ایک نظم ارضِ فلسطین کے نام غزہ زندہ ہے

تم نے سمجھا تھا کہ بارود سے گھر ڈھانے سے
خونِ ناحق کو سرِ عام بہا دینے سے
بات رک جائے گی
آواز بھی تھم جائے گی
نہ کوئی حشر بپا ہوگا نہ ایوانوں میں
کوئی بھی حرفِ جنوں
پھر سے کبھی گونجے گا
آج تم اپنے شبستانوں سے باہر جھانکو
اپنے خوابوں کے بکھر جانے کا منظر دیکھو
شرقِ اوسط میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کا سفر
اب تمہارے در و دیوار تک آپہنچا ہے
آگ جو تم نے فلسطین میں بھڑکائی تھی
آج وہ حیفہ کی دہلیز کو جھلساتی ہے
جس سے غزہ کے در و بام جلائے تم نے
وہ تمہاری بھی فصیلوں کو جلا ڈالتی ہے
وہ صدا جس کو دبانے کی تمہیں خواہش تھی
وہ تمہارے ہر اک ایوان کو لرزاتی ہے
بن کے تکبیر یہاں جو بھی صدا اٹھتی ہے
وہ کہاں تھمتی ہے بندوق اٹھا لینے سے
جو رگِ جاں کی حرارت سے دیئے جلتے ہیں
وہ کہاں بجھتے ہیں دیوار گرا دینے سے
اب لپٹ کر کسی دیوار سے گریہ کرلو
اور ناپاک ارادوں سے کنارہ کرلو
کل بھی تم خوار ہوئے
آج بھی رسوا تھے تم ہی
آج بھی معتوب ہو تم
اپنے ہاتھوں میں لیے فردِ عمل صدیوں کی
پوری تاریخ اٹھائے ہوئے گمراہی کی
تم غدابوں کی طرح آج بھی سرگرداں ہو
تم یونہی چلتے رہو اتنا مگر یاد رکھو
راکھ کا ڈھیر سمجھ کر نہیں چھیڑو ہم کو
تم نے جس ڈھیر کو جانا تھا کہ یخ بستہ ہے
ہاں اسی میں کہیں پوشیدہ شرر ہے کوئی
کوئی دھرتی کی شبِ تار سے جاکر کہہ دے
ظلمتوں کے لیے پیغامِ سحر ہے کوئی