سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان، علماء و مشائخِ عظام اور حماس رہنما نے واضح کیا ہے کہ اگر مسلمان حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف مسلمان عوام بغاوت کردیں گے۔ حکمرانوں سے سوال ہے کہ امت کو بچانا کس کی ذمہ داری ہے؟ غزہ میں ہزاروں شہادتیں ہوچکیں، اسرائیل نے شہر پر ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ بارود گرایا۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دے کر اسے کبھی تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان بانیِ پاکستان کے ریاستی اعلان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ دو ریاستی حل کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ کوئی بھی مسلمان اسرائیل کی ریاست کو قبول نہیں کرسکتا۔ فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز مجلس اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں منعقدہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان، پروفیسر ساجد میر، قاری حنیف جالندھری، مولانا فضل الرحمان خلیل، محمد اعجازالحق، وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد اور دوسرے سیاسی و مذہبی زعماء خطاب کرنے والوں میں شامل تھے۔ اس کنونشن میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے ٹیلی فونک خطاب کیا اور کہا کہ ’’دنیا میں یہودی ہی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ جنگ میں ہمارے 20 ہزار بچے، عورتیں اور مرد شہید ہوچکے ہیں۔ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے، اگر وہ اسرائیل کو دھمکی دے تو جنگ رک سکتی ہے۔ ہمیں پاکستان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کر سکتا ہے۔ ہم اس وقت اسرائیل کے جدید ترین ہتھیاروں کو تباہ کر رہے ہیں۔‘‘
کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد میں تقاضا کیا گیا کہ اہلِ فلسطین کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بنیادی حقوق دیئے جائیں، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی طرف سے عسکری مداخلت اور حصار ختم کیا جائے اور رفح بارڈر مستقل طور پر کھولا جائے۔ قرارداد میں بین الاقوامی ماہرینِ قانون سے کہا گیا کہ غزہ میں اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس بنیاد پر اُس کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمات دائر کیے جائیں۔ قرارداد میں مسلم دنیا اور انصاف پسند انسانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ’’ استعماری طاقتوں نے پوری دنیا کے یہودیوں کو اکٹھا کرکے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرایا، جماعت اسلامی مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اسی نظریے کی حامی ہے جو اہلِ فلسطین اور قائداعظمؒ کا ہے۔ نگراں وزیراعظم کی طرف سے طوفان الاقصیٰ کے ایک روز بعد کیے جانے والے ٹوئٹ میں 2ریاستی حل کی تجویز دی گئی، نہیں معلوم یہ آئیڈیا کہاں سے آیا! نگرانوں کے پاس پاکستانی عوام کا مینڈیٹ ہے، نہ ہی یہ عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایک اسلامی ملک کی جانب سے 30ارب ڈالرکا خطیر فنڈ قائم کیا گیا، حکمرانوں سے سوال ہے کہ امت کو بچانا کس کی ذمے داری ہے؟ غزہ میں ہزاروں شہادتیں ہوچکیں، اسرائیل نے غزہ پر ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ بارود گرایا، مسلمان حکمران امریکہ کے خوف سے اہلِ فلسطین کی اخلاقی، سیاسی اور مالی مدد سے بھی کترا رہے ہیں۔‘‘ امیر جماعت نے کہا کہ امریکہ و برطانیہ کی مکمل آشیرباد سے گزشتہ 70برس سے اہلِ فلسطین پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے، مگر انھوں نے عظیم استقامت دکھائی اور مزاحمت جاری رکھی۔ ظالم سے آزادی کے حصول کے لیے فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’صہیونی افواج کے مظالم پر عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی پروانہیں، اسلامی سربراہی کانفرنس نے ایک کمزور اعلامیہ جاری کیا۔ اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت کررہا ہے، اسے اسلحہ دے رہا ہے تو اسلامی ممالک کے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ یہ کم ازکم اسرائیل کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی فلسطین فنڈ قائم کریں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایران، ترکی اور قطر گئے اور وہاں کے حکمرانوں سے اہلِ فلسطین کی عملی مدد کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکمران فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمارے لیے راستہ کھولیں۔
اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مسئلہ فلسطین کے 2ریاستی حل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اس کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا، غزہ میں فوری سیزفائر کیا جائے اور جنگ زدہ علاقے میں امداد کی فراہمی کے لیے رفح کراسنگ کو کھولا جائے۔