امریکہ کی غیرمشروط حمایت، اسلحے کی فراوانی اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینے کے باوجود جانی و مالی نقصانات کی جو خبریں آرہی ہیں وہ اسرائیلیوں کے لیے مایوس کن ہیں
غزہ میں جنگ بندی کی آخری قانونی امید بھی سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو سے ختم ہوگئی۔ اتمامِ حجت کے طور پر اقوام متحدہ کے معتمدِ عام (سیکریٹری جنرل) انتونیو گوتریس نے بربنائے عہدہ ملنے والے ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ دستورِ اقوام متحدہ کے باب 15 (Chapter XV) دفعہ 99 کے تحت ’’سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی جانب مبذول کرا سکتے ہیں جو اُن کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘‘
سلامتی کونسل کے نام خط میں جناب گوتریس نے لکھا کہ ’’خراب حالات کی وجہ سے عوامی نظم و نسق بکھر چکا ہے، جس سے محدود انسانی امداد بھی اب ممکن نہیں، لہٰذا میں سلامتی کونسل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہا ہوں۔‘‘ دستور کی پاسداری کرتے ہوئے کونسل کے صدر نے قیامِِ امن کی قرارداد ایوان کے روبرو پیش کردی۔
قرارداد کے پیش ہوتے ہی یورپی یونین کے سیکریٹری برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے اعلان کیاکہ یونین، سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی حمایت کرے گی۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہے۔ میں انتونیو گوتریس کی آرٹیکل 99 کے تحت جنگ بندی کی تجویز کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ سیکریٹری جنرل نے اپنی درخواست میں جو وجوہات بیان کی ہیں اُن سے میں پوری طرح متفق ہوں۔‘‘
جب 8 دسمبر کو رائے شماری ہوئی تو فرانس نے یونین کے فیصلے کے مطابق قرارداد کی حمایت کی، اور چین و روس سمیت سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے جنگ بندی کے حق میں ہاتھ بلند کیے۔ برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، جبکہ حسبِ توقع امریکہ بہادر نے ویٹو کرکے مسودے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ قرارداد کے مسودے پر اقوام متحدہ کے 97 ارکان نے تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔
اس کے چار دن بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہی قرارداد 10 کے مقابلے میں 153 ووٹوں سے منظور کرلی۔ آسٹریا اور چیک ریپبلک نے یورپی یونین کی سفارشات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی۔ یونین کے رکن ممالک جرمنی، نیدرلینڈ، رومانیہ، سلوانیا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کی بھاری اکثریت سے منظوری امریکہ کی سفارتی شکست تو ہے کہ اُس کے اتحادی آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان اور فرانس نے امن تحریک کی حمایت کی، لیکن جنرل اسمبلی کے فیصلے قوتِ نافذہ سے محروم ہیں، لہٰذا ریکارڈ سے زیادہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔
غزہ امن کے بارے میں مغربی رہنمائوں کے بیانات محض مبہم ہی نہیں بلکہ سفارتی منطق سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اور ان کی جرمن ہم منصب محترمہ انالینا بیئربک (Annalena Baerbock) نے برطانوی جریدے ’سنڈے ٹائم‘ میں ایک مضمون لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’غزہ میں دیرپا امن وقت کی ضرورت ہے لیکن ہم فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کرتے۔‘‘
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سکھا شاہی کے باوجود دنیا خوفناک قوتِ قاہرہ کے سامنے اہلِ غزہ کے عزم اور صبر و ثبات پر اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نواز عناصر کی طرف سے شدید اعتراض کے باوجود امریکی ریاست کیلی فورنیا کی فرینسو کائونٹی (Fresno County) کے ایوانِ بلدیات المعروف سٹی ہال پر فلسطین کے پر چم لہرا دیے گئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آئرلینڈ میں ہوا جہاں دارالحکومت ڈبلن میں بلدیاتی اسمبلی پر قومی اور بلدیہ کے جھنڈوں کے ساتھ ایک ہفتے تک فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔
اس وحشت کے خلاف مختلف علاقوں اور حلقوں سے جو ردعمل ظاہر ہورہا ہے وہ بھی اسرائیل کے لیے اچھا نہیں۔ دنیاکی دو بڑی جہازراں کمپنیوں ڈنمارک کی MEARSK اور جرمنی کی Hapag-Lloyed نے بحر احمر (Red Sea) میں سفر معطل کردیا۔ غزہ جنگ چھڑنے کے بعد سے یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا اسرائیل سے آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے جنوبی بحر احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج اومان کا علاقہ جہازرانی کے لیے غیر محفوظ ہوگیا ہے اور بیمہ کمپنیاں ’اضافی خطرے‘ کے تناظر میں بھاری پریمیم وصول کررہی ہیں۔
امریکہ کی غیرمشروط حمایت، اسلحے کی فراوانی اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینے کے باوجود جانی و مالی نقصانات کی جو خبریں آرہی ہیں وہ اسرائیلیوں کے لیے مایوس کن ہیں۔ غزہ حملے کے آغاز سے ہی اسرائیلی حکومت نے براہِ راست رپورٹنگ پر پابندی لگادی ہے۔ قانونِ زباں بندی یاGag order کے تحت صرف جنگی کونسل (War Council)کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار ہی میڈیا شایع کرسکتا ہے۔ تاہم سچ کے متلاشی صحافیوں نے ’مدفون حقائق‘ کی بازیابی کے لیے فوجی قبرستانوں کا رخ کرلیا۔
اس سلسلے میں روسی ٹی وی (RT) نے جب 18 نومبر کو تل ابیب کے قریب مائونٹ ہرزی عسکری قبرستان (Mount Herzi Military Cemetery)کے ڈائریکٹر ڈیوڈ اورن باروخ (David Oren Baruch) سے رابطہ کیا تو ڈائریکٹر صاحب نے کہا ’’ہم اوسطاً ہر گھنٹہ ایک نئی قبر کھود رہے ہیں‘‘۔ ریکارڈ دیکھ کر جناب باروخ نے بتایا کہ 48 گھنٹوں کے دوران ہم نے 50 میتیں دفنائی ہیں۔ یہ وسط نومبر کی بات ہے جب مزاحمت میں شدت نہیں آئی تھی۔ اب اسرائیلی نقصان ایک فی گھنٹہ سے زیادہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں اور اہلِ غزہ کو فنا کردینے کے اعلان کے باوجودپسِ پردہ مذاکرات کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ برنیا (David Barnea) نے ناروے میں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے 17 دسمبر کو ملاقات کی۔ ملاقات قطر کے بجائے ناروے میں رکھنے کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ ہم حماس سے ملنے قطر نہیں گئے بلکہ ایک غیرجانب دار جگہ بات چیت ہورہی ہے۔
غزہ قتلِ عام کا ایک بڑا محرک اُن لوگوں کو چھڑانا ہے جنھیں اہلِ غزہ نے 7 اکتوبر کو قیدی بنالیا تھا۔ جنگی قیدیوں میں کچھ جرنیل بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ خوفناک بمباری سے فلسطینی مزاحمت کار تتر بتر ہوجائیں گے اور تل ابیب کا انتہائی تربیت یافتہ چھاپہ مار دستہ اپنے قیدی بازیاب کرا لے گا۔ اس آپریشن میں اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی مکمل حمایت حاصل تھی جن کے جاسوس ڈرونوں نے غزہ کا چپہ چپہ سونگھ کر اسرائیلی سراغ رساں اداروں کے مطابق قیدیوں کے ٹھکانے معلوم کرلیے تھے۔ لیکن مستضعفین بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ 8 دسمبر کو جب پہلی کارروائی ہوئی تو مزاحمت کار، اسرائیلی چھاپہ ماروں کے استقبال کو موجود تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوگئے اور قید سپاہی 24 سالہ سعر بروش (Saar Baruch) بے موت ماراگیا۔
ایک ہفتے بعد شجاعیہ میں ہونے والی کارروائی مزید مہلک ثابت ہوئی اور مستضعفین کے اچانک حملے سے گھبراکر اپنے تین قیدیوں کو اسرائیلی فوج نے خود ہی گولی ماردی۔ اس واقعے کے خلاف اسرائیل میں شدید ردعمل ہوا اور کچھ لوگوں نے ان جوانوں کے قتل کا پرچہ فوج کے سربراہ کے خلاف کاٹنے کا مطالبہ کردیا۔ اسی شام تل ابیب میں ایک بہت بڑے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے لواحقین کی نمائندہ محترمہ نوم پیری (Noam Perry) نے اپنے جذباتی خطاب میں کہا ’’صرف لاشیں اٹھارہے ہیں۔ حکمرانو! جنگ بند کرکے بامقصد مذاکرات کرو تاکہ ہمارے پیارے بخیریت واپس آجائیں۔ تم طاقت کے ذریعے ہمارے قیدی نہیں چھڑا سکے، اب امن کو ایک موقع دو۔‘‘
اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ17 دسمبر کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے شروع میں طوطے کی طرح جنگی منتر دہرایا کہ غزہ حملہ اسرائیلی بقا کی جنگ ہے جو دباؤ، جانی نقصانات اور اخراجات کے باوجود مکمل فتح تک لڑی جائے گی۔ پھر خود ہی بولے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے انھوں نے سراغ رساں ادارے موساد کو بات چیت کا اختیار دے دیا ہے۔ مزے کی بات کہ بی بی کے اعلان سے پہلے ہی موساد کے سربراہ امن مذاکرات کے لیے ناروے پہنچ چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ نقصانات اور عوام کا دبائو اسرائیلی حکومت کو معقولیت کی طرف مائل کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ تو امریکی محکمہ سراغ رسانی کا خیال ہے کہ بی بی جنگ کی طوالت کو اپنی سیاسی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بی بی اپنے منصب اور اب ہنگامی صورتِ حال کا بہانہ کرکے معاملہ ٹال رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے کی صورت میں انھیں پیشیاں بھگتنی ہوں گی۔
اعصاب کی اس جنگ میں اہلِ غزہ کا پلڑا بھاری لگتا ہے کہ 70 دن کی مسلسل بمباری، 9 ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت اور سارے غزہ کو کھنڈر بنادینے کے باوجود اسرائیلی اپنا ایک بھی قیدی بزور قوت رہا نہیں کراسکے، اور دوسری طرف قیدیوں کے عزیزو اقارب کے لیے جدائی ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے تجارتی مراکز اور چوراہوں پر Neon Signکی شکل میں گھڑیاں آویزاں کرکے لواحقین نے اپنے پیاروں کی حراست کے لمحات گننے شروع کردیے ہیں۔
اہلِ غزہ نے ایک بیان میں اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ عارضی نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے مکمل، دیرپا اور غیر مشروط جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کی رہائی ناممکن ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سپاہ 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپس جائیں، اور جب تک جارحیت ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہوجاتی، کوئی قیدی رہا نہیں ہوگا۔ قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت بھی ان کی شرائط میں شامل ہے۔
مزاحمت کاروں کا اعتماد، ان کی برجستگی سے بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اسرائیلی فوج، حماس قائدین کی گرفتاری میں اہلِ غزہ کے تعاون کے لیے اپنے طیاروں سے بڑٖے پیمانے پر پمفلٹ گرا رہی ہے۔ پمفلٹ میں رہنمائوں کے سروں کی قیمت کے ساتھ طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’حماس کی کمر ٹوٹ چکی، اب ان کے رہنما انڈے بھی نہیں تل سکتے‘‘۔ اس کا جواب آیا کہ ’’انڈے فرائی کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے مزاحمت کار MERKAVA(اسرائیلی ٹینک) بھوننے میں مصروف ہیں۔‘‘
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔