تہذیب کے مختلف مظاہر کے ارتقاء میں غم کا حصہ خوشی کے حصے سے بہت زیادہ ہے
انسان کے اندر پائے جانے والے بعض جذبوں یا کیفیات کی نوعیت اتنی بنیادی ہے کہ ان کے بغیر نہ تو انسان کی کوئی صحت مند تعریف وضع کی جاسکتی ہے اور نہ انسانی زندگی کی سرگرمیوں اور ان کی معنویت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ان جذبوں یا کیفیات میں سے دو تو اتنی بنیادی ہیں کہ پوری انسانی زندگی صرف انہی کے درمیان حرکت کرتی نظر آتی ہے۔ ان میں سے ایک خوشی ہے اور دوسری غم۔
تاہم اگر ہم غور سے دیکھیں تو پوری انسانی تہذیب صرف ایک کیفیت کے حصول کے گرد گردش کرتی نظر آتی ہے۔ خوشی کی کیفیت کے حصول کے لیے۔ خوشی کا حصول انفرادی جدوجہد کے پس منظر میں بھی کارفرما نظر آتا ہے اور اجتماعی جدوجہد کے پس منظر میں بھی۔ (غم اور اس کی معنویت کا تذکرہ اپنے مقام پر آگے آرہا ہے۔)
ممکن ہے ہمارے اس بیان کے حوالے سے کوئی یہ کہے کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے حوالے سے انسانی جدوجہد کا مرکز خوشی نہیں بلکہ صداقت ہے۔ کسی شخص کا یہ ممکنہ بیان بیک وقت درست بھی ہے اور غلط بھی۔ درست اس لیے کہ صداقت کی تلاش اور اس کا حصول واقعتاً انسانی جدوجہد کے پس منظر میں کام کرتا نظر آتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ صداقت کے حصول سے انسانی وجود میں کس قسم کی کیفیت پیدا ہوگی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ خوشی اور اس تناظر میں کسی شخص کا یہ بیان غلط ہوجائے گا، کیونکہ انسان صداقت کی تلاش یا اس کے حصول کا متمنی بھی اس لیے ہے کہ وہ خوش رہنے کا شدید طور پر خواہش مند ہے۔
خوشی کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے جب انسان غم سے نجات حاصل کرے۔ غم کی موجودگی میں خوشی کا کوئی امکان نہیں۔ بلکہ خوشی کی ایک معمولی اور بے حد مجرد تعریف یہ بھی ہے کہ خوشی غم کے فقدان کا نام ہے۔ عام طور پر غم کو خوشی کی متضاد کیفیت کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں تہذیبِ انسانی کے ہر دور میں خوشی کو ایک مثبت اور غم کو ایک منفی قدر سمجھا اور سمجھایا گیا ہے، اس لیے غم سے بچنے اور خوشی کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے۔
تہذیب کے مختلف مظاہر خاص طور پر فنون اور ان میں خاص طور سے شعر و ادب، مصوری اور موسیقی وغیرہ کا ایک مقصد خوشی یا مسرت کا حصول بھی بتایا جاتا ہے۔ ارسطو سے لے کر اب تک ادب کی جو تنقید لکھی گئی ہے اس میں شعر و ادب کا یہ مقصد ایک مسلمہ امر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
یہاں پہنچ کر ایک بڑی دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ شعر و ادب کی تخلیق کا مرکز یا محرک خوشی نہیں بلکہ غم رہا ہے۔ دنیا کے عظیم ادبی شہ پارے غم یا دُکھ کی کوکھ سے پھوٹے ہیں۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کرب تخلیق کا سرچشمہ ہے اور اس کے بغیر کوئی بڑی تخلیق وجود میں نہیں آسکتی۔ تاہم جب کوئی فن پارہ وجود میں آجاتا ہے تو پھر اس سے خوشی یا مسرت کا حصول وابستہ ہوجاتا ہے۔ یہ بات شعر و ادب کے پورے سرمائے کے بارے میں تو کہی نہیں جاسکتی، مگر اس کے غالب حصے کے بارے میں یہی خیال عام ہے اور یہ کوئی ایسا غلط خیال نہیں ہے۔
خوشی اور غم پر ان دو چار سرسری سی باتوں کے بعد ہم اس بحث سے متعلق اہم سوالات کا رُخ کرتے ہیں، یعنی خوشی کیا ہے؟ غم کیا ہے؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ اور یہ کیفیات انسانی وجود میں کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہیں؟
ہمیں معلوم ہے کہ یہ اتنے بڑے موضوعات ہیں کہ ان پر ہر دور کے بڑے انسانوں نے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہے مگر کوئی بھی یہ مسئلہ حل نہیں کرسکا ہے۔ بقول شاعر؎
زمانہ جس قدر شرحِ محبت کرتا جاتا ہے
محبت اور مبہم اور مبہم ہوتی جاتی ہے
خوشی اور غم کے موضوعات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان پر لوگوں نے جتنا لکھا ہے اتنے ہی یہ موضوعات مبہم ہوگئے ہیں۔
تاہم ہمارے اس بیان سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ خاکسار بھی اپنا شمار دنیا کے بڑے لوگوں میں کرتا ہے، اس لیے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کے ذریعے ان موضوعات کی اُلجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے میرا ذہن ابھی تک اس طرح کے احمقانہ خیالات سے بالکل پاک ہے۔ ویسے بھی بڑے آدمی کے معنی آج تک میری سمجھ میں نہیں آئے ہیں۔ البتہ ان موضوعات پر لکھنے کا ایک اخلاقی جواز میرے پاس ضرور ہے اور وہ یہ کہ نسلِ انسانی کے ایک فرد کی حیثیت سے جو تجربے اور مشاہدے مجھے حاصل ہوئے ہیں اور ان تجربوں اور مشاہدوں سے جو خیالات اور تعصبات میرے اندر پیدا ہوئے ہیں ان میں نوعِ انسانی کے دوسرے افراد کو اپنا شریک بنائوں خواہ یہ خیالات اور تعصبات کتنے ہی حقیر کیوں نہ ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ محمد حسن عسکری مجھ سے پہلے یہ بات کہہ کر چلے گئے ہیں۔
اب ذرا بیدار ہوکر غور کیجیے کہ جب آپ خوش ہوتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ہلکا پھلکا، بھرا بھرا اور Elevated سا۔ ایسی صورت میں پورا ماحول مانوس مانوس اور آس پاس کی چیزیں واضح اور بامعنی سی لگتی ہیں۔ اور جب آپ غم زدہ ہوتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟ بوجھل بوجھل، اندر سے خالی خالی اور گرا گرا سا۔ ایسے میں پورا ماحول اجنبی اجنبی، چیزیں اور احساسات غیر واضح اور بے معنی سے لگتے ہیں۔ اچھا اب ذرا غور کیجیے کہ جب آپ خوش ہوتے ہیں تو اس کا محرک کیا ہوتا ہے؟ امتحان میں کامیابی، بڑے عہدے پر ترقی، آپ کی پسندیدہ چیز کا حصول، کسی کھوئی ہوئی چیز کا مل جانا، کسی کی جانب سے آپ کی کی گئی تعظیم، توقیر یا تعریف۔ آپ گہرائی میں جاکر غور کریں گے تو ان تمام صورتوں میں آپ کی ذات کی قبولیت (Acceptance) کا پہلو نظر آئے گا۔ آپ کی ذات کی قبولیت کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی ذات کی موجودگی کو تسلیم کیا گیا اور اس کی گواہی دی گئی۔
اب ذرا غور فرمائیے کہ جب آپ غم زدہ ہوتے ہیں تو اس کیفیت کے محرکات کیا ہوتے ہیں؟ کسی تعلق کا ٹوٹ جانا، کوئی نقصان، کوئی معاشرتی یا معاشی ناکامی وغیرہ… اگر آپ ان تمام صورتوں پر غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ ان میں آپ کی ذات کی عدم قبولیت، تردید یا تکذیب کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور شامل ہوگا۔ اس پس منظر میں خوشی، قبولیتِ ذات اور غم عدم قبولیتِ ذات کے احساس کا نام ہے۔
اس تعریف کو اگر صرف معاشرتی، نفسیاتی اور جدید فلسفیانہ پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت سمجھنا مشکل ہے، اور اگر سمجھ بھی لی تو یہ پوری معنویت نہیں ہوگی۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نزدیک قبولیت اور عدم قبولیت کا احساس ایک بہت بڑے کائناتی واقعے یا حادثے سے منسلک ہے۔
عدم قبولیت کا احساس دراصل حضرت آدم کی نافرمانی کے نتیجے میں انہیں جنت سے زمین پر اُتار دینے کے احساس ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ وہ پہلا واقعہ یا حادثہ تھا جس نے انسان کو اس کے حقیقی اور فطری ماحول سے نکال کر غیر فطری ماحول کا حصہ بنادیا۔ یہ وہ سزا تھی جس کی اذیت نے انسانی روح میں خوف، دہشت اور وحشت کی ہزاروں صورتوں کو جنم دے کر اسے قیامت تک نہ ختم ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کا شکار بنادیا۔ تاہم بعد میں حضرت آدم کی توبہ قبول کرلی گئی۔ یہ قبولیت دراصل قبولیتِ ذات ہی کی صورت تھی۔ قبولیتِ ذات کی اس صورت نے انسانی ذات کو اس کا کھویا ہوا اطمینان اور مسرت لوٹائی، البتہ قبولیتِ ذات سے حاصل ہونے والی مسرت عدم قبولیت کے احساس سے پیدا ہونے والے خوف کو پوری طرح ختم کرنے میں ناکام رہی اور جنتِ گم گشتہ کی یاد اور اسے کھو دینے کا دکھ انسانی روح کی کبھی نہ ختم ہونے والی کسک بن گیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک انسان کو جس مرحلے پر بھی قبولیت ِذات کا احساس ہوتا ہے اسے مسرت ہوتی ہے، اور جہاں اسے عدم قبولیت کے احساس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے غم ہوتا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے ہماری اس رائے کو قبول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ البتہ جدید فکر سے متاثر کچھ حضرات کو اس پر اعتراض ہوگا۔ ان کے اعتراض کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کا کوئی احساس لاکھوں یا کروڑوں سال تک سفر کرتا ہوا کس طرح ہم تک آسکتا ہے؟ یعنی وہ کیفیات جو حضرت آدم میں پیدا ہوئی تھیں وہ ہم تک کس طرح منتقل ہوسکتی ہیں؟ عرض یہ ہے کہ جدید عہد کے بے شمار ماہرینِ حیاتیات اور مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کی بے شمار جسمانی حرکات و سکنات یا تو اس کے لاکھوں سال پہلے کے بزرگوں کی حرکات و سکنات جیسی ہی ہیں یا ان کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی جبلتیں ہزاروں لاکھوں سال کے عمل سے گزرنے کے باوجود اور ارتقا حاصل کرنے کے باوصف آج تک اپنے بنیادی جوہر سے محروم نہیں ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر مختلف انسانی حرکات و سکنات اور جبلتیں صدیاں گزرنے کے باوجود بھی برقرار رہ سکتی ہیں تو پھر وہ کیفیات کیوں برقرار نہیں رہ سکتیں جو انسان کے زوال اور پھر اس کی توبہ کے نتیجے میں اس کے اندر پیدا ہوئی ہیں!
اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم انسانی فطرت میں کام کرنے والے ایک مستقل رجحان کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ رجحان یہ ہے کہ انسان کو اپنے کسی چھوٹے تجربے سے اسی نوعیت کا کوئی بڑا تجربہ یاد آتا ہے۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ اسے اپنے کسی بڑے تجربے سے اسی نوعیت کا کوئی سابقہ چھوٹا تجربہ یاد آئے۔ البتہ کچھ صورتوں میں یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے تجربے کی ہولناکی یا خوشگواری سابقہ بڑے تجربے کی ہولناکی یا خوشگواری کی یاد سے بڑھ جاتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کو حاصل ہونے والی خوشی یا غم اس کے چھوٹے تجربے کا نتیجہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ کسی چھوٹے تجربے کے نتیجے میں کسی بڑے سابقہ تجربے سے حاصل ہونے والے خفتہ احساسات بیدار ہوجاتے ہیں، اور یوں چھوٹے تجربے کی خوشگواری یا تکلیف کو بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ایک لاشعوری عمل ہوتا ہے جس کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوپاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ غم اور خوشی کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ سوال غم اور خوشی کی نوعیتِ وقوع کے سوال سے مربوط ہے۔ اس لیے ہم پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ دونوں کیفیات انسانی ذات میں کس قسم کی نوعیتِ وقوع رکھتی ہیں؟
غم دراصل انسانی ذات میں پیدا ہوجانے والی عدم تنظیم یا انتشار کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسانی ذات میں پہلے سے موجود کیفیات کے نظام کو کچھ وقت کے لیے درہم برہم کردیتی ہے۔ اس کے برعکس خوشی انسانی ذات میں پیدا شدہ انتشار میں ایک تنظیم پیدا کرنے کا عمل ہے۔ ایسی تنظیم جو اکائی کی صورت کے مماثل ہے۔ انتشار میں ایک بے یقینی کی کیفیت مضمر ہوتی ہے، جبکہ تنظیم میں ایک یقین کا عنصر کارفرما ہوتا ہے۔ اس حوالے سے خوشی اور غم انسانی وجود میں ایک جدلیاتی صورتِ حال پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، جس سے مختلف جذبوں میں کثافت اور لطافت کی بے شمار شکلیں پیدا ہوتی ہیں اور انسانی وجود ہر بار ایک نئے آہنگ سے ہم کنار ہوتا ہے۔
غم سے پیدا ہونے والا انتشار اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ انسانی ذات میں احساسات و جذبات اور خیالات کا ایک نیا نظام پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اگر آپ کسی عمارت سے ایک اور نئی عمارت بنانا چاہیں گے تو اس کے لیے لازم ہوگا کہ آپ اس عمارت کو توڑ دیں اور پھر اسی کے ملبے سے نئی عمارت تعمیر کریں۔ غم انسانی ذات میں بنے ہوئے احساسات و جذبات اور خیالات و تیقنات کے نظام کو توڑ کر اس کے ملبے سے خیالات اور احساسات کی ایک نئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اسی لیے غم تخلیق کا سرچشمہ کہلانے کا صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ تاہم یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ غم کسی نئی تخلیق یا تعمیر کا سبب اُسی وقت بنتا ہے جب انسانی ذات میں کوئی مرکز موجود ہو۔ اگر انسانی ذات میں کوئی مرکز موجود نہ ہو تو انسان غم کے نتیجے میں مکمل انتشارِ خیال کا شکار ہوکر پاگل ہوجائے گا، مرجائے گا۔ یہ مرکز ایک مقناطیس کا کام انجام دیتا ہے جو انسانی ذات کے مختلف اجزاء کو مسلسل ایک دائرے میں گردش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب یہ اجزاء اس مرکز کے دائرے سے نکل جاتے ہیں تو بے کار شے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح مختلف ستارے ٹوٹ کر اپنی کشش کے دائرے سے نکل کر فضا میں آتے ہیں تو جل کر بجھ جاتے ہیں۔ یہ مرکز کوئی اعلیٰ مثبت قدر بھی ہوسکتی ہے، کوئی عقیدہ یا کوئی بڑا جذبہ بھی۔
اس کے برعکس چونکہ خوشی ایک تنظیم پیدا کرنے کا کام انجام دیتی ہے اسی لیے خوشی دراصل ایک خاص کیفیت میں منحصر ہونے کا نام بھی ہے اور کسی خاص کیفیت میں منحصر ہونے کے بعد انسانی ذات میں جدلیاتی عمل اور اس حوالے سے تخلیق کا عنصر کم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب کے مختلف مظاہر کے ارتقاء میں غم کا حصہ خوشی کے حصے سے بہت زیادہ ہے۔
غم کا حصہ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ عدم قبولیت کا احساس انسان کو فراوانی کے ساتھ میسر ہے۔ جبکہ قبولیت کا احساس انسان کو زندگی میں بہت کم حاصل ہوتا ہے۔ ویسے بھی انسان کی حیاتیاتی، نفسیاتی اور جذباتی ساخت میں موجود فطری مجبوریاں یا محدودات اسے خوشی سے زیادہ غم سے قریب رکھتی ہیں۔
اس بحث کے پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غم کو منفی قدر یا منفی جذبہ سمجھنے کا رجحان ایک بے معنی بات ہے۔ تاہم یہ الگ سوال ہے کہ غم کو منفی جذبہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ہم اس سوال کے جواب پر پھر کبھی بحث کریں گے۔ فی الحال اس سلسلے میں صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ غم ایک منفی جذبہ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ انسان کی ذات کے اندر کوئی مرکز موجود نہ ہو۔ تاہم مرکز کی عدم موجودگی میں غم کیا خوشی بھی ایک منفی قدر بن کر رہ جائے گی۔
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا غم سے نجات پانا ممکن ہے؟ اوّل تو اس بحث کے پس منظر میں یہ سوال ہی بے معنی ہے، کیونکہ ہم نے غم کو کوئی منفی جذبہ قرار نہیں دیا ہے۔ تاہم چونکہ یہ سوال ایک خاص پس منظر میں بہرحال اٹھایا جاتا ہے اس لیے جواباً عرض ہے کہ غم سے نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، سوائے اس صورت کے کہ ہم غم کو ایک فطری عنصر کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ غم کو قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے آپ نے زندگی کے ایک لازمے کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد غم میں بھی نشاط کی ایک زیریں لہر پیدا ہوجاتی ہے۔ دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اردو کی شاعری میں جہاں جہاں نشاط کی کوئی کیفیت زیریں لہر کے طور پر شعروں میں نظر آتی ہے وہ غم کو ایک فطری اور انسانی جذبہ قبول کرلینے ہی کا نتیجہ ہے۔
غم اور خوشی کے حوالے سے کئی اور ایسے سوالات موجود ہیں جن پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ جو دونوں کیفیات کے سلسلے میں ہماری زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں تو ان الفاظ کی کیفیتوں کو بیان کرنے کے لیے غم، رنج، افسوس، ملال، دکھ اور کرب وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح خوشگوار کیفیتوں کے اظہار کے لیے خوشی، مسرت اور نشاط کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کے درمیان کیفیات کے اعتبار سے کیا فرق پایا جاتا ہے؟ کبھی وقت ملا تو اس پر بھی گفتگو کریں گے۔ اُس وقت تک آپ ذرا ان الفاظ کو دہرا کر ان کی صوتیات کے درمیان موجود فرق کو محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوشی اور مسرت اور غم اور دکھ کو دس دس مرتبہ دہرائیں… مگر ذرا اکیلے میں جہاں کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے۔ کسی نے دیکھ لیا تو وہ آپ کو پاگل سمجھے گا، حالاں کہ ہوگا اس کے برعکس۔
محبت اور مفاد ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت اپنی پست ترین سطح پر بھی مفاد نہیں بن سکتی، اور مفاد اپنی بلند ترین سطح پر بھی محبت میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ تجزیہ کیا جائے تو محبت کا سب سے بڑا مفاد خود محبت ہے۔ لیکن آج ہمیں یہ باتیں کیوں یاد آئیں؟ اس کی وجہ ایک صاحب کے کالم میں شائع ہونے والا وہ خط ہے جو کینیڈا کے ایک بھارتی نژاد شہری نے تحریر کیا ہے۔
بھارت کے سابق اور کینیڈا کے موجودہ شہری نے لکھا ہے کہ وہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔ اس کے بقول اگرچہ وہ ریٹائر ہوچکا ہے تاہم کینیڈا کی حکومت اسے اتنی معقول رقم فراہم کررہی ہے کہ اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی کام کی ضرورت نہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اگر میں خدانخواستہ بیمار پڑ جائوں تو کینیڈا کی حکومت مجھے فلاں فلاں سہولتیں فراہم کرے گی۔ کینیڈا کے شہری کے مطابق اگر وہ معذور ہوگیا تو کینیڈا کی حکومت اس پر مزید مہربان ہوجائے گی اور اس کی دیکھ بھال کے لیے اسے ایک آدمی مہیا کیا جائے گا۔ اس طرح کی کئی مزید سہولتوں کا ذکر کرنے کے بعد بھارتی نژاد شخص نے لکھا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں تو حکومتیں ریٹائرڈ لوگوں کو پنشن بھی ذلیل کرکے دیتی ہیں۔ چناں چہ اس نے لکھا ہے کہ اس صورت میں ’’وطن سے محبت‘‘ کی بات ایک ڈھکوسلے کے سوا کیا ہے؟ یعنی کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک زندہ باد… اور بھارت و پاکستان مُردہ باد۔
مغربی ممالک مادی معنوں میں فلاحی ریاستیں ہیں۔ اس سلسلے میں تین تاریخی عوامل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے کا پہلا عامل صنعتی انقلاب ہے۔ صنعتی انقلاب نے معاشرے کی پیداوار میں اہلیت کو بہت بڑھا دیا۔ اس کے نتیجے میں دولت کی افزائش کی نئی صورتیں پیدا ہوگئیں اور معاشرے میں معاشی خوشحالی کا تجربہ عام ہوا۔ یورپ کے صنعتی انقلاب نے نئی منڈیوں اور خام مال کی ضرورت کو بڑھا دیا۔ ان دو تقاضوں نے یورپی اقوام کو اس بات پر مائل کیا کہ وہ عسکری لحاظ سے کمزور قوموں پر چڑھ دوڑیں اور انہیں اپنا غلام بنالیں۔ یورپی اقوام نے یہی کیا۔ نوآبادیاتی تجربے نے تمام یورپی اقوام کو نئی منڈیاں بھی فراہم کیں، خام مال بھی مہیا کیا، اس کے ساتھ ساتھ یورپی اقوام نے غلام قوموں کے مالی وسائل کو بھی لُوٹا۔ چناں چہ یورپی اقوام کے مالی معاملات مزید بہتر ہوگئے۔ لیکن ان تاریخی عوامل نے یورپی معاشروں میں امارت کا نیا تجربہ تو خلق کیا مگر ان عوامل کی وجہ سے یورپی ریاستیں پوری طرح فلاحی نہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں یورپ کو جو مسائل درپیش تھے انہیں کمیونزم کے خطرے نے حل کردیا۔ کمیونزم 1917ء کے بعد ایک انقلابی قوت بن کر سامنے آچکا تھا اور اس کے اثرات تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے۔ چناں چہ مغربی ممالک کو خدشہ ہوا کہ یورپ ان کے ہاں بھی بغاوت کا تجربہ خلق نہ کردے۔ اس خطرے کو روکنے کے لیے انہوں نے محنت کشوں کی مراعات میں اضافہ کیا۔ ان کے اوقاتِ کار مقرر کیے، ان کے لیے پنشن اور دوسری رعایتیں ’’ایجاد‘‘ کیں۔ مغرب کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور مغرب کا بڑا حصہ کمیونزم کے خطرے سے محفوظ رہا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو تیسری دنیا کے اکثر ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ وہاں اب تک صنعتی انقلاب برپا ہوا ہے، نہ تیسری دنیا کے ممالک ابھی تک اپنی ’’کالونیاں‘‘ ایجاد کرسکے ہیں، اور نہ اب دنیا کو کمیونزم کے خطرے کا سامنا ہے۔ چناں چہ تیسری دنیا کے ممالک ’’چاہیں‘‘ بھی تو مغرب کے ممالک کی طرح فلاحی ریاستیں نہیں بن سکتے۔ چناں چہ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کا مغرب کے کسی بھی ملک سے موازنہ کرنا بددیانتی ہی نہیں، بڑی جہالت بھی ہے۔ لیکن اس حوالے سے زیادہ بڑا مسئلہ کچھ اور ہے۔
انسان کی پرورش میں تین اداروں خاندان، معاشرے اور ریاست کا کردار بنیادی ہے۔ خاندان اور معاشرہ فرد کو محبت، تعلیم و تربیت، ذہنی و نفسیاتی تحفظ، اقدار اور تشخص فراہم کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے بغیر کوئی انسان، انسان نہیں بن سکتا۔ ریاست فرد کی تعلیم و تربیت کے لیے اور کچھ نہیں تو وسائل ضرور مہیا کرتی ہے۔ لیکن تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں جب کوئی شخص ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی کا ماہر، تجارتی امور کا ماہر یا کچھ اور بن جاتا ہے تو وہ صرف بہتر معاشی مستقبل کے لیے خاندان کو بھی چھوڑ دیتا ہے، معاشرے کو بھی ترک کردیتا ہے اور ریاست کو بھی خدا حافظ کہہ دیتا ہے۔ یہ بجائے خود ایک ’’بڑی غداری‘‘ ہوتی ہے، لیکن بعض لوگ اس غداری پر اکتفا نہیں کرتے، وہ مغربی ممالک میں ’’آباد‘‘ ہوتے ہی اپنے خاندان، معاشرے اور ریاست کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کی برائی کرنے لگتے ہیں۔ یہ مفادات کے محبت پر مکمل طور پر غالب آجانے کا عمل ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ اخلاق۔ اس کے پاس نہ کوئی تاریخی تجربہ ہے اور نہ ثقافت کا گہرا شعور و احساس۔ ایسا فرد دنیا کی شرمناک ترین مخلوق ہوتا ہے، مگر اسے اپنے شرمناک بن جانے کا احساس نہیں ہوتا اور وہ اپنے نئے تشخص پر فخر کرتا ہے۔ اب تجربے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ پالنے پوسنے کی ذمے داری تو خاندان اور انسان کے آبائی معاشرے اور ملک کی ہے لیکن جب انسان دنیا کو فیض پہنچانے کے لائق ہوتا ہے تو وہ کسی اور معاشرے اور کسی اور ریاست سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ ہماری زندگی کا ایک حصہ جانوروں کو قریب سے دیکھنے میں گزرا ہے، اور اس تجربے کی بنیاد پر ہمیں یہ معلوم ہے کہ جانور بھی انسانوں کی محبت، احسان اور خبر گیری کو پہچانتے ہیں اور وہ ان چیزوں کے جواب میں محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کتا پیروں میں بیٹھنے لگتا ہے، انسان کو چومنے چاٹنے لگتا ہے۔ بھینسیں اور گائیں اظہارِ ممنونیت کے طور پر اپنے مالک کو چاٹنے لگتی ہیں۔ لیکن انسان اتنا سفاک ہے کہ جب وہ ’’بڑا‘‘ ہوجاتا ہے تو اپنے اصل اور بنیادی ماحول کو ’’گالی‘‘ دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے خاندان، میرے معاشرے اور میری ریاست کے پاس ہے ہی کیا! تجزیہ کیا جائے تو یہ ہمہ جہت نمک حرامی کی انتہا ہے، مگر اس انتہا کا مشاہدہ اور تجربہ اب عام ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک نے تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کو اپنا سیاسی، عسکری، معاشی اور ذہنی غلام بنایا ہوا ہے اور اس نے مسلم دنیا پر ایک ایسا حکمران طبقہ مسلط کیا ہوا ہے جس کا نہ اپنے مذہب سے کوئی تعلق ہے، نہ اس کو اپنی تہذیب سے کچھ لینا دینا ہے، نہ اسے اپنی تاریخ سے کوئی واسطہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس مسلم دنیا کو مادی اعتبار سے ترقی یافتہ بنانے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ طبقہ نااہل بھی ہے اور بدعنوان بھی۔ اسلامی تحریکیں موجودہ حکمران طبقے سے ہزار گنا زیادہ بہتر متبادل ہیں مگر مغرب ہر جگہ ان تحریکوں کو دبا رہا ہے، کچل رہا ہے۔ لیکن یہ حقائق مغرب میں جاکر آباد ہونے والے اکثر احمقوں کو نظر نہیں آتے۔ بلاشبہ مغرب کی مادی ترقی غیر معمولی ہے، مگر اب اس سلسلے میں بھی مشرقی اقوام کو مغربی اقوام پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے۔ مغرب نے جو مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں تخلیق کی، چین نے وہ ترقی تیس پینتیس سال میں کر دکھائی ہے۔ چین یہ کام کرسکتا ہے تو بھارت اور پاکستان بھی یہ کام کرسکتے ہیں، اور اپنے لوگوں کو مادی مراعات فراہم کرسکتے ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ چین نے تیس پینتیس سال میں جو معاشی ترقی کی ہے وہ دنیا کو اپنی کالونی بناکر اور اس کے وسائل لوٹ کر نہیں کی۔