نگران وزیراعظم اپنی حدوں میں رہیں

پاکستان کے اداروں اور منصب داروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرنے کے بجائے اکثر و بیشتر ان سے تجاوز کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے۔ آئین و قانون ان کے نزدیک موم کی ناک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جنہیں وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ ملک میں اس وقت ایک نگران حکومت قائم ہے جس کی بنیادی آئینی و قانونی ذمہ داری ملک میں ایک طے شدہ مدت میں صاف، شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کرواکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنا ہے، مگر نگران حکمران آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت میں انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے دنیا جہاں کے مسائل پر رائے زنی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی آئینی مدت پوری ہوچکی اور ہر گزرتا دن آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، مگر انہیں اس آئینی خلاف ورزی کی ذرّہ برابر پروا ہے نہ ملال۔

فلسطین کے بارے میں پاکستان کا ہمیشہ سے یہ واضح اور دوٹوک مؤقف رہا ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اس سرزمین پر اسرائیل کا وجود قطعی ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کا یہ مؤقف پاکستان کی اپنی عمر سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ 23 مارچ 1940ء کو جب پورے برصغیر سے مسلمانوں نے لاہور کے منٹو (موجودہ اقبال) پارک میں جمع ہوکر اپنے لیے ایک الگ وطن کے حصول کی قرارداد منظور کی تو اس سے پہلے اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی واضح مؤقف ایک قرارداد ہی کی صورت میں اختیار کیا کہ فلسطین کی سرزمین پر صہیونی ریاست کے قیام کی کوششیں سراسر ناجائز اور قطعی ناقابلِ قبول ہیں۔ پھر جب 1948ء میں امریکہ اور برطانیہ وغیرہ نے ایک بین الاقوامی سازش کے تحت اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو وجود بخشا تو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے شدید علالت کے باوجود تمام عالمی اداروں اور بین الاقوامی رہنمائوں کو مراسلے تحریر کیے جن میں انتہائی سخت الفاظ میں اسرائیل کے ناپاک اور ناجائز وجود کے خلاف مسلمانانِ برصغیر کے جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی دوراندیش قیادت نے اُسی وقت بھانپ لیا تھا کہ اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ تب سے اب تک تسلسل سے پاکستان اسی اصولی مؤقف پر قائم چلا آرہا ہے، مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ اکتوبر کے اوائل میں اسرائیل کی تازہ ریاستی دہشت گردی کے آغاز پر جب کہ پوری امتِ مسلمہ کے دل شدتِ غم سے چُور تھے، پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مملکت کے دیرینہ مؤقف سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین میں دو ریاستی حل کی تائید میں بیان داغ دیا۔ حال ہی میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ بانیِ پاکستان اور مملکت کے دیرینہ اصولی مؤقف سے اس روگردانی سے متعلق سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے اصرار کیا کہ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کے برعکس یا مختلف کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔ سیاست کوئی کام کرنے کا نام نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کا نام ہے۔ قائداعظم اور جو نبی اور رسول گزرے ہیں ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انبیاء ؑپر جو الہام آیا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن ان سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں آنے والے وقت میں ان کے مؤقف میں کسی تعمیری تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو وہ لائی جا سکتی ہے۔ جب اُن سے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے پاکستان سے متعلق حالیہ بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے، کسی ایک صاحب کے کہنے پر کوئی پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل اس پر پچھتا رہے ہوں۔ میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کو کرنے دیا جائے۔

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی یہ باتیں بظاہر خاصی اصولی اور مثبت طرزِ فکر کی نشاندہی کرتی ہیں مگر اُن کی گفتگو اور اُن کا عملی کردار باہم متضاد اور متصادم ہیں، ان کا یہ ارشاد تسلیم کہ قائداعظم کی رائے سے اختلاف کفر نہیں کہ وہ نبی یا رسول نہیں تھے، مگر وزیراعظم بھول رہے ہیں کہ مملکت اور اس کے بانیان کی رائے سے اختلاف کے لیے پارلیمان، تمام سیاسی جماعتوں اور اہلِ دانش کے جس غور و فکر کے بعد مؤقف میں تبدیلی کو وہ جائز اور درست قرار دے رہے ہیں، خود انہوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر فلسطین کے دو ریاستی حل کا فارمولہ پیش کردیا ہے، جس کا واضح مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے، حالانکہ یہ محض بانیِ پاکستان کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ اسرائیل کے قیام سے آج تک پوری پاکستانی قوم بلکہ پورے عالم اسلام کا یہی متفقہ اور مشترکہ مؤقف رہا ہے کہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا وجود سراسر ناجائز ہے جسے کسی حالت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی رائے امت کی اسی سوچ کا اظہار تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک پوری پاکستانی قوم کا مؤقف بھی یہی رہا ہے، ملک کے تمام منتخب ایوان بھی اسی کی توثیق کرتے رہے ہیں۔ ایک نگران وزیراعظم کو جسے کسی نمائندہ ایوان نے منتخب نہیں کیا، آخر یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ پوری قوم کے دیرینہ متفقہ مؤقف سے انحراف کرتے ہوئے اپنے اندرونی اور بیرونی آقائوں کی خوشنودی کی خاطر ایسی بات کرے جسے کسی منتخب ایوان میں زیر بحث لایا گیا ہے نہ اسے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، اہلِ دانش اور عوام کی تائید حاصل ہے! وزیراعظم کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں وہاں انہیں قومی مفاد اور متفقہ مؤقف کے منافی کسی ذاتی رائے کے اظہار کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں۔ جب تک وہ اس اہم منصب پر موجود ہیں انہیں بہرحال قوم کے متفقہ مؤقف کی تائید و حمایت کرنا ہو گی۔ شاعر کی زبان میں اُن سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ؎

اپنی حدوں میں رہیے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالیے!

(حامد ریاض ڈوگر)