انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین فلسطین محض زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بلکہ تین الہامی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا روحانی مرکز بھی ہے۔ حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور بہت سے دیگر پیغمبر علیہم السلام اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد (635ء)میں مسلمانوں نے پُرامن طریقے سے اسے حاصل کیا اور بیت المقدس کے دروازے عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے لیے کھلے رکھے۔ عہدِ فاروقی سے یہ خطہ مسلسل مسلمانوں ہی کے پاس رہا، یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ایک ایسے خطے کو جو کبھی اُس کا نہیں رہا، اسے قبضے میں لے لیا اور ”اعلانِ بالفور“ کے ذریعے یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔واضح رہے کہ اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین میں یہودی آبادی محض 8 فیصد تھی۔
اسی اعلانِ بالفور کی بنیاد پر 14مئی 1948ءکواسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام عمل میں آیا،جس کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیلیوں میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سات لاکھ فلسطینی اپنے آبائی علاقوں سے جبری جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ دیریاسین میں عربوں کا قتلِ عام ہوا۔ گزشتہ75 سال سے فلسطینی مسلمان بدترین انسانیت سوز ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ان کی نسل کُشی اور جبری انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔فلسطینی مسلمان اپنی آزادی اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔اسرائیل ان کی آواز کوخاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ مغربی میڈیا کے تعصب اور جانب داری نے بھی اس مسئلے کو دبانے،فلسطینیوں کو ‘”دہشت گرد“ اور اسرائیلیوں کو ‘مظلوم ‘ثابت کرنےکی ہر ممکن کوشش کی ہے، لیکن حالیہ ”طوفان الاقصیٰ“ نے ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کرادی ہے۔
معروف محقق اور مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی) کی پیشِ نظر کتاب ”مسئلہ فلسطین“ اس مسئلے کے حوالے سے ان حقائق سے پردہ اٹھانے کی ایک کوشش ہے جن پر ستّر برسوں میں شکوک و شبہات اور تعصبات کی مٹی ڈال کر انہیں دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کتاب میں کھلی اور سفاک سچائیاں، تاریخی حقائق، اعداد و شمار اور دستاویزی ثبوت ہیں جن کی روشنی میں انصاف پسند قاری بآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ آیا فلسطینی جارح اور دہشت گرد ہیں یا اسرائیل؟
یہ کتاب چند مقدمات پر قائم ہے: پہلا مقدمہ تو یہ ہے کہ کیا مسئلہ فلسطین محض ایک سیاسی مسئلہ ہے، یا اس میں مذہب بھی دخل رکھتا ہے؟ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ اب تک مسئلہ فلسطین کے جو سیاسی حل پیش کیے گئے ہیں، وہ زمینی حقائق سے لگّا کھاتے ہیں یا خلاء میں تجویز کیے گئے ہیں؟ اور تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ طاقت ور ممالک اور عالمی اداروں کی ذمے داریوں میں، اقوام… خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی… کے بنیادی حقوق، جن میں خودارادیت کا حق بھی شامل ہے، کتنی جگہ پاسکے ہیں؟
اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھتر برسوں میں فلسطینیوں کے جذبہ آزادی کو زندہ رکھنے میں فلسطینیوں کی اپنی صلاحیت کیا رہی ہے اور اسرائیل کے اقدامات کا کتنا حصہ ہے۔ اس کتاب کو لکھنے میں فاضل مصنفہ کو مآخذ کے حوالے سے مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ اس موضوع پر اکثر کتابیں مغربی مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں جو ایک خاص نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ بعض عرب مورخین کی کتابیں بھی ہیں تاہم ان میں سے بیشتر میں نظریاتی پہلو غالب ہے، وہاں اسے عقیدے کے ایک مسئلے کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور جہاں تک اردو میں لکھی جانے والی کتب کا تعلق ہے تو وہ معدودے چند ہی ہیں۔
پیش نظرِ کتاب مسئلہ فلسطین کا ایک تاریخی مطالعہ ہے، جس میں اعتقادی معاملہ بقدرِ ضرورت ہی آیا ہے۔ کتاب مختصر لیکن جامع ہے جس کا اندازہ کتاب کے 13 ابواب کے درجِ ذیل عنوانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
1۔ فلسطین: قدیم تاریخ، 2۔ فلسطین اسلامی دور میں (635ء-1918ء)، 3۔ جدید تصّورات اور مسئلہ فلسطین، 4۔ پہلی جنگِ عظیم اور اعلانِ بالفور، 5۔ زیرِ انتداب فلسطین (1920-1948ء)، 6۔ مسئلہ فلسطین میں امریکہ کاکردار، 7۔ پہلی عرب-اسرائیل جنگ اور نکبۃ فلسطین، 8۔ تیسری عرب- اسرائیل جنگ اور سقوطِ یروشلم، 9۔ الفتح اورتنظیم آزادیِ فلسطین، 10۔ مزاحمتی تحریکیں -انتفادہ اور حماس کا ظہور، 11۔ حماس-عالمی واقعات کے گرداب میں، 12۔ غزہ بمقابلہ اسرائیل، 13۔ فیصلہ کن معرکہ: طوفان الاقصیٰ۔
علاوہ ازیں آخر میں درجِ ذیل تین ضمیمے بھی شامل ہیں:
1۔ تاریخِ فلسطین کے اہم ماہ وسال، 2۔ امان نامہ برائے باشندگانِ بیت المقدس ازامیر المؤمنین عمرؓ بن الخطاب، 3۔ ہرتزل کاخط سلطان عبدالحمید کے نام۔
ہر وہ شخص جو مسئلہ فلسطین کےتاریخی پس منظر، جدید تاریخ اور موجودہ صورتِ حال میں دلچسپی رکھتا ہو اُسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اردو میں یہ اپنے موضوع پر ایک عمدہ اور تازہ ترین کتاب ہے جومسئلہ زیرِ بحث کے28 اکتوبر 2023ء (طوفان الاقصیٰ کے بائیسویں دن ) تک کے اہم واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔