یہودی والدین کے گھر مارگریٹ مارکس کی ولادت غالباً 1934ء میں ہوئی۔ دس برس کی عمر میں انہیں اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی، جب انہیں پتا چلا کہ دونوں مذاہب کے پیروکار حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے نیویارک کی لائبریریوں میں عربوں کے بارے میں کتب کا مطالعہ شروع کردیا۔ یوں آپ پر انکشاف ہوا کہ یہودیوں کو دورِ ابتلا میں مسلم ہسپانیہ میں ہی پناہ ملی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ نے احمد خلیل نامی ایک ناول لکھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کا زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا۔
1953ء میں آپ سخت بیمار ہوگئیں۔ اس دوران آپ نے جارج سیل کا ترجمہ قرآن پڑھا۔ جارج کا گمراہ کن ترجمہ علمی بددیانتی پر مبنی تھا۔ اس کی زبان ادق تھی۔ طویل پاورقی میں غیر ضروری مباحث تھے۔ اسی لیے آپ نے پھر کبھی کسی غیر مسلم کا ترجمہ قرآن نہیں پڑھا۔
اسپتال میں گزرے ماہ و سال میں آپ نے پکھتال نامی مسلمان کا ترجمہ قرآن متعدد بار پڑھا۔ بعدازاں آپ نے یوسف علی، محمد علی لاہوری اور مولانا عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ قرآن پڑھا۔ اسلامی لٹریچر کے مطالعے کے دوران تفہیمِ دین کے لیے مختلف ممالک کے علما سے خط کتابت کی۔ انھی میں سے ایک مولانا مودودیؒ تھے۔ 5 دسمبر 1960ء سے 2 مئی 1963ء تک مریم جمیلہ نے مولانا مودودیؒ کو گیارہ خطوط لکھے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی جواباً گیارہ خطوط لکھے۔ مئی 1961ء میں آپ نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھ لیا۔ اس کی اطلاع آپ نے مولانا مودودیؒ کو بذریعہ خط دی۔
مریم جمیلہ نیویارک سے پاکستان ہجرت کرنا چاہتی تھیں تاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ مولانا مودودیؒ نے آپ کو پیش کش کی کہ آپ بطور مہمان میرے دولت کدے پر قیام کریں۔ مولانا مودودیؒ کی صاحب زادیاں مریم جمیلہ کی ہم عمر تھیں۔ مولانا مودودیؒ نے مریم جمیلہ کے والدین کو بھی خط لکھا اور انہوں نے مولانا مودودیؒ کے خط کا جواب بھی دیا۔ یہ دونوں خطوط بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
نیویارک سے مریم جمیلہ مال بردار یونانی جہاز کے ذریعے کراچی آگئیں۔ پھر آپ عازم لاہور ہوئیں جہاں مولانا مودودیؒ کے گھر آپ نے اُن کی صاحب زادیوں کے ساتھ قیام کیا۔ بعدازاں مولانا مودودیؒ نے آپ کا نکاح جماعت اسلامی کے ایک مخلص اور سرگرم کارکن محمد یوسف خان سے کردیا۔
مریم جمیلہ نے سنجیدہ موضوعات پر تیس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ آپ کی کتابوں کا اردو، بنگالی، ہندی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس مراسلت کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بنگالی زبان میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ زیر نظر اردو ترجمہ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے کیا ہے۔ تمام خطوط زمانی ترتیب میں دیے گئے ہیں۔ ترجمہ سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ خطوط دلچسپ، علمی اور معلومات افزا ہیں۔