت پر آمادہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ آزادکشمیر کی مالی امداد اور میگا پروجیکٹس کا معاملہ بھی بیوروکریسی کی سست روی کا شکار ہوسکتا ہے، مگر توقع یہی ہے کہ وفاقی بیوروکریسی نگران وزیراعظم کے ان اعلانات پر عمل درآمد کرنے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے گی۔