اسرائیل فلسطین جنگ کو 60 دن کا عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران مغرب و مشرق میں چہار جانب اس المناک انسانی المیے پر باشعور عوام کا ردعمل یکساں ہے۔ جہاں ایک جانب مشرق میں مظاہرین اس جارحیت کے خلاف سڑکوں پر ہیں، وہیں ہر ہفتے اس سے بڑی تعداد میں مغرب بالخصوص امریکہ و برطانیہ کے بڑے شہروں میں جنگ بندی اور انسانی نسل کُشی کے خاتمے کے لیے مظاہرے جاری ہیں۔ برطانیہ میں لندن اس تحریک کا مرکز ہے جہاں سے ہر سطح پر جنگ بندی اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے۔ اس صورتِ حال میں جہاں برطانیہ میں بسنے والے مسلمان پہلی بار تمام تر ملکی و مسلکی اختلافات بھلا کر یک جان نظر آرہے ہیں، وہیں دوسری جانب مغرب میں بسنے والی اکثریت اُن کا مسئلہ فلسطین پر جس طرح ساتھ دیتی نظر آتی ہے اس سے ایک تاریخ رقم ہورہی ہے۔ ہر رنگ، نسل، زبان و مذہب کے لوگ بالخصوص سفید فام اس معاملے میں صف ِاوّل پر ہیں۔ اگر اس کو ظالم و مظلوم کی جنگ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس حوالے سے تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف نے اس مسئلے میں حکمرانوں کی سطح پر بہت ہی مدلل اور بھرپور طور پر نہ صرف آواز بلند کی بلکہ حکومتِ برطانیہ کو پہلی بار اُس وقت اس مسئلے پر سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب حمزہ یوسف نے مظلوم فلسطینیوں کی ہجرت اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کو اسکاٹ لینڈ کی جانب سے ممکن بنانے کا اعلان کیا اور حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ برطانوی قانون کے تحت جنگ زدہ علاقوں کے افراد کو برطانیہ آنے کے لیے صرف ویزا دیں، باقی کام اسکاٹ لینڈ کی حکومت خود سر انجام دے گی۔ حمزہ یوسف کے اس اعلان کا پورے برطانیہ میں ہر سطح پر خیرمقدم کیا گیا۔ اس کے بعد ان 60 دنوں میں حمزہ یوسف متواتر فلسطین کے حق میں بھرپور آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے دبئی میں منعقدہ COP 28 کی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کانفرنس میں انہوں نے شرکت کی اور اس دوران میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے مسئلہ فلسطین پر ملاقات کرکے برطانوی سیاست میں دھماکہ کردیا۔ برطانوی حکومت نے اس اقدام پر حمزہ یوسف کی پارٹی اسکاٹش نیشنل پارٹی کو سنگین نتائج کی باضابطہ دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ حمزہ یوسف کی ترکیہ کے صدر سے وزارتِ خارجہ کے وفد کے بغیر ملاقات سنگین قانونی خلاف ورزی ہے۔
اصل معاملہ دراصل فلسطین کے معاملے پر برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کی حکومت کے مختلف مؤقف کا ہے جس کے تانے بانے کہیں نہ کہیں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سابق فرسٹ منسٹر نکولا سرجنٹ کے اس بیان سے ملتے ہیں جوکہ انہوں نے ایک سال قبل دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگلے عام انتخابات دراصل اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا ریفرنڈم ہوں گے۔ اس سارے قضیے کا سبب بھی فاتح و مفتوح کے تعلقات ہیں۔ اسکاٹ لینڈ پر برطانیہ نے اپنی حکومت قائم کرکے اسے ریاستِ برطانیہ میں تو شامل کرلیا لیکن ابھی تک وہ اسکاٹ لینڈ کے عوام کو مکمل طور پر برطانوی ریاست کا قلبی طور پر حصہ نہیں بنا پایا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت جس کو اسکاٹ لینڈ کی اکثریت کا مینڈیٹ حاصل ہے، اس نے پہلے برطانیہ سے علیحدگی کے ریفرنڈم کا اعلان کیا جس کو برطانوی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس کے بعد سابق فرسٹ منسٹر کو نادیدہ قوتوں کی جانب سے استعفیٰ دینے پر مبینہ طور پر مجبور کیا، اور ان کے شوہر کے خلاف پارٹی فنڈ میں کرپشن پر برطانوی حکومت نے کارروائی کا آغاز کردیا۔
اس تناظر میں اسکاٹ لینڈ کے عوام و حکومت اپنے آپ کو بھی ایسا ہی محکوم و مظلوم سمجھتے ہیں جیسا کہ اہلِ فلسطین خود کو اسرائیل کے مقابلے میں سمجھتے ہیں۔ گوکہ برطانیہ میں اسرائیل جیسی وحشیانہ فوجی طاقت کا استعمال نہیں ہوتا، لیکن بہرحال قابض کا تاثر زائل کرنے میں ابھی تک برطانوی ریاست ناکام نظر آتی ہے۔
اس وقت دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ منتخب فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کو انتباہی خط غیر منتخب وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور اُن کی وزارت کی جانب سے جاری کیا گیا، اور یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے کسی فرسٹ منسٹر کو ایسا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔ اس معاملے کا ایک انتہائی حساس پہلو یہ بھی ہے جس کا اظہار اب پارلیمان میں کھل کر دونوں پارٹیوں کنزرویٹو و لیبر پارٹی کے اراکین کررہے ہیں، مسلم اراکینِ پارلیمنٹ کے علاوہ بھی اراکین پارلیمنٹ کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات سے متفق نظر آتی ہے کہ مسلمانوں کے معاملے پر برطانوی حکومت کی پالیسی دیگر ریاستوں کے حوالے سے کچھ اور نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں روس یوکرین جنگ کا موازنہ اب فلسطین اسرائیل جنگ اور حکومت کے ردعمل سے کیا جارہا ہے۔ بار بار یہ آوازیں اب سڑکوں سے نکل کر پارلیمان میں گونج رہی ہیں کہ مسلمان اب برطانیہ میں غیر محفوظ ہیں اور ان سے امتیازی سلوک اختیار کیا جارہا ہے، اور حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود بھی اسلاموفوبیا کی آڑ میں مسلمانوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک میں کمی کے بجائے اب انتہائی حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد سے برطانیہ میں اسلاموفوبیا میں سات سو فیصد اضافہ ہوا جس کو حکومت کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ اس نفرت کو بڑھانے اور پھیلانے میں دائیں بازو کے میڈیا کا بہت بڑا کردار رہا، اور حکومت اس سے نمٹنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ خود حکومتی اقدامات اور حکومتی بیانات اس میں اضافے کا باعث ہیں۔ اسرائیل نہتے بچوں، خواتین اور معذوروں کو نشانہ بنارہا ہے، اس نے بین الاقوامی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتالوں تک کو تباہ کردیا ہے لیکن برطانوی حکومت نے ایک لفظِ مذمت اسرائیل کے خلاف ادا نہیں کیا، جبکہ اس کے برعکس ہر روز’’ اسرائیل کو حقِ دفاع حاصل ہے‘‘ کا راگ الاپا جارہا ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم اور موجودہ وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی ایک بار پھر اسرائیل کا ساتھ دے کر حماس کو کچلنے کا اعلان تو کیا لیکن ان کو نہتے بے گناہ فلسطینی بچے اور خواتین نظر نہ آسکیں جن کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔ یہی معاملہ کچھ عرصے قبل یوکرین میں تھا کہ جہاں ایک اسپتال پر بم گرنے سے 12 افراد ہلاک ہوئے تھے تو مغرب کے میڈیا اور حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، لیکن دوسری جانب صرف ایک ال اہلی اسپتال میں بمباری کرکے 500 زخمی عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا گیا تو یہاں کوئی خاص شور سنائی نہیں دیا۔ اسی طرح داعش کے لیے شام جانے والی نوعمر لڑکی شمیمہ بیگم جوکہ محض 15 سال کی عمر میں شام گئی تھی اور برطانوی قانون کے لحاظ سے نابالغ تھی اس کو برطانوی میڈیا و حکومت نے ایک مسئلہ بنادیا کہ جس کی زد میں پورے ملک میں بسنے والے مسلمان آگئے جنہیں دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔ بعد ازاں شمیمہ بیگم کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے اس کی شہریت ہی منسوخ کردی اور برطانیہ داخلے پر پابندی عائد کردی۔ اس کے برعکس اب خبر کی تصدیق ہوچکی ہے کہ19 سالہ برطانوی اسرائیلی باشندہ بن یامین ندہام اسرائیل کی جانب سے لڑتے ہوئے غزہ میں ہلاک ہوگیا، اس کے علاوہ ایک نوجوان خاتون جوکہ برطانیہ سے جاکر اسرائیل کی جانب سے لڑ رہی تھی وہ بھی ہلاک ہوچکی ہے۔ اس پورے تناظر میں مظلوم فلسطینیوں پر بم باری کرکے انہیںہلاک کرنے والوں کو میڈیا مرنے کے بعد بھی ہیرو بنا کر پیش کررہا ہے اور ان پر شمیمہ بیگم جیسی پابندیاں بھی عائد نہیں کی جارہی ہیں، جبکہ برطانوی قانون کے تحت جس کا حوالہ بار بار حکومت کی جانب سے برطانوی عدالتوں میں دیا گیا کہ کوئی بھی برطانوی باشندہ کسی اور فوج یا جنگجو گروہ کا حصہ نہیں بن سکتا، اس قانون کا اطلاق اس معاملے میں نظر نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف مسلمان، بلکہ عوام کی ایک واضح اکثریت اب برطانوی حکومت کے خلاف غم و غصّے میں بھری نظر آتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہر فورم پر جنگ بندی کی قرارداد کی مخالفت یا خاموش رہنے پر بھی اب حکومت پر کڑی تنقید سامنے آرہی ہے لیکن حکومتی ہٹ دھرمی کی بھی اپنی ایک الگ ہی سطح ہے۔ یہ برطانوی سیاست میں پہلا موقع ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے اراکین کی اکثریت سمیت اسکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی کا فلسطین کے مسئلے پر مؤقف یکساں اور دوٹوک ہے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہوگئی ہے جس کا اظہار برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے کیا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان اب برطانیہ سے نکل جانے کو ترجیح دیں گے، کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار کچھ عرصہ قبل کنزرویٹو پارٹی کی صفِ اوّل کی رہنما سعیدہ وارثی بھی کرچکی ہیں، اس صورت ِحال میں اب یہ بات کوئی راز نہیں کہ برطانیہ میں بسنے والے 4 ملین سے زائد مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ یہ نہ صرف حکومت بلکہ برطانوی ریاست کی ناکامی ہے۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متمول مسلمان گھرانے برطانیہ سے ہجرت کررہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ میں آئے دن اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ افراد کی قلت ہورہی ہے۔ دوسرے اس کا اندرونی ردعمل ایک خطرناک تصادم کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ جہاں معاشرے کے کمزور طبقات اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کریں اور یہ محسوس کریں کہ قانون کا اطلاق باشندوں پر یکساں نہیں ہورہا تو پھر وہ قانون کا اطلاق طاقت کے زور پر کرتے ہیں اور یہیں سے معاشروں کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔
برطانوی ریاست کی سب سے اچھی بات قانون کی بلا تفریق عمل داری ہے، اگر برطانیہ میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت یہ سمجھتی ہے کہ قانون کا اطلاق یکساں نہیں تو پھر برطانوی ریاست پر سے ان کا اعتماد ختم ہوگا اور اس کے مضمرات ریاست کو بھگتنے ہوں گے۔ ایک طرف برطانیہ اسکاٹ لینڈ سے نبرد آزما ہے، دوسری طرف یوکرین کی جنگ، تیسری جانب ہانگ کانگ و افغانستان سے مہاجرین کی آمد، ان کی حکومتوں سے نمٹنے کے لیے ایک طویل المدتی حکمت عملی۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہر عروج کے بعد زوال کی طرح اپنی غلط پالیسیوں کے باعث برطانیہ کی ریاست اپنی پیٹھ پر لادے بوجھ میں مسئلہ فلسطین کا مزید بوجھ اٹھانے کی تاب نہ لا سکے گی۔ مسئلہ فلسطین کے 75 سال اور جنگ کے ان 60 دنوں کے موازنے میں ایک بات اہمیت کی حامل ہے کہ شاید پیدا کردہ مسئلے کا حل بھی مسئلہ پیدا کرنے والے کے پاس ہو، ورنہ جس نے اس مسئلے کو پیدا کیا ہے شاید وہ بھی ایسے ہی مسئلے کا شکار ہو جائے جس کے امکانات اب بہت واضح ہیں۔