ایک عینی شاہد نوجوان کی آنکھوں دیکھی روداد
(دوسرا اور آخری حصہ)
سوال:پھر زندگی کی گاڑی کیسے آگے بڑھی؟
جواب: وہ وقت بھی اللہ کا شکر ہے کہ گزر گیا۔ لیکن ظاہر ہے معاش کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ہم روزمرہ کی زندگی کیسے گزاریں؟ ہم چونکہ بنگلہ بہت اچھی طرح بول سکتے تھے لیکن پھر بھی عام آزادی نہیں تھی۔ میں تو خیر نکلنے لگا اور وہاں فٹ پاتھ پر سگریٹ، صابن وغیرہ بیچنے لگا جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ بنگلہ دیش میں یہ اعلان ہوا کہ جن لوگوں نے 1971ء میں پاکستان میں میٹرک کا امتحان دیا ہے، اس کے نتائج قابلِ قبول نہیں ہیں لہٰذا دوبارہ میٹرک کا امتحان دینا ہوگا۔ میرے وہی دوست جو کہ مکتی باہنی میں تھے اور بڑے بڑے عہدوں پر تھے، اُن کے ذریعے میں نے کسی گائوں میں جاکر 1973ء میں دوبارہ امتحان دیا تھا۔ بڑی لمبی داستان ہے۔ 1974ء بھی ہم نے وہیں گزارا اور فٹ پاتھ پر خوانچہ لگاتے تھے۔ اس دوران میرے ماموں کو انہوں نے اٹھالیا۔ میں ہول سیل کی مارکیٹ سے سامان لاتا تھا اور وہاں میری ملاقات اتفاق سے اُس نوجوان سے ہوگئی جسے باریسال میں جمعیت والوں نے پکڑا تھا کیونکہ وہ مکتی باہنی کا مخبر تھا، اور اسے فوج کے حوالے کردیا تھا، مگر فوج نے پیسے لے کر اُس کو رہا کردیا تھا۔ وہ یہی کرتے تھے کہ بنگالی نوجوانوں کو جمع کرتے اور پیسے لے کر چھوڑ دیتے تھے۔ لاکھ روپے اُس زمانے میں بہت بڑی چیز تھی۔ ہمارے لوگوں نے فوج سے جاکر بات بھی کی کہ آپ لوگ پیسے لے کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اُس لڑکے نے مجھے وہاں پکڑا، میں گھبرا گیا کہ یہ تو بہت ہی خطرناک آدمی ہے، اور وہاں میری کٹائی شروع ہوگئی۔ اُس نے ایک پتھر اٹھا کر میرے سر پر مارا جس سے میرا سر پھٹ گیا۔ ان ہی میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر یہ ایسا ہے تو اسے عقوبت خانے لے چلو جہاں پر وہ لوگوں پر تشدد کیا کرتے تھے۔ اگر وہیں کچھ تھپڑ اور پڑتے تو نہ جانے کیا حال ہوتا۔ خیر وہ مجھے رسّی سے باندھ کر مکتی باہنی کے دفتر لے گئے۔ وہ جمعہ کا دن تھا، مجھے دو ڈھائی بجے پکڑا تھا اور پانچ بجے تک بہت زبردست طریقے سے میری پٹائی ہوئی۔ آخر میں جب وہ تھک گئے تو انہوں نے مجھے کرنٹ بھی لگایا، مگر میری زندگی لکھی تھی، اللہ کا کرنا ہوا کہ مجھے کرنٹ نہیں لگا۔ اس کے بعد انہوں نے جب میرے گھٹنے پر ڈنڈا مارا تو مجھے لگا کہ میں تھوڑی دیر تک کسی کنویں میں ڈوبتا چلا جارہا ہوں۔ اس کے بعد وہ مجھے تھانے لے گئے۔ تھانے کے افسر نے کہا کہ مار کر اسے کہیں پھینک دیتے ہیں، اگر رات کو یہاں پر مرجائے گا تو ہمارے کھاتے میں آجائے گا۔ اُس وقت تک سرکاری لوگ بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کیا ہوگا؟ اس دن شہر میں بہت بڑا ہنگامہ برپا تھا، طالب علموں نے احتجاج شروع کردیا تھا۔ وہ لوگ مجھے تھانے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اب تھانے والوں کی ذمہ داری ہوگئی تھی کیونکہ میں روزنامچہ میں آگیا تھا، لہٰذا وہ مجھے اسپتال لے گئے۔ جب ہم اسپتال جارہے تھے تو راستے میں جگہ جگہ مظاہرین مل رہے تھے، جس پر میں نے پولیس والوں سے کہا کہ آپ میری رسّی کھول دیں ورنہ یہ لوگ خوامخواہ آپ کو بھی تنگ کریں گے۔ خیر اس نے رسّی کھول دی۔ وہاں ایک بہت بڑا اسپتال تھا جہاں مجھے لے جایا گیا۔ وہاں پر ہنگامہ آرائی کا شکار ہونے والے لڑکے بھی آئے ہوئے تھے۔ وہاں پر موجود ڈاکٹر یا اسٹاف تھا جس نے مجھے ٹانکے لگائے، لیکن جب اس کو میرے بارے میں پتا چلا تو اس نے بہت ہی برا سلوک کیا۔
سوال:اُس وقت آپ کی عمر کیا رہی ہوگی؟
جواب: میں پندرہ سولہ سال کا تھا۔
سوال: پندرہ سولہ سال کی عمر میں آپ ان تجربات سے گزر گئے؟
جواب: اللہ کا بڑا شکر ہے، آج بھی جب میرے سامنے لوگ مشرقی پاکستان پر بات کرتے ہیں تو میں چپ رہتا ہوں اور خاموشی سے دیکھتا اور سنتا ہوں۔ وہ وقت بہت سخت اور مشکل تھا، تھانے میں جس جگہ رکھا گیا تھا وہ بہت ہی تکلیف دہ تھی، بہت ہی متعفن جگہ تھی اور ہمیں ایسے ماحول کی عادت بالکل بھی نہیں تھی۔ ہماری والدہ کا تو معاملہ یہ تھا کہ چونکہ والد صاحب سرکاری افسر تھے اور علیحدہ واش روم تھا، جب ہم واش روم جاتے تھے تو والدہ کہتی تھیں کہ ہاتھ پیر دھو کر کمرے میں داخل ہونا۔ اس کے بعد وہ ہمیں کورٹ لے گئے جہاں پر سارا دن لگ گیا، یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ قیدیوں کی گاڑی میں ایک صاحب تھے جن کی عمر 80سال ہوگی، ان کا تعلق دہلی سے تھا جو بیچارے اپنا کرایہ لینے گئے تھے اور انہوں نے کرایہ دینے کے بجائے انہیں دہشت گرد بناکر مکتی باہنی کے حوالے کردیا تھا۔ اسی گاڑی میں بہت سے اصل بدمعاش بھی تھے۔ وہ گالیاں وغیرہ بک رہے تھے۔ جب جیل میں پہنچے تو ہم نے بورڈ پر پڑھا کہ اس ڈھاکہ جیل میں 1600افراد کی گنجائش ہے۔ 1972-73ء میں جب ہم داخل ہوئے تو 26ہزار 700لوگ تھے۔
اس کے بعد ہمیں سہولت کار کہہ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں جب لوگ جاتے تو ان کا آمدنی کھاتا کھول دیا جاتا۔ مجھے ڈنڈے اتنے پڑے تھے کہ میری کاٹن کی پینٹ پیچھے سے تار تار ہوگئی تھی۔ میری قمیص باہر تھی جس سے ستر وغیرہ ڈھکا ہوا تھا۔ میں چھوٹا سا تھا اور مجھے سردی بھی لگ رہی تھی۔ میں ایک کونے میں جاکر بیٹھ گیا۔ مجھے سخت بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔ اُن میں سے دو تین بدمعاشوں نے مجھ سے کہا کہ اے بچہ! تُو ابھی نیا نیا لگتا ہے۔ انہوں نے مجھے کمبل وغیرہ بھی دیا۔ جب کھانا آیا تو بہت ہی عجیب سے چاول تھے، دو لقمے لیے تو الٹیآں ہونے لگیں جس پر میں نے کھانا چھوڑ دیا اور رات اسی طرح سے گزاری۔ صبح تفتیش شروع ہوگئی۔ شام میں ہم جیل کے اسپتال میں گئے تو وہاں ایک بڑی ڈاڑھی والے بزرگ تھے، انہیں دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ اُن سے درخواست کروں کہ مجھے ایک دو دن کے لیے داخل کردیں۔ اتفاق سے مجھ سے پہلے وہ 85سالہ بزرگ جب ڈاکٹر صاحب کے سامنے کھڑے ہوئے تو چکرا کر گر گئے جس پر ڈاکٹر نے بڑی گالیاں دیں کہ ”پہلے ظلم کرتا تھا اب مکر کرتا ہے“۔ اب میں نے کہا کہ اس کے سامنے کوئی بات کرنا بہت بڑی حماقت ہوگی۔ میں خاموش ہی کھڑا رہا۔ میری عادت تھی کہ جب بھی پکڑا جاتا تو خاموشی اختیار کرلیتا تھا۔ یعنی جو کرنا ہے کرو۔ پھر انہوں نے ہمیں ایک ہال میں بھیج دیا جہاں ساڑھے تین سو لوگ تھے اور کوئی بیس پاگل بھی تھے جن کو انہوں نے زنجیروں سے باندھ رکھا تھا، ان کا پیشاب بھی اسی ہال میں تھا۔ وہاں ایک ٹینک رکھا ہوا تھا جس میں سب لوگ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے، اور جب وہ ابل جاتا تھا تو پیشاب باہر بہنے لگتا تھا۔ جب ہم رات کو لیٹتے تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ جم جاتے تھے یعنی کوئی ہل نہیں سکتا تھا۔ اس طرح سے اُس جیل میں وقت گزارا۔ دس گیارہ بجے صبح کو وہ کھانا دیتے تھے۔ پہلے دن جو کھانا دیا وہ بالکل پانی والے چاول تھے اور اس میں کچے کریلے پڑے ہوئے تھے۔ سوچیں جہاں 1600افراد کی گنجائش ہو اور وہاں 27ہزار کے قریب لوگ موجود ہوں اور مزید بھی آرہے ہوں، ایسی جگہ آدمی کیسے زندہ رہ سکتا ہے!
ایک دن جب میں واش روم جانے لگا تو پتا چلا کہ جس پلیٹ میں آپ کو کھانا دیا جاتا تھا اسی میں آپ کو پانی لینا ہے۔ جب میں وہاں گیا تو جس طرح مسجدوں میں استنجا خانے ہوتے ہیں اس سے بھی بدتر جگہ تھی جہاں پر لوگ باتھ کررہے ہیں۔ میں وہاں سے بھاگ اٹھا۔
سوال:جیل میں تو ہو قسم کے لوگ ہونگے، اس کی یادوں میں کیا ہے؟
جواب: جیل میں پرانے قیدی جن کو سزا ہوچکی ہوتی ہے وہ بادشاہ ہوتے ہیں، جو چاہے کرسکتے ہیں۔ اگر وہ کسی کو جان سے بھی مار دیں تو انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، حتیٰ کہ لاکر کے لاک کو کھولنا بھی ان کے لیے معمولی بات ہوتی ہے۔ جیل میں مَیں چھوٹا سا بچہ تھا، وہاں ایک پرانے قیدی کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا! شاید اُسے رحم آگیا، وہ میرے پاس آیا اور پوچھا کہ بچہ تُو کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے(یہ سب باتیں بنگالی میں ہورہی ہیں)،تُو مر جائے گا۔ کیا مسئلہ ہے تیرا؟ میں نے کہا کہ دیکھو بھئی! یہاں واش روم کا اتنا برا حال ہے کہ میں اس میں نہیں جاسکتا۔ جب واش روم نہیں جاسکتا تو کھائوں گا کیسے؟ تو اُس نے کہا کہ میں تمہیں اپنے کمرے میں لے جائوں گا، وہاں میرا الگ سے باتھ روم ہے، کمرہ الگ ہے، میں تمہیں دو گھنٹے پہلے وہاں چھوڑ دوں گا، تم آرام سے نہانا، پھر کھانا وغیرہ کھلاکر تمہیں بند کردیں گے۔ پھر اُس نے مجھے کام پر بھی لگادیا۔ تمام قیدی جب کسی کام پر لگ جاتے ہیں تو ذرا آزادی سی ہوجاتی ہے، گھومنا پھرنا ہوجاتا ہے۔ جیل میں جو کچھ بھی بنتا ہے وہ وہاں کے ایک اسٹور میں جاتا ہے جس کے ہیڈ ایک بڑے بابا تھے۔ اُس قیدی نے مجھے اُن سے بھی ملادیا کہ آپ اس بچے کو اپنے پاس رکھیں۔ اس دوران میری والدہ کو جب پتا چلاکہ میں جیل میں ہوں تو وہ بیچاری آکر صبح سے رات تک جیل میں بیٹھی رہتی تھیں اور مجھ سے ملاقات ہی نہیں ہوپاتی تھی۔ ظاہر ہے چھبیس ہزار لوگوں میں کون کس سے ملاقات کروائے گا؟ اس مہم میں ایک آدھ بار ملاقات ہو بھی گئی۔ جیل میں سگریٹ ایک طرح سے بہت بڑی کرنسی سمجھی جاتی ہے۔ میں نے والدہ سے کہا کہ ایک آدھ کارٹن سگریٹ کا لاکر دے دیجیے گا تاکہ میں یہاں کچھ کام وغیرہ نکلوا سکوں۔ میں جب اُن بڑے صاحب کے پاس اسٹور چلا گیا تو اُن کی خدمت وغیرہ کرتا، سر میں تیل لگاتا، پیر دبا دیتا۔ میں نے ایک دن کہا کہ میری والدہ آتی ہیں اور دن بھر باہر بیٹھی رہتی ہیں، مجھ سے ملاقات ہی نہیں ہوپاتی، تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، اپنی والدہ سے کہو کہ میرے گھر آجائیں، میں تمہیں وہاں پر کھانا وغیرہ بھی کھلائوں گا اور وہیں اپنی والدہ سے بھی مل لینا۔ جیل کے اندر احاطے میں ہی ان کا گھر تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی سلسلہ بنادیا۔
سوال: وہ سزایافتہ بنگالی قیدی آپ کے ساتھ یہ ہمدردی کررہا تھا؟
جواب:جی ہاں اس قیدی نے تو مجھے اسٹور کے مالک تک پہنچادیا تھا۔ میں نے سینٹرل جیل کی فٹ پاتھ پر رنگ وغیرہ بھی کیا ہے۔ کیاری وغیرہ بنائی ہے۔ پھر میری والدہ جب بھی آتی تھیں ہم اُن بڑے صاحب کے گھر میں دوپہرکو چلے جاتے تھے۔
سوال: وہ بنگالی اسٹور مالک متعصب نہیں تھا؟
جواب:آپ لوگوں کو خود متعصب بناتے ہیں، وہ متعصب ہوتے نہیں۔ انسان فطرتاً برا نہیں ہے۔ آپ دیکھیے کہ کہیں بھی کوئی حادثہ ہوجائے تو دس لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں، یہ انسان کے فطری طور پر اچھا ہونے کی نشانی ہے۔ لیکن آپ اس کو برا بناتے ہیں، اس کو دھکیل کر لے جاتے ہیں برائی کی طرف۔ میں آپ کو جو بھی واقعہ سنا رہا ہوں اس میں کسی قسم کا نہ اضافہ ہے نہ کمی۔ اُس جیل میں بڑے بڑے ایگزیکٹوز تھے۔ کئی بینکوں کے گورنر، سی اے وغیرہ سبھی اُس ہال میں تھے جہاں ہم تھے۔ پھر پاگل خانے سے ہمارا ٹرانسفر کسی اور جگہ ہوگیا، وہاں پر ایک مجاہد تھا جس سے میرا تعلق قائم ہوگیا۔ ہم شام کا کھانا کھا رہے تھے کہ ایک دم ہوا کا جھکڑ چلا اور تمام گرد کھانے میں پڑ گئی۔ بہت سے نازک مزاج لوگ اپنے کھانے کو کپڑے وغیرہ سے ڈھانپنے لگے۔ اس لڑکے نے کہا کہ جاوید! گوریلا ٹریننگ کی سب سے بڑی ٹریننگ چھے مہینے کی جیل ہے اور وہ بڑی سخت جیل ہوتی ہے جو آخری ٹریننگ کہلاتی ہے۔ اُس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ جیل میں تمہیں کسی چیز کو محسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر چیز کو نارمل انداز میں لینا چاہیے۔ اُس کے پانچ ساڑھے پانچ مہینے بعد میری رہائی کا آرڈر آگیا۔
سوال: اس جیل سے چھٹکارا کیسے ملا؟
جواب: بنگلہ دیش کی جماعت بہت مضبوط تھی۔ انہوں نے میرے بارے میں تمام معلومات نکالیں کہ میں قید میں کب اور کیسے گیا؟ انہوں نے کورٹ میں اپلائی کیا۔ غداروں کی کسی قسم کی ضمانت نہیں ہوتی اور مجھ پر غداری کا کیس لگا تھا۔ لیکن انہوں نے کوئی ایسی قانونی راہ نکالی کہ میری رہائی کا راستہ بنا جس کا ہم میں سے کسی کو پتا نہیں تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میری رہائی کا اعلان ہورہا ہے۔ مجھے جاوید اختر ملک کے نام سے بلایا جاتا تھا جبکہ میرا اصل نام ثناء الدین ملک تھا، میرے والد صاحب ظہیر الدین ملک تھے… تو ہم سب کے ثناء الدین، صباء الدین، ضیاء الدین… اس طرح سے نام تھے۔ لیکن جب ہم البدر میں شمولیت اختیار کررہے تھے اُس وقت ہمارے والد نے نام کو بدل دیا تھا اور اصل نام نہیں بتایا تھا۔ جیل میں بھی اپنا اصل نام ثناء الدین بتایا تھا۔ اب وہ بیچارے ثناء الدین پکار نہ سکے۔ وہ صلاح الدین صلاح الدین پکار رہے تھے۔ تو میرے اُس مجاہد دوست نے کہا کہ یہ تمہارا نام ہے، دو دن سے پکار رہے ہیں، تم تیسرے دن جواب نہیں دو گے تو یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا اور تم زندگی بھر کے لیے یہیں رہ جائو گے اور یہیں مر جاؤ گے۔ میں نے جاکر بتایا کہ یہ میرا نام ہے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کے نام سے ٹیلی کیا اور پھر میری رہائی ہوگئی۔ دو ڈھائی بجے تک میں تمام کام سے فارغ ہوکر باہر نکلا تو وہاں وکیل صاحب کھڑے تھے، وہ مجھے اپنے گھر لے گئے، نہلایا دھلوایا، کپڑے بدلوائے، کھانا کھلایا، پھر صبح ناشتا کرواکر کہا کہ اگر کہو تو میں تمہیں گھر تک چھوڑ آئوں یا خود جاسکتے ہو؟ میں نے کہا میں خود چلا جائوں گا۔ اور میں تقریباً پچیس کلومیٹر پیدل چل کر گھر پہنچا۔
سوال:اُس وقت حالات بہتر ہوچکے تھے؟
جواب:جی ہاں! اس وقت حالات ٹھیک ہوچکے تھے۔
1974ء شروع ہوچکا تھا۔ بنگالی اور اردو بولنے والوں کے درمیان حالات کشیدہ تھے مگر پھر بھی چلنے پھرنے میں مشکلات نہیں تھیں۔ میں نے آپ سے پہلے بھی ذکر کیا کہ 1972-73ء میں مَیں مارکیٹ سے چیزیں لاکر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر فروخت کرتا تھا۔ رہائی کے بعد جب گھر پہنچا تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ میں آج تک سوچتا ہوں کہ شاید اتنا مضبوط نیٹ ورک آج یہاں پاکستان میں بھی جماعت کا نہیں ہے۔ اُن کو تو پتا بھی نہیں کہ کون کہاں گیا، کیسے گیا؟
سوال:جب آپ جیل میں تھے تو گھر والوں کے ساتھ کیا ہوا؟
جواب:گھر والوں کے ساتھ کچھ نہیں ہوا، بس وہ کسمپرسی کے حالات میں گزربسر کرتے رہے۔
سوال:آپ کا تعلیمی سلسلہ پھر کیسے بحال ہوا؟
جواب:جیسا کہ پہلے بتایا، میں نے 1973ء میں دوبارہ میٹرک کا امتحان دیا اور تعلیمی سلسلہ وہیں سے جڑ گیا۔ اتفاق سے ایک حصہ اپنی زندگی کا چھوڑ گیا جو کہ بہت اہم ہے۔ جب میں باہر آگیا تو ریڈکراس کا ایک شعبہ ہے آئی سی آر سی۔ ٹریسنگ ایجنسی اس کا دوسرا شعبہ ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ڈپارٹمنٹ میں لوگوں کی کھوج لگاکر انہیں تلاش کے بعد اکٹھا کرنا فلاح و بہبود کا کام تھا۔ شروع میں تو میں بطور معاون لگا، لیکن چھوٹی عمر میں ہی میں اس ڈپارٹمنٹ کا میرپور میں ہیڈ ہوگیا تھا۔ چونکہ بہت سے اردو بولنے والے پڑھے لکھے لوگ کٹھمنڈو کے راستے ہندوستان چلے گئے تھے، تو اُن کو خاندان سے ملوانے کا کام کیا کرتا تھا۔ ان میں سے کچھ مجاہدین اور تحریکِ اسلامی سے وابستہ کچھ بنگالی ساتھیوں کو جن کے پوسٹر سڑکوں پر جا بجا آویزاں تھے کہ جہاں بھی ملیں ان کو پکڑا جائے، ان لوگوں کو ہم نے یہاں بھیجا۔ یہ کام ہم نے دو ڈھائی سال کیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان کے جو سرکاری ملازمین تھے ان کا ٹرانسفر نہیں ہورہا تھا، مگر میں نے اپنا اور گھر والوں کا فارم بھردیا تھا۔ میرا ایک دوست آئی سی آر سی کے سینٹر میں تھا جس نے اس فارم پر فیڈرل گورنمنٹ کی مہر لگادی تھی، اس طرح ہماری منتقلی ممکن ہوئی اور آرڈر آگیا۔ ہم 31دسمبر کو وہاں سے چلے، جبکہ دو بھائیوں کو ہم دیگر بہت سے لوگوں کے ساتھ پہلے ہی بھیج چکے تھے۔ اُس زمانے میں تصویر وغیرہ تو ہوتی نہیں تھی کہ پکڑے جائیں۔
وہ بھی بڑا زبردست وقت تھا جب ہم آخری وقت پر ائرپورٹ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ بس اب جہاز میں سوار ہوں گے۔ ہم سب”لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین“کا ورد کررہے تھے کہ ایک ڈاکٹر صاحب ملنے کے لیے آئے۔میرے ساتھ دوبنگالی ڈاکٹر دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ تحریک ِاسلامی نے کہا تھا کہ انہیں آپ اپنے ساتھ مغربی پاکستان لے جائیں کیوں کہ یہاں اُن کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اُن ڈاکٹروں کے ایک دوست جو بہت سال وہاں رہے اور بہت ایکٹو ہوگئے تھے، انہوں نےبڑا اچھا اسپتال بنالیا تھا، حالانکہ یہاں پاکستان سے ہی انہوں نے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی تھی،کچھ دن ایران میں ڈیوٹی کی، پھر وہاں سے انگلینڈ چلے گئے اور وہاں سے پھر بنگلہ دیش آگئے تھے، مگروہاں کے فسادات میں ان کو قتل کردیا گیا۔
ہم سب بیٹھے تھے تو وہ ڈاکٹر صاحب آئے اور ہم سب سے ہاتھ ملایا۔ میرے والد صاحب بھی موجود تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحب ہاتھ ملانے آئے اور والد کو دیکھ کر چار فٹ پیچھے اُچھل کر چلے گئے۔ کہا تم وہ نہیں ہو۔ اب ہمارا کاٹو تو خون نہ نکلے،کہ اب تو پکڑے گئے،ختم ہوگیا معاملہ۔ مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ ڈاکٹر صاحب واپس آئے اور نہ کوئی اور آیا۔ یہاں تک کہ ہم جہاز میں بیٹھ گئے اور جہاز نے اُڑان بھر لی تب ہماری جان میں جان آئی۔ یہاں ہم یکم جنوری 1974ء کی صبح چار بجے پہنچے۔
سوال: آپ کو کیا لگا، وہ کون تھے؟
جواب: وہ ڈاکٹر صاحب میرے والد صاحب کو جانتے تھے کہ وہ جماعتی ہیں۔ تھے تو وہ ڈاکٹر، لیکن ان کا اور بڑا معاملہ تھا۔ میرے والد صاحب میڈیکل کے فورتھ ایئر کے اسٹوڈنٹ تھے اور تب وہ ڈاکٹر تھے اور انہوں نے والد صاحب کو پہچان لیا تھا۔ پھر شاید انہوں نے سوچا ہوگا کہ ایک بندہ جارہا ہے تو جانے دو، کیوں اس کے پیچھے پڑیں۔ دیکھیں بنیادی طور پر لوگ اچھے ہوتے ہیں۔ آپ اُن کو خراب بناتے ہیں۔
سوال:جماعت اسلامی کے بہت سارے رہنما جنہیں حالیہ دنوں میں شہید کیا گیا ہے،اُن میں سے کسی کا ذکر کرسکیںجو آپ کی یادداشت میں ہوں؟
جواب:سب ہی ہمارے جاننے والے تھے۔ سب سے ہمارے اچھے مراسم تھے۔ جمعیت نے اُس وقت یہ کیا تھا کہ سترہ اٹھارہ لڑکے جو جیل سے معاہدے کے تحت رہا ہوئے تھے انہیں مختلف جگہوں پر سیٹ کردیا تھا، مثلاً میں اگر باریسال کا ہوں تو مجھےباریسال میں نہیں رہنا ہے، میں جیسور چلا جائوں گایا ڈھاکہ آجائوں گا، یا کہیں دوسری جگہ چلا جائوں گا اور وہاں اپنی نئی زندگی شروع کروں گا، اس کا سارا بندوبست تحریکِ اسلامی نے خود کیا ہوا تھا۔ یہاں کے لوگ سنیں گے تو اس پر حیران ہوںگے۔میں کبھی اس بارے میں بولتا نہیں،یہ سب پہلی مرتبہ بتا رہا ہوں۔
سوال:یعنی تحریکِ اسلامی کا نظام بہت ہی زیادہ منظم تھا؟
جواب:بہت ہی منظم..اتنا منظم کہ جب ڈھاکہ میں لوگوں کو اٹھایا گیا توہمارے بہت سے ساتھیوں کو جیپ کے ساتھ باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا،یہاں تک کہ ان کی کھال اتر گئی اورموت واقع ہوگئی، اور کئی ساتھیوں کو تودرخت سے الٹا لٹکا کر نیچے آگ لگادی گئی۔ ان حالات میں بھی جماعت اور جمعیت نے جو مضبوط کردار ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بریک ڈائون نہیں ہوا۔جب ان کو آزادی ملی تو پچاس لاکھ کےقریب مجمع کو نکال لائے تھے۔
سوال:آپ کے نزدیک اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں،لوگوں کی اتنی گہری وابستگی کیسے تھی؟
جواب: دعوتِ دین سے محبت۔
سوال:آپ کے خیال میںوہاں پر بنیادی دعوت کا کام بہت مضبوط ہے اور دینی رجحان بھی بہت زیادہ ہے؟
جواب:مضبوط نہیں بلکہ بہت مضبوط۔ ایک بات اور کہ نہ وہاں کوئی سنی ہے، نہ شیعہ، نہ بریلوی، نہ دیوبندی۔ وہ ایک جنت تھی پاکستان کو سیاسی طور پر خوبصورت کرنے کی۔ ون مین ون ووٹ۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں مقتدر اعلیٰ یا جنہیں آپ اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں ان میں میرے نزدیک ملک، وڈیرے، چودھری اور سردار ہیں۔ دوسری طرف فوج اور بیوروکریسی ہے۔ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آئے یہ سب ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ون مین ون ووٹ کا مطلب تو آزادی ہے۔ چونکہ بنگال میں کوئی سردار ہے ہی نہیں، کوئی وڈیرہ نہیں، کسی کے پاس پچاس ایکڑ زمین تک نہیں تھی تو اِن لوگوں کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ اگر بنگالی غلبہ پا جائیں گے تو آہستہ آہستہ ون مین ون ووٹ کے ذریعے بہت سی قانونی تبدیلیاں ہوجائیں گی جس کے سبب ہماری چودھراہٹ اور فوج کی سرداری چلی جائے گی۔ اگر یہ سوچ نہ ہوتی تو ہم کامیاب ہوجاتے اور آج پاکستان کہیں سے کہیں پہنچا ہوا ہوتا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ ان لوگوں نے پلاننگ کے ذریعے نو مہینے کا ڈراما کروایا۔ اس میں ان کا کوئی نقصان نہیں تھا۔
اب نوّے ہزار فوج چلی جاتی ہے، اس میں ریگولر فوج کتنی تھی؟ دس ہزار بھی نہیں۔ یہ سبب پلاننگ تھی۔ بھٹو صاحب کو کامیاب کرانا بھی پلاننگ کا ہی حصہ تھا۔ ان سے مقصد کے کام لینا بھی پلان تھا۔ جو لوگ بھٹو صاحب کو بہت عقلمند سمجھتے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر بھٹو صاحب عقلمند تھے تو صرف اپنی ذات تک تھے کیونکہ اُن کو ملک سے کوئی محبت نہیں تھی، نہ ملک سے اُن کا کوئی تعلق تھا، کیونکہ انہوں نے یہ پورا کھیل ملک کے خلاف کھیلا۔ وہ تو خود وڈیروں کی نمائندگی کرتے تھے۔
سوال:پھر آپ پاکستان آگئے؟
جواب:جی ہاں ہم یکم جنوری 1974ء کو پاکستان آگئے۔ جب ہم بس پر بیٹھے تو ہمارے ایک ماموں اور مامی کے بھائی تھے، یعنی دونوں طرف سے رشتہ داری تھی ہم اُن کے ہاں پہنچے، ہمیں بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی اور ہم صرف ایک سو روپے پاکستان لے کر آئے تھے۔ وہیں ایک دکان سے انڈہ آملیٹ بنوایا اور پراٹھے لے کر وہیں بیٹھ کر کھائے۔ پھر ان کے گھر کی تلاش میں نکل گئے۔ گھر مل گیا اور ہم وہاں کچھ دنوں کے لیے رہے۔ پھر بہار کالونی میں ایک چھوٹا سا گھر لے کر رہنے لگے۔ آپ سوچیں ایک سو روپے کے ساتھ پوری فیملی کو لے کر کیسے چلیں گے؟
سوال: ہجرت کا اپنا درد ہے، پھرسب کچھ چھوڑ کر نئی جگہ کا تجربہ… مشکلات تو بہت پیش آئی ہوں گی؟
جواب: جی! گھر کو بھی چلانا تھا اور تعلیم بھی مکمل کرنی تھی۔ میں چونکہ جنوری میں آیا تھا اور داخلے ستمبر میں ہوچکے تھے، لہٰذا مجھے داخلہ نہیں مل رہا تھا۔ اُس وقت مجاہد بھائی یہاں کراچی کے ناظم تھے، انہوں نے بھی بہت کوشش کی لیکن میرا داخلہ نہ ہوسکا۔ اُس وقت لیاری کالج بن رہا تھا اور ایک گرلز اسکول کے اندر کالج کی کلاسیں لگتی تھیں۔ وہاں ایک بلوچ پرنسپل صاحب تھے، انہوں نے کہا کہ آپ تاخیر سے آئے ہیں، مگر داخلہ ایک صورت میں مل سکتا ہے کہ ڈائریکٹر آف کالجز کے پاس چلے جائیں، اگروہ اجازت دے دیں تو داخلہ مل جائے گا۔ میں ان کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ درخواست لکھ دیں، اور پوچھا کہ کس کالج میں داخلہ چاہتے ہو؟ مجھ سے لیاری کالج کے پرنسپل صاحب نے بھی پوچھا تھا کہ تم کہاں داخلہ لینا چاہتے ہو؟ جس پر میں نے کہا کہ آپ کے کالج میں۔مگر انہوں نے کہا تھاکہ میرے پاس تو صرف دو ہی کمرے ہیں، اگر ڈائریکٹر صاحب پوچھیں تو تم ہارون کالج کھڈہ کا نام لے لینا۔ وہاں جنوری کی چوبیس پچیس تاریخ تک میرا داخلہ ہوگیا۔ پھر جون جولائی میں امتحان تھے جس میں چار پرچوں میں اچھے نمبر آئے مگر مجھے اردو نہیں آتی تھی، کسی نے بتایا کہ گلابی اردو بھی ہوتی ہے آپ اس کے لیے بورڈ سے اپلائی کرلیں جس پر آپ کو اجازت مل جائے گی۔ آج کل تو ایسا کچھ نہیں۔ خیر، گلابی اردو کی اجازت مل گئی اور اتفاق سے مجھے اس میں 80نمبر مل گئے۔ اس کے بعد سیکنڈ ایئر کا امتحان دیااور پھر میڈیکل کے لیے کوشش کرنے لگا۔ اُس وقت تک میں جمعیت میں بہت زیادہ داخل ہوچکا تھا۔ سہیل ہاشمی بھائی اُس وقت بہار کالونی میں ہمارے حلقے کے ناظم ہوتے تھے۔ میرے آتے ہی انہوں نے ذمہ داری میرے حوالے کردی۔ مرکز میں بھی سارے لوگ مجھے جانتے تھے۔ پھر میں نے جامعہ کراچی میں شعبہ فارمیسی میں داخلہ لے لیا۔
ایک دن ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا، سلام پھیرا تو کسی نے کہا کہ بھئی تم یہاں کیا کررہے ہو؟تمہارا تو میڈیکل میں داخلہ ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ایس ایم سی میں میرا داخلہ ہوگیا۔ اُس وقت میرے پاس اتنی گنجائش نہیں تھی کہ پینٹ شرٹ پہنتا۔ بس جو کپڑے میسر ہوتے، پہن لیتا تھا، اُس زمانے میں دو پٹی کی چپل بھی پہن کر کالج جایا کرتا تھا۔ زاہد حسین بخاری اُس وقت کراچی کے ناظم تھے۔ اُن کے ساتھ کبھی کبھی بائیک پر آنا جانا ہوتا تھا،انہوں نے ایک دن مجھ سے دو باتیں کہیںکہ دیکھو!کل سے تم ایس ایم سی کے ناظم ہوگے ،اور دوسرا یہ کہ تم ایک ہفتے کے اندر پینٹ شرٹ بنوائو گے اور کالج میں پینٹ شرٹ پہن کر آئو گے۔ انہوں نے مجھے جمعیت کے دفتر تک چھوڑا اور میںیہ سوچنے لگا کہ پینٹ شرٹ بنوائوں تو کہاں سے بنوائوں ؟ کیوں کہ میں ٹیوشن پڑھاتا تھا اور اس سے گھر چلاتا تھا۔ جیسے ہی گھر پہنچا تو میرے ایک ماموں امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔وہ دو پینٹوں کا کپڑا لے کر آئےتھے۔ اسی وقت اپنے ایک اسٹوڈنٹ کو لے کر درزی کے پاس پہنچا، وہاں سے پینٹ بنوائیں اور شرٹ وغیرہ کہیں سے لےلیں۔ اس کے بعد میں نے کالج میں نظامت شروع کردی اور پھر آخری دن تک جب تک میں کالج میں تھا، نظامت کرتا رہا۔حسن مراد بھائی ناظم تھے کراچی کے، ان سے جاکر میں نے کہا کہ میری تعلیم مکمل ہوچکی ہے، اب مجھے ان تمام ذمہ داریوں سے مبرا کردیں۔ مگر انہوں نے کہا: نہیں، تم کالج سے فارغ ہوجائو لیکن تنظیم سے منسلک رہنا۔ میں نے کہا کہ نہیں اب اسٹوڈنٹ نہیں ہوں اور پھر ڈاکٹری بھی کرنی ہے، تو اس طرح میں جمعیت سے فارغ ہوگیا اور اس کے بعد دنیا کے کاموں میں الجھ گیا۔میںآج بھی پریشان رہتا ہوں کہ پچھلے چالیس سال میں دینی کاموں کو زیادہ وقت نہیں دے سکا۔ دل کو تسلی یا تو اللہ دیتا ہے یا شیطان دیتا ہے۔ کچھ ایسے کام کرلیے ہیں جو شاید صدقہ جاریہ ہیں۔