انتخابات میں پہلی بار ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کا استعمال ہوگا
سپریم کورٹ کے دبنگ فیصلے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کے باضابطہ اعلان کے بعد 8 فروری کے عام انتخابات کے بارے میں بے یقینی کی فضا ختم ہوگئی ہے اور انتخابات کے التوا کے لیے نگران حکومت کے دو عہدیداروں اور ایک طاقت ور شخصیت کے مشیروں کی خواہش کی راہ میں سپریم کورٹ کھڑی ہوگئی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں سیاسی جوڑ توڑ کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ ان انتخابات میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی حصہ لے گی، اس کی وجہ تحریک انصاف سے متعلق غیر یقینی صورتِ حال بھی ہے۔ عام انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ سیاسی محاذ آرائی، اقتصادی بدحالی اور دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں ایسی قیادت کا انتخاب جو ان تمام چیلنجز پر قابو پاسکے، عوام کی قوتِ فیصلہ کا بڑا امتحان ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے کی شکایت ہے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو ان کی شکایات کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنا چاہیے تاکہ انتخابات کو شفاف بنایا جا سکے۔ ایسا نہ ہوکہ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی انتخابی نتائج مشکوک ہوجائیں ۔
اِن دنوں آرمی چیف امریکہ کے دورے پر ہیں۔ ان کی وطن واپسی کے بعد کیے جانے والے اقدامات اور فیصلے ہی مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا تعین کریں گے۔ یہ دورہ سی پیک، افغان پالیسی، پاک افغان سرحد کے معاملات اور عام انتخابات سے متعلق ہے۔ امریکہ میں ہونے والی تمام ملاقاتیں اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ کن امور پر بات چیت ہوئی ہے، تاہم امریکی فضائیہ کے سربراہ سے ملاقات ایک نیا اضافہ ہے۔ اب یہاں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کیا ڈرون حملوں کی پھر سے ابتدا ہونے جارہی ہے؟
پاکستان میں چند ہفتوں بعد الیکشن ہونے جارہے ہیں لیکن ملک بھر میں حلقہ جاتی سطح پر کہیں بھی الیکشن کی روایتی فضا نظر نہیں آرہی ہے۔ فروری میں ہونے والے یہ پہلے عام انتخابات ہوں گے جن میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال غیر معمولی سطح پر ہوگا، پہلی بار ملکی سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال کا بھی وسیع امکان ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کا استعمال تقریباً ہر شعبے میں کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں سیاست میں مصنوعی ذہانت کا پہلی بار استعمال پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیا گیا، جس میں عمران خان کی ایک مختصر ویڈیو کلپ جاری کی گئی جو کہ دراصل اے آئی ویڈیو تھی، جو ایک پرانی ویڈیو کو نئی آواز کے ساتھ جوڑ کر جاری کی گئی ہے، اس میں عمران خان نے کارکنوں کو پیغام دیا کہ وہ 8 فروری کے انتخابات کی تیاری کریں، عوام کسی کو اپنے ووٹ کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالنے دیں۔ تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ ایکس پر جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ کورکمیٹی کے توسط سے بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کارکنان اور عوام کے نام پیغام جاری کیا ہے۔ مصنوعی ذہانت دراصل حقیقت نہیں ہوتی، اس لیے سیاست میں مصنوعی ذہانت کا استعمال نتائج کے لحاظ سے خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
انتخابات کے لیے شیڈول کا اعلان ہوچکا، تاہم انتخابات کے التوا کے لیے درجنوں درخواستیں الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی ہیں۔ ماضی میں بہت کچھ چھپ چھپا کر ہوتا تھا، اب انتخابات کے لیے ’’مثبت نتائج‘‘ کی کوششیںکوئی راز نہیں رہیں۔ ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ انتخابی نتائج سے الگ تھلگ نہیں دیکھی جاسکتیں، ان کا ایک کردار ہے اس سے کوئی انکار ممکن نہیں رہا۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں دنیا کے بڑے ملک اور دوست ممالک دونوں نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ 1970ء کے بعد سے اب تک ملک میں 13 عام انتخابات ہوچکے ہیں، ہر بار یہ انتخابی کھیل سانپ سیڑھی کا کھیل ہی بنا رہا، انتخابی رِنگ میں ہر بار کوئی نہ کوئی پسندیدہ کھلاڑی رہا ہے، حتیٰ کہ 1985ء میں ملک میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے، اُس وقت بھی پسندیدہ امیدوار موجود تھے۔ زیادہ امکان یہی نظر آتا ہے کہ اِس بار انتخابی مہم کے بغیر خاموشی کے ساتھ الیکشن کرائے جائیں گے تاکہ مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
تحریک انصاف اس وقت سائفر اور توشہ خانہ کیس کی سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور اُس کے انتخابی نشان پر بھی الیکشن کمیشن کو ابھی فیصلہ کرنا ہے۔ دوسری جانب نوازشریف ہیں، جنہیں اب ماضی کے مقدمات سے بریت کی صورت میں نجات ملتی چلی جارہی ہے۔ نوازشریف کو اس وقت پسندیدہ قرار دیا جارہا ہے اور ان کی مقدمات سے بریت پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ نوازشریف بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نہیں ہیں، تاہم شہبازشریف نے اپنی کہی ہوئی اس بات کی آج تک تردید نہیں کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں۔ نوازشریف نے اس تضاد سے نکلنے کے لیے ’’انتقام نہیں بلکہ حساب‘‘ کا بیانیہ اپنالیا ہے۔ وہ پرانی مقتدرہ پر تنقید کرتے ہیں اور نئی مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ پرانی عدلیہ نے قائد نون لیگ کے خلاف فیصلے دیے لیکن آج کی عدلیہ انہیں ریلیف دے رہی ہے۔ اس وقت شہری حلقوں میں بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط نظر آرہی ہے۔ عمران خان کو نااہل قرار دے دیا جائے تو منظر بدل سکتا ہے، تاہم پاکستان میں مظلوم کا ووٹ بینک توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان حالات میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر امریکہ کے اپنے پہلے اور غیر معمولی دورے پر ہیں۔ ان کے اس دورے کو ملک کے آئندہ کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو اور پینٹاگون میں بھی دیرینہ تعلقات ہیں۔ اقتصادی اور سیکورٹی چیلنجز کے حوالے سے مسائل کے حل کے لیے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورۂ امریکہ اہمیت کا حامل ہے، اُن کے پہلے سرکاری دورۂ امریکہ کو علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اہمیت حاصل ہے۔ دورے کے دوران آرمی چیف نے اعلیٰ امریکی عہدے داروں سے ملاقات کی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھائو آرہا ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بظاہر گرم جوشی باقی نہیں رہی ہے۔ خراب سے خراب صورتِ حال میں بھی پاکستانی فوج اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں لیکن امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی اور امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ان تعلقات میں بہت حد تک مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ان تعلقات میں دوری کم کرنے کے لیے پینٹاگان اورجی ایچ کیو کا رابطہ ضروری تھا۔ سی پیک نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں رکاوٹ تو نہیں ڈالی لیکن ہم امریکہ کو یہ بات سمجھانے ناکام رہے کہ سی پیک معاہدہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان نہیں بلکہ دنیا کے درجنوں ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن پاکستانی فوج کے زیرِ استعمال اسلحے اور سازو سامان کی مرمت کے لیے امداد کی توقع ضرور رکھی جائے گی۔جنرل عاصم منیر نے پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے دیے گئے ایک کمیونٹی ڈنر میں امریکہ میںمقیم پاکستانیوں سے ملاقات کی اور ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے انہیں راغب کرنے کی کوشش کی۔ شرکا میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، جن میں سرمایہ کار، معالجین، آئی ٹی پروفیشنلز، انجینئرز، یونیورسٹی پروفیسرز، معاشی و اقتصادی ماہرین بھی شامل تھے۔ ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت تنویر احمد نے پاکستان میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کو 90 لاکھ ڈالر عطیہ دیا۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے اپنے وطن میں سرمایہ کاری کی جائے، وہ 3 چیزوں پر یقین رکھتے ہیں: قابلیت، ہمت اور کردار، اگر ان میں سے کسی دو چیزوں کو چھوڑنا پڑے تو وہ قابلیت اور ہمت کو جانے دیں گے لیکن کردار کو نہیں۔پاکستانی معالجین کی سب سے بڑی تنظیم ’اے پی پی این اے‘ کے صدر ارشد ریحان بھی اس ڈنر میں شریک ہوئے۔ شرکا میں پی ٹی آئی کے کچھ کارکن بھی شامل تھے جو امریکی کانگریس اور دیگر جگہوں پر عمران خان کے لیے مہم چلا چکے ہیں۔اگرچہ یہ ایک ’اوپن مائک سیشن‘ تھا لیکن کسی نے بھی عمران خان کے زیرِحراست ہونے یا ملک میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں سوال نہیں پوچھا۔ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو پاکستان سے ہدایات ملی تھیں کہ آرمی چیف کے دورے کے دوران ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں۔ آرمی چیف کی فلوریڈا کے شہر ٹمپا میں واقع سینٹ کام ہیڈ کوارٹر میں کچھ امریکی فوجی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔آرمی چیف کی واشنگٹن میں اہم حکومتی عہدیداران اور فوجی حکام سے ملاقات ہوئی تھی جن میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، سیکرٹری دفاع لائیڈ جے آسٹن، نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ، نائب مشیر قومی سلامتی جوناتھن فائنر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براؤن شامل ہیں۔ آرمی چیف کے امریکہ کے اس دورے میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی، باہمی فوجی اور اقتصادی تعاون اور دہشت گردی کی صورت حال کے علاوہ ملک کے سیاسی معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔
پاکستان میں سب حلقوں کو یہ بات معلوم ہے کہ عالمی امدادی ادارے اور مغربی ممالک پاکستان میں جمہوری عمل کے حامی رہے ہیں اور پاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ انتخابات کے التوا سے اقتصادی بحران میں اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کے برعکس منظرنامہ بھی زیر بحث ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی میں آرمی چیف سے ملنے والے ملک کے نامور تاجروں نے بھی نگران سیٹ اپ جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ علمائے کرام کے ایک گروپ کی طرف سے بھی ایسی ہی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت ملک کے متعدد نامور سیاست دان بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور شدید سردی کی وجہ سے الیکشن میں کچھ دن کے التوا کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھ رہے، اس سب کے باوجود اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ ملک کا نظم و نسق عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ لیکن یہ صرف کتابی بات ہے، عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم ملک کا انتظامی سربراہ ہے، آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم کے بعد وزیراعظم کے پر کاٹ دیے گئے اور اس کے بعد دھیرے دھیرے ملک کے سیاسی حالات تنکے کی مانند اس طرح بہتے گئے کہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب اب ایک نمائشی عہدہ بن کر رہ گیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں اور سیاست دان ہی اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے بڑے بڑے آئینی اختیارات سے خود ہی دست برداری کی راہ اپنائی۔پی ڈی ایم کی حکومت آئی، سابق وزیر اعظم شہبازشریف پہلے جنرل باجوہ اور ان کے بعد آنے والی عسکری قیادت کی مالا جپتے رہے کہ انہوں نے ملکی معیشت کی بحالی اور اسے پائوں پر کھڑا کرنے، اور آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے مالی مدد کے حصول میں بڑی مدد کی ہے۔