ایک عینی شاہد نوجوان کی آنکھوں دیکھی روداد
پاکستان کیوں ٹوٹا؟ یہ سوال 16دسمبر کو ضرور اٹھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی اس دن کا ذکر ہوتا ہے ہمیں یہ بات یاد آتی ہے کہ اتنا بڑا قومی سانحہ ہوگیا لیکن کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ کسی مجرم کا تعین ہوا اور نہ سزا۔ شاید اس کے اصل مجرم بہت طاقت ور تھے۔ لیکن جو بھی ہو، یہ حُبِّ وطن اور دردِ دل رکھنے والے لوگوں کے لیے المناک، سیاہ اور خون آلود دن ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب عسکری، سیاسی، معاشی، جغرافیائی اور عالمی تھے؟ یا ان کے علاؤہ بھی کچھ محرکات تھے؟ یہ سوال بھی اہم ہیں۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا لیکن آج تک ہم اس بات کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے کہ اس المیے میں کتنی جانوں کا نقصان ہوا اور کیا کیا کھویا؟ اور کیا ہم نے اس سے کچھ سیکھا؟
اس سانحے کا غم اور الم خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے زیادہ گہرا ہے جو ان فسادات سے متاثر ہوئے۔
ایسے لوگوں کے لیے سقوطِ ڈھاکہ کی یادیں بڑی تلخ، غم ناک اور دل فگار ہیں، اور انہیں بیان کرنا بھی کچھ آسان نہیں ہے۔
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بیان کیا گیا ہے اور لکھا اور بیان کیا جاتا رہے گا۔ کئی عینی شاہدین نے آنکھوں دیکھا حال اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ کسی جرنیل نے بیان کیا تو عسکری اسباب و کوتاہی کا معلوم ہوا، سیاست دانوں نے سیاسی وجوہات اپنے اپنے انداز میں بیان کی ہیں، دانش وروں اور مورخین نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں لکھا گیا اور کچھ نہیں بولا گیا۔
اس انٹرویو میں ڈاکٹر جاوید احمد ملک کی کتھا ہے، جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، لیکن اس انٹرویو میں انہوں نے کئی اہم واقعات کا بے باکی کے ساتھ تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید ملک کی کہانی جو انہوں نے پہلی بار بیان کی ہے، اس میں انہوں نے جو کچھ دیکھا اور جو ان پر بیتی وہ موجود ہے۔ اس کہانی میں درد اور تکلیف کے ساتھ وہ عسکری و سیاسی عوامل بھی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ایک بازو ٹوٹ گیا۔ انٹرویو کا پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
سوال:سب سے پہلے ہمیں اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں کہ کہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی، اردگرد کا ماحول کیسا تھا؟
جواب: میں ہندوستان کے صوبہ بہار میں اپنے نانا کے گائوں بھنڈاری میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب مشرقی پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ کچھ دنوں بعد ہم بھی والدہ کے ساتھ مغربی پاکستان ہجرت کر آئے۔ بچپن کے دور کی جو بات مجھے یاد ہے وہ یہ کہ ہم تین چھوٹے چھوٹے بھائی تھے۔ ہمارا گھر ڈھاکہ کے مشہور علاقے میں تھا جہاں بیت المکرم ہے۔ غالباً1958ء کی بات ہوگی جب مکرم مسجد نہیں بنی تھی۔ وہاں سروس روڈ اور فٹ پاتھ بہت بڑے بڑے ہوا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں فوجی بھاری ہتھیاروں کے ساتھ چالیس پچاس قدم کے فاصلے پر کھڑے رہتے تھے۔ اس وقت ہمارا ایک بھائی جو ہم سے چھوٹا تھا، گم ہوگیا۔ وہ ابتدائی زندگی تھی۔ اس کے بعد میرے والد صاحب نے سی ایس ایس کا امتحان ایسٹ پاکستان سروسز سے پاس کیا اور انہیں وہیں ملازمت مل گئی۔ ہم لوگ کچھ دن ڈھاکہ میں رہے، اس کے بعد والد صاحب کا ٹرانسفر ہوگیا۔ تعلیم کے لیے ہمیں بنگالی زبان سیکھنا پڑی اور ہم نے بنگالی میڈیم اسکول میں داخلہ لیا۔ والد صاحب کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا اور وہاں کے شہروں کا زیادہ تو پتا نہیں مگر چند نام جو یاد ہیں ان میں فرید پور، میمن سنگھ اور سلہٹ کا بہت مشہور ضلع مولوی بازار، چٹاگانگ کا ایک پہاڑی ضلع یاد ہے، وہاں ہم رہے۔ اس طرح سے زندگی چلتی رہی اور بالآخر 1968ء میں آٹھویں جماعت سے فارغ ہوکر نویں جماعت میں ہم باریسال شہر آگئے جو مولوی فضل الحق کا شہر کہلاتا ہے۔ انہوں نے بھی وہیں سے میٹرک کیا تھا۔
وہاں کے ڈسٹرکٹ اسکول بہت بڑے اور بہت اچھے ہوا کرتے تھے جہاں کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور تمام سرکاری ملازمین کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں تعلیم اور بود و باش کے لحاظ سے بہت اچھا ماحول تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مجھے گھر والوں نے کسی کام سے والد صاحب سے ملنے ڈھاکہ بھیجا۔ اُس وقت بس یا ٹرین کی کوئی سروس نہیں تھی، اسٹیمر یعنی دریائی کشتی کے ذریعے راستہ تھا۔ ہم اسٹیمر میں بیٹھے ہوئے تھے، اُس زمانے میں مجھے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ میں ایک جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا۔ مجھے اپنی سیٹ سے اٹھ کر واش روم جانا پڑا۔ واپس آیا تو دیکھا کہ میرے ناول کا ایک صفحہ ایک مولوی صاحب… جن کا میرے ساتھ ہی بیڈ لگا ہوا تھا… کے پاس تھا۔ مجھے شرمندگی ہوئی تو میں ان سے مانگے بغیر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ انہوں نے مجھے میرے والد صاحب کے نام سے پکارا۔ چوں کہ میرے والد صاحب اپنے ضلع میں جماعت اسلامی کے رکن تھے لہٰذا وہ انہیں جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے پکارا کہ تم فلاں کے بیٹے ہو، اور دوسری بات یہ کہ اردو میں پکارا تو میں نے کہا کہ جی! میں انھی کا بیٹا ہوں۔ اور یوں گفتگو کا آغاز ہوا۔ ہمارا یہ سفر ڈھاکہ تک ایک ساتھ ہوا، اور جب ہم ڈھاکہ پہنچے تو انہوں نے ہماری بڑی مدد کی، اور اس طرح میری ذاتی طور پر پہلی ملاقات جمعیت اور جماعت کے لوگوں سے اس طرح سے ہوئی۔ جب میں گھر واپس آیا تو ایک دن میرے گھر پر ایک صاحب آئے۔ میرا نام جاوید ہے لیکن بنگالی میں ”وائو“ نہیں ہوتا بلکہ”بھ“ہوتا ہے، لہٰذا وہ ”جابھید، جابھید“ کرکے پکار رہے تھے۔ خیر میں باہر نکلا تو انہوں نے جمعیت کا فارم مجھے دیا جو میں نے بھر دیا، اور اس طرح جمعیت کا رکن بن گیا۔ اس کے بعد میں نے اسکول میں جمعیت کا کام شروع کردیا۔
سوال: سیاسی ماحول کی کیا یادیں ہیں؟
جواب:اُس وقت سیاسی تحریکیں بہت سرگرم ہوا کرتی تھیں اور پورے مشرقی پاکستان میں اسکول کی سطح پر بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہتی تھیں۔ میری کلاس میں بہت سے لوگ تھے جو نہ صرف عوامی لیگ کے تھے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی وابستہ تھے۔ ہم چار دوستوں میں سے ایک لڑکا بہت ہی زیادہ ذہین اور تیز تھا جو کہ بنگالی میں ایسی شاندار تقریر کرتا تھا کہ بڑے سے بڑا مجمع اس کے لیے رُک جاتا تھا۔ وہ سیاست میں بہت ہی زیادہ دلچسپی لیا کرتا تھا، جبکہ دو دوستوں کے والد صاحبان بہت اچھے آدمی تھے اور نظامِ اسلام پارٹی کے رکن بھی تھے۔ وہاں پچاس ایکڑ زمین بھی اُس وقت کسی کے پاس نہیں تھی مگر وہ خاصے صاحبِ ثروت تھے۔ ان کے گھروں میں اردو پڑھی بھی جاتی تھی۔ یعنی انتہائی نفیس لوگ تھے۔ ہم چار دوستوں میں سے ایک دوست شیخ مجیب الرحمٰن سے بہت متاثر تھا۔ ہمارے کالج میں دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے وہ غائب ہوگیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان چلا گیا تھا جہاں سے ٹریننگ وغیرہ لی۔ 1968-69ء میں ہم اسکول میں سیاسی طور پر بہت سرگرم رہے تھے اور جلسے جلوسوں وغیرہ میں شرکت کیا کرتے تھے۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی الیکشن کے موقع پر جماعت اسلامی کے ساتھ جمعیت نے مل کر بہت زبردست مہم چلائی تھی۔ میں نے اسی دور میں میٹرک پاس کیا تھا۔
اس موقع پر بتاتا چلوں کہ لوگوں میں یہ بہت غلط تاثر ہے کہ پورے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا بہت زیادہ اثر تھا۔ کل ہی انٹیلی جنس کے کسی صاحب سے سنا، وہ بتا رہے تھے کہ 1970ء کا الیکشن بہت صاف ستھرا ہوا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ میں تو اس وقت وہاں موجود تھا اور میٹرک میں زیر تعلیم تھا، جماعت اسلامی کے جن صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ ہمارے امیر تھے، اور آپ سنیں تو شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اسکول کے بچوں نے دو، دو سو ووٹ وہاں ڈالے تھے، اس کے باوجود عوامی لیگ کے نمائندے کو پچاس ہزار ووٹ ملے تھے اور ہمارا نمائندے نے 35یا 36ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
سوال: الیکشن کے بعد کیا ہوا؟
جواب:الیکشن ہوا اور اس کے بعد ایک طرف پیپلز پارٹی اور دوسری طرف عوامی لیگ آگئی، اور یہ پورا دور ہم دیکھتے رہے۔ 23مارچ کو ڈھاکہ میں اسمبلی کی کال دی گئی لیکن پھر کسی وجہ سے، یا شاید اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے 23 مارچ کی اسمبلی کی کال غیر معینہ مدت تک موخر کردی گئی۔ یہ ایک غیریقینی صورتِ حال تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ڈھاکہ میں ایم سی سی کے میچ ہورہے تھے اور انگلینڈ کی ٹیم اُس وقت ایم سی سی کی ٹیم کہلاتی تھی اور میچ تھا پاکستان کے ساتھ۔ میچ خراب ہوگیا، لوگوں نے وکٹیں وغیرہ اکھاڑ دیں۔ یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس بارے میں یہ میرا ذاتی خیال ہے، ہوسکتا ہے کہ غلط ہو۔ میں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں جو زندگی گزاری ہے اور جو حالات دیکھے ہیں، مطالعہ کیا ہے اور ذاتی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے اس بنیاد پر یہ بات کررہا ہوں۔
الیکشن بہرحال ہوگیا اور 23مارچ کی اسمبلی کی کال موخر کی گئی تو ایک کشمکش کی صورتِ حال پیدا ہوئی اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ معاملات خراب ہوتے ہوتے فوجی ایکشن کی نوبت آگئی اور اکتوبر میں مارشل لا لگ گیا۔ میرے خیال میں یہ کوئی اچھی صورت نہیں تھی۔ ہم چونکہ بنگلہ جانتے تھے وہاں رہے تھے اور بنگالیوں سے بھی ہماری دوستی تھی بلکہ سارا محلہ ہی بنگالی تھا اور جو کچھ ہم سمجھتے ہیں اس کے مطابق فوجی ایکشن قطعی طور پر درست نہیں تھا بلکہ بیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہیے تھے، مگر افسوس وہ نہ ہوسکے۔ فوجی ایکشن کے وقت معاملہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں فاصلہ زیادہ تھا اور مغربی پاکستان نے اپنی فوج کا اتنا بڑا حصہ مشرقی پاکستان میں نہیں رکھا تھا بلکہ بہت مختصر سی فوج وہاں موجود تھی مثلاً ایسٹ پاکستان رائفلز تھے اور باقی تقریباً پندرہ سے بیس ہزار ریگولر فوج تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اسلحہ اور ائرفورس کے لحاظ سے بھی صورتِ حال اچھی نہیں تھی۔ وہاں سیور کے سوا کوئی جہاز موجود نہ تھا جس کی رفتار پانچ سو سے چھ سو میل فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں، جبکہ انڈیا کے پاس اس وقت موجود مگ 28کی رفتار 28 سو سے 29سو میل فی گھنٹہ تھی، یعنی کسی طرح کا موازنہ ہی نہیں تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ فوج کی وجہ سے نہیں بلکہ بنگالیوں اور اردو بولنے والوں کی وجہ سے ہم نو مہینے تک مزاحمت کرسکے، ورنہ پوری اسٹیبلشمنٹ کا تو یہی خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کو الگ کردینا چاہیے۔ بالآخر سقوطِ ڈھاکہ ہوگیا۔
سوال:جب سقوط ہوا تو آپ کہاں تھے؟
جواب:سقوطِ ڈھاکہ کے وقت میں باریسال میں تھا۔ میٹرک کا امتحان ہوچکا تھا۔ البدر کے اندر ہم میڈیکل کالج کے دس پندرہ، کچھ یونیورسٹی اور اسکول کے طالب علم تھے۔ کُل ملا کر پچیس لوگ تھے جنہوں نے البدر قائم کی تھی۔ ہوا یہ کہ چونکہ میرے والد صاحب الیکشن میں بہت زیادہ متحرک رہے تھے اس لیے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر انہیں ملازمت سے معزول کردیا گیا، نتیجتاً ان کی تنخواہ آدھی کردی گئی جس کے سبب گھر کی گزربسر مشکل ہوگئی، لہٰذا والد صاحب ڈھاکہ چلے گئے تاکہ نئی ملازمت تلاش کرسکیں۔ وہاں پر ان کی ملاقات خرم صاحب سے ہوئی، چونکہ اُن سے تعلقات اچھے تھے لہٰذا ملازمت کے لیے بھی کہہ دیا تھا۔ ہم تین بھائی وہیں باریسال میں ہوا کرتے تھے۔ وہاں میری والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی، جس میں دورانِ زچگی میری بہن کی موت بھی واقع ہوگئی۔ والد صاحب سے تنخواہ لینے جانا تھا جس کے لیے میں نے آٹھ یا نو دسمبر کو سفر شروع کیا، میں اسٹیمر پر ڈھاکہ کی جانب روانہ ہوا ہوں اور پیچھے سے سقوط کا عمل شروع ہوچکا ہے، یعنی خود باریسال میں گیارہ تاریخ کو فوج سب اسلحہ وغیرہ چھوڑ کر روانہ ہوگئی اور اس روانگی میں اُس کے ساتھ بڑا برا حال ہوا۔ بہت سارے لوگ پکڑے گئے۔جمعیت کے لڑکوںنے جن میں تمام بنگالی تھے.. ایک ہمارے سوا، ہم اردو بولنے والے تھے.. انہوں نے فوج کے کیمپ کا کنٹرول سنبھالا جہاں اسلحہ اور غذا وافر مقدار میں تھی، اور دسمبر کی چوبیس، پچیس تاریخ تک اس شہر کی مکتی باہنی سے حفاظت کی۔ جب ڈھاکہ پہنچا تو اُس وقت مجھے اس بات کا کامل یقین ہوچکا تھا کہ سقوط ہوچکا ہے، مگر ہمارے بہت سے رشتے دار خاصے جذباتی تھے اور کہتے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔
سوال: یعنی پاکستانی فوج کا اسلحہ اور کھانے پینے کی اشیاء استعمال کرکے اسلامی جمعیت طلبہ یا البدر کے مجاہدین نے مزاحمت کی؟
جواب:جی ہاں! بیس سے پچیس لوگ تھے اور چونکہ بانڈری وال تھی اور اسلحے اور غذا کی کوئی کمی نہیں تھی، کوئی چھے ماہ کی خوراک وہاں موجود تھی۔ اس میں ایک واقعہ ناقابلِ فراموش ہے جو ستمبر کا ہے۔ ایک جگہ ہے ”بھولا“ جہاں الیکشن اور رمضان سے پہلے سیلاب آیا تھا جو بہت ہی خطرناک تھا… اتنا خوفناک کہ دو تین منزلہ اسکول ڈوب گیا تھا اور پورا بھولا شہر مکمل طور پر پانی میں غرق ہوچکا تھا۔ وہاں غذا ختم ہوگئی تھی۔ وہاں بھی ایک فوجی کیمپ تھا لیکن فوج کے لوگ انہیں غذا پہنچانے کو تیار نہیں تھے۔ بالآخر ہم نے امداد کی اور دو بڑی بڑی کشتیوں میں غذا لے کر وہاں گئے۔ جب ہم رات میں وہاں پہنچے تو بداخلاقی کا ایسا سماں تھا کہ خدا کی پناہ۔ جب ہم نے کیمپ میں گندم پہنچائی تو رات کے دس گیارہ بج چکے تھے اور ہمیں بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔ وہاں چنے کی دال اور روٹی وغیرہ تھی جو ہم نے کھائی، لیکن اس کے بعد جو اُن کے حالات تھے اس کے بارے میں کیا کہیں۔ یعنی میٹرک میں پہنچنے کے بعد بھی ہم جنس پرستی کیا ہوتی ہے ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن ان کی یہ خواہشات تھیں۔ اپنے لیڈر کے ساتھ ہم کیمپ سے باہر نکل گئے اور شہر میں کسی دوسری جگہ رات گزاری اور صبح کو وہاں سے نکل آئے۔
سوال:واقعات تو رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں؟
جواب: ایک اور واقعہ ہے۔ جون کا مہینہ تھا جب فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ باریسال کے اسٹیٹ بینک کے جو بھی ریونیو ہیں ان کو لے جائیں گے۔ اس کو بھی ہم نے ہی اسپاٹ کیا تھا۔ اُس وقت تو ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہاں ایک وسیع میدان میں ہیلی کاپٹر آئے۔ تمام باکس وہاں رکھے گئے اور وہ سب لے کر چلے گئے۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں کہ جن میں ایسا ہوتا تھا۔ انہیں فوج کہہ لیں، ویسٹ پاکستان پولیس، یا کراچی پولیس ان کے پٹوں پر لکھا ہوتا تھا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں آتے تھے اور خواتین کے کانوں اور گلے سے زیورات نکال لیتے تھے، یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چونکہ وہاں بینکنگ کا معقول نظام نہیں تھا اس لیے پوسٹ آفس سے یہ سب کچھ یہاں بھیجا جاتا تھا۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن کا بیان کرنا مشکل ہے۔ وہاں بہت ہی برے حالات تھے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دے دوں کہ ایک جگہ سیکورٹی کے کچھ لوگ ایک ہوٹل پر آئے، کوئی دس افراد ہوں گے، انہوں نے کھانا وغیرہ کھایا اور بغیر پیسے دیے چلے گئے۔ ہم نے اس دکاندار سے کہا کہ اگر آپ کہیں تو ہم ان لوگوں سے بات کریں کہ پیسے دے دیں۔ تو اس نے کہا کہ نہیں ہمارے ہی بھائی ہیں، کھانا کھالیا تو کیا ہوا؟ یعنی ایک طرف تو یہ جذبات تھے جبکہ دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم تھا کہ ہم ایک ایسی جگہ پر ہیں جہاں سے جو کچھ لوٹ کر لے جاسکتے ہیں وہ لے جائیں۔ اور ان کو ایسا کرنے کے لیے یہاں سے باقاعدہ مشرقی پاکستان بھیجا گیا تھا۔
میں آپ کو یہاں پر یہ بھی بتادوں کہ البدر کے شروع دنوں کی بات ہے، جس جگہ ہم فوج کے کیمپوں میں ٹریننگ لے رہے تھے، پہلے سال جب فوج نے قبضہ کیا تو ہم لوگ بہت ہی زیادہ خوش تھے کہ فوج آگئی۔ اس کے لیے ہمیں مار بھی کھانی پڑی اور بہت بھاری بھرکم سامان اٹھانے کی مشقت بھی سہنی پڑی جو اُن کے کیمپ تک پہنچانا پڑا۔ جب ہماری ٹریننگ ہوتی تھی تو اس میں ہم نے باقاعدہ دیکھا کہ فوج کے اندر دو بڑے گروپ تھے جن میں سے ایک تو جیے بھٹو کا نعرہ بھی لگاتا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ میرے والد صاحب چونکہ باریسال میں تھے اور ہم وہاں بہت اچھے نام سے جانے جاتے تھے، یعنی بنگالی ہماری بڑی عزت کیا کرتے تھے، اور آپ نے شاید میجر جلیل کا نام سنا ہو جو اُس وقت گوریلا جنگ میں بہت مشہور تھے، جن کا سندربن کے اندر کیمپ تھا، جب انہوں نے باریسال پر قبضہ کیا اُس وقت میرے والد اور ایک بھائی وہاں تھے، تو محلے والوں نے فوج کو بتایا کہ یہ ہمارے بہت محترم اور اچھے لوگ ہیں۔ میجر جلیل اور وہاں کے ایم این اے منجووکیل نے میرے والد صاحب اور میرے بھائی کو جیپ پر اپنے ساتھ بٹھایا اور گلے میں اسٹین گن ڈال کر پورا شہر گھمایا کہ یہ ہمارے لوگ ہیں اور کوئی انہیں ہاتھ نہیں لگائے گا۔
ایک اور واقعہ آپ کو سنائوں: ایک دن خبر آئی کہ ایک شخص پاکستان کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس وقت جو بھی مکتی باہنی کا سرغنہ تھا اُس نے گرفتار شخص کو مقتل پہنچایا اور اسے مارنے کا آرڈر دے دیا، جس پر پورا شہر ہی سوگوار تھا مگر عوام کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب اس کو عصر کے وقت گولی ماری گئی تو ایک دم سے گھٹا چھائی اور بہت زور کی بارش ہوئی جس پر لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ بہت غلط ہوا اور یہ کہ بہت نیک آدمی کو مار دیا گیا ہے۔
سوال: مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا شاید آج بھی لوگوں کو اندازہ نہیں کہ لوگ کس تکلیف اور مشکلات سے گزرے ہیں اور یہ حصہ ہم سے الگ کیوں ہوا؟
جواب:جی ہاں! ڈھاکہ میں ایک نئی زندگی شروع ہوئی تو ہمارے والد صاحب نے خالصتاً اردو بولنے والوں کے ایک شہر میرپور میں رہائش اختیار کی۔ میرا ایک بھائی ڈھاکہ میں البدر میں تھا اور وہ غائب تھا، میری والدہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، کیونکہ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم جاکر بھائی کو ڈھونڈو۔ انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے۔
16دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا تھا اور 20تاریخ کو وہاں سے ایک بس چلی۔ میرپور کا علاقہ ایسا تھا جیسے ناگن چورنگی سے نیو کراچی تک کا پورا علاقہ ہو، یعنی شہر کے اندر شہر تھا، اس کے داخلی راستے پر کچھ بنگالی حضرات بیٹھے ہوئے تھے اور وہاں سے جو بھی آتا تھا اس کو وہ قتل کردیتے تھے۔ جب بس وہاں پہنچی تو انہوں نے اس کو روک لیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مجھے اور ایک ستّر اسّی سال کے بوڑھے شخص کو جو میرے ساتھ بیٹھے تھے، چھوڑ کر بچیوں تک کو بس سے اُتار دیا۔ اسلحہ وغیرہ ان کے پاس نہیں ہوتا تھا، لیکن بانس سے تیر نما نیزہ بناکر حلق میں اتارتے تھے اور لوگوں کو قتل کردیتے تھے۔ بس سے کوئی اٹھارہ بیس لوگوں کو اُتارا گیا مگر ہمیں چھوڑ دیا گیا۔ بس چل دی اور محمد پور پہنچ گئی۔ وہاں بھی اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ وہاں میری خالہ رہتی تھیں، وہیں میری اپنے بھائی سے ملاقات بھی ہوئی۔ ہم نے بڑا عجیب فیصلہ کیا۔ بس اللہ نے بچایا ورنہ بہت ہی خوفناک فیصلہ تھا۔ ہم نے کہا کہ واپس گھر جاتے ہیں کیونکہ اگر ہم دونوں گھر نہ پہنچے تو والدہ بہت پریشان ہوں گی اور وہ خود باہر نکل جائیں گی۔ میرے بھائی کے پیروں میں پی ٹی شوز تھے جو فوج کی خاص علامت تھی۔ میں نے بھائی سے کہا کہ یہ جوتے اتار دو اور چپل پہن لو یا پھر ننگے پیر چلو۔ ہم نے فیصلہ کیا اور محمد پور سے میرپور تقریباً جو بارہ، چودہ یا پندرہ کلومیٹر کا راستہ تھا، ہم دنوں پیدل چلنا شروع ہوگئے۔ راستے میں بہت بلوائی ملے لیکن ہم دونوں کو بنگالی زبان بہت اچھی آتی تھی کیونکہ بچپن سے بولنا شروع کی تھی اور بالکل ان ہی کے لب و لہجے میں بولتے تھے۔ مگر ان سب سے بچنے کے بعد جب ہم آخری موڑ پر آئے جہاں سے ہمیں میرپور میں داخل ہونا تھا، وہاں پر دیکھا کہ بم گرنے سے بہت بڑا گڑھا پڑ چکا ہے۔ قریب جاکر دیکھا تو بے پناہ لاشیں وہاں پڑی تھیں۔
یہاں یہ بھی بتادوں کہ ہندوستان کی فوج کیا کرتی تھی… اردو بولنے والے یا بنگالی بھی جو پاکستان کے حق میں تھے، ان کو یہ کہہ کر اٹھاتی تھی کہ ہم آپ کو محفوظ مقام پر لے جاتے ہیں۔ اور لے جاکر ماب میں ڈال دیتی تھی۔ وہاں پر کوئی چالیس پچاس لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔اب ہمیںاس خطرناک موڑ سےشہر میں اندر کی طرف جانا تھا۔ اُس وقت دو بنگالی اخبار نکلا کرتے تھے، ایک”ڈیلی پاکستان“اور دوسرا”جرأت“یا شاید ایسا ہی کچھ نام تھا۔ وہاں دو لوگ وہ اخبار پڑھ رہے تھے جنہوں نے اخبار میں سے پاکستان کاٹ کر صرف ”ڈیلی“ رہنے دیا۔ ہم نے اُن کے پیچھےکھڑے ہوکر ویسے ہی اخبار پڑھنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد اُن کو احساس ہوا کہ دو نئے لوگ آئے ہیں جس پر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تم کون ہو؟تو ہم نے اپنے بارے میں بتایا۔ جب ہم باریسال میں ہوتے تھے تو جتنے بھی مکتی باہنی تھے وہ اسٹوڈنٹ لائف میں ہمارے دوست بھی رہے تھے جو بعد میں مکتی باہنی میں بڑے بڑے عہدوں پر تھے، اُن سب کو ہم جانتے تھے۔ ہم نے ان کا نام لیا تو انہوں نے ہمیں جانے دیا۔ یعنی اللہ کی خاص رحمت تھی کہ ہمیں کسی قسم کا خوف نہیں ہوا۔ ہم آگے کی طرف بڑھے اور اندر کی طرف آئے تو وہاں پرروک کر پوچھا:کون ہو؟میں نے بنگالی میں کہا کہ اپنے باپ سے جاکر پوچھو۔ وہ بھی چپ ہوگیا۔پھر جب ہم اندر پہنچے تو وہاں سائیکل رکشہ ہوتا تھا، اس پر کچھ لوگ آرہے تھے، انہوں نے ہم سے اردو میں بات کی لیکن میری زبان سے واللہ ا علم کیوں بنگالی میںیہ نکلا کہ”تم لوگوں کواردو چھوڑنی ہوگی اور اگر تم اردو نہیں چھوڑو گے تو اس ملک میں نہیں رہ سکتے“۔ اس پر وہ بیچارے چپ ہوگئے۔ اس طرح جب ہم اردو بولنے والوں کے علاقے میں پہنچے تو لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ لوگ کس طرح بحفاظت آگئے! خیر اللہ نے ہمیں بچالیا اور اس طرح سے ہم گھر پہنچ گئے۔ اس کے بعد ایک بہت ہی خطرناک واقعہ ہوا، وہ یہ کہ بنگالی فوج نے میرپور میں سرچ آپریشن کیا۔ وہاں ایک 12نمبر تھا جہاں زیادہ تر کلکتہ کے لوگ رہتے تھے جو چھوٹے چھوٹے قد کے مگر بہت ہی بہادر ہوتے تھے، جیسے اَن پڑھ لوگوں میں کوئی خوف نہیں ہوتا۔ ہوا یہ کہ فوج کے کوئی دو ڈھائی سو لوگ دو بسوں میں بیٹھ کر آگئے، ان میں سے کچھ فوجیوں نے کسی خاتون کو چھیڑ دیا جس پر کلکتہ کے نوجوانوں نے سب کو مار دیا۔ اس کے بعد تو مجیب الرحمٰن بالکل پاگل ہوگیا۔ اس نے پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ سب بند کردیے۔ اس حالت میں ہم کوئی چالیس پچاس دن رہے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیا کہ بارہ سال سے زائد جتنے بھی مرد ہیں وہ میدان میں جمع ہوجائیں صرف عورتیں گھر میں رہیں۔ انہوں نے سرچ آپریشن شروع کیا۔ میدان میں جتنے مرد جمع ہوئے تھے ان میں سے تقریباً بیس فیصد کو اٹھالیا گیا۔ کہاں لے جایا گیا، کیسے لے جایا گیا،کچھ پتا نہیں، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم لوگ وہاں بھی بچ گئے۔ ہمارے ماموں تھے جن کا رنگ بہت صاف تھا اور پٹھان لگتے تھے۔ وہاں ایک میجر آیا اور اُن کو سلیوٹ مارا اور کہا کہ آپ تو میرے استاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو فوج میں رہا ہی نہیں۔ انہوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ بضد رہا۔ میرے ماموں آرڈیننس فیکٹری میں انجینئر تھے۔ چائنا کی مدد سے قائم ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ہم نے دیکھا کہ جب لوگ میدان سے واپس آرہے تھے اور یہ منظر تھا کہ کوئی کہہ رہا ہے میرے والد صاحب کہاں ہیں؟کوئی کہہ رہا ہے کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟ کوئی کہہ رہی ہے میرا شوہر کہاں ہے؟ غرض کہ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی بندہ اٹھالیا گیا تھا اور پتا نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ کشمکش کچھ کم ہوئی تو ہمارے ہاں سے کچھ لوگ جو عوامی لیگ کے حامی بھی تھے، مجیب الرحمٰن کے پاس گئے تو انہوں نےآکر بتایا کہ مجیب الرحمٰن پاگلوں کی طرح کمرے میں دوڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جب ہم آزاد ہوگئے ہیں تو پھر کسی کو کیسے ہمت ہوئی کہ وہ ایسا کرسکے!
سوال:آپ اور آپ کا خاندان پھر کہاں گئے ؟
جواب:یہ واقعات ہوتے چلے گئے۔ پھر ہمارے خاندان نے ڈھاکہ ہجرت کی۔ جب میں خالہ کے ہاں گیا تو وہ ہندوستان واپس جارہی تھیں، ان کے پاس کچھ گندم اور شکر تھی جو انہوں نے مجھے دے دی۔ یہ چیزیں ہم نے ان چالیس پچاس دنوں میں استعمال کیں۔ میرے شیر خوار بھائی کو گندم کو بھون کر پیس کر دودھ کی جگہ پلاتے تھے۔ اُن چالیس دنوں میں مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے ایسا کچھ دیکھا جو میں نے پڑھا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب شعب ابی طالب میں تھے تو چمڑہ اُبال کر کھاتے تھے۔ ہم نے لوگوں کو سوکھا چمڑہ چباتے ہوئے دیکھا اور نالے کے ساتھ کھٹی میٹھی اُگنے والی گھاس پھوس کھاتے ہوئے بھی۔ ایک چمچ گندم کی بڑی قدر تھی۔ قطاروں میں لوگ کھڑے ہوکر لیتے تھے۔ میں نے خود اس قطار میں ایک بزرگ کو گر کر مرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم تھا کہ میری خالہ نے گندم اور شکر ہمیں دے دی تھیں جو اُن دنوں میں ہمارے کام آئیں۔
(جاری ہے)