انتخابات کے لیے دی گئی تاریخ سر پر آگئی ہے اور54 روز قبل انتخابی شیڈول دینے کی تاریخ بھی الیکشن کمیشن کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ 54 دنوں کی انتخابی مہم کے لیے ضروری ہے کہ16 دسمبر کو انتخابی شیڈول دے دیا جائے۔ 16دسمبر ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جسے کبھی بھی کسی بھی قیمت پر فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ حالیہ دنوں کے سیاسی حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو آج بھی ملک میں بہت سیاسی تلخی ہے، بلکہ تحریک انصاف کے معزول سربراہ عمران خان تو جیل میں میڈیا ٹاک میں کہہ چکے ہیں کہ ’’انہوں نے مجیب کا کیا بگاڑ لیا!‘‘ عمران خان کا یہ جملہ بہت بھاری ہے اور اس کی قیمت کیا چکانا پڑے گی یہ تو اب وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال ابھی تو انتخابات کا انتظار ہے، اور ان کے نتائج کے بعد دیکھنا ہے کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا۔ تلخیاں برقرار رہیں تو مستقبل میں بھی المیوں کی شجرکاری ہوتی رہے گی۔ انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، اس بارے میں تجزیے اور تبصرے بہت ہورہے ہیں تاہم حتمی بات کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ ایک عندیہ دیا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد قومی حکومت بنے گی مگر یہ عمران خان کے بغیر ہوگی۔ یہی بات کم و بیش ایک سال قبل شہبازشریف بھی کہہ چکے ہیں، لہٰذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قومی حکومت کا خیال پیش کیا جارہا ہے، تاہم اقتدار کی یہ بندر بانٹ کون تسلیم کرے گا؟ انتخابات کے بعد وفاق میں کون حکومت بناتا ہے یہ اہم سوال نہیں ہے، اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کیسے سنبھل سکتی ہے؟ اس وقت سب سے سنگین مسئلہ معیشت کی دگرگوں صورتِ حال ہے۔ پاکستان کے پاس قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں۔ عالمی بینک کے گلوبل ڈائریکٹر فلپ لوپیز کلوا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان غربت کے خاتمے اور انسانی سرمائے میں بہتری کے حوالے سے افریقی خطے سے بھی نیچے چلا گیا ہے، ملک میں غربت کی شرح 41 فیصد تک جا پہنچی ہے، معاشی ترقی اور تقسیمِ دولت کے میکینزم کو بہتر بنائے بغیر غربت اور معاشی، سماجی عدم مساوات میں کمی لانا ناممکن ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی اور ادارہ جاتی حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے تاکہ معاشی خوشحالی کے کچھ اثرات نچلے طبقے تک محسوس کیے جائیں اور عام لوگوں کی معاشی ضروریات کچھ نہ کچھ پوری ہوں۔ ایسی ہی بات وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بھی کی ہے کہ پاکستان کا غیر ملکی قرضہ غیر پائیدار سطح پر پہنچ گیا ہے، ہم عالمی مالیاتی اداروں کے 44 فیصد، جی ممالک کے 35 فیصداور کمرشل اداروں کے 14فیصد مقروض ہیں، کمرشل اداروں کے قلیل المدت قرضے انتہائی تشویش ناک ہیں جس سے ہمارے لیے غیر ملکی امداد کا حصول دن بدن مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پائیدار طویل المدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جائیں۔ کیا 8 فروری کے بعد قائم ہونے والی حکومت امراء سے زیادہ ٹیکس لے کر غریبوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کر ے گی؟ کیا وی آئی پی کلچر اور اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی کمی ہوگی؟ عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اخراجات کم کیے جائیں گے؟ اگر کوئی ایسا ایجنڈا ہے تو قومی سیاسی راہنما اس پر ضرور بات کریں، اگر اس مقصد کے لیے قومی حکومت قائم ہوتی ہے کہ امیر اور غریب کے لیے انصاف کا پیمانہ ایک ہوگا اور سیاسی مخالفین کو ڈرائی کلین اور کرپٹ افراد کو معاف نہیں کیا جائے گا تو دیکھتے ہیں کہ مجوزہ قومی حکومت قانون اور آئین کی حکمرانی ممکن بناتی ہے یا نہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی کو جن خطرات کا سامنا ہے اُن کے حل کا واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے رکھا جائے، ٹیسٹ ٹیوب سیاسی جماعتوں کی نرسری بند ہونی چاہیے، اورتمام سیاسی اور طاقت ور کردار اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور عوام کے مفاد میں ملک کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانے کا روڈمیپ واضح کریں، اور تمام اسٹیک ہولڈرز الیکشن سے پہلے درپیش مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ خطوط پر بنیادی اتفاقِ رائے قائم کریں۔
اگر اقتدار کسی کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو ردعمل ہوگا اور داخلی تضادات اور طاقتور شخصیات کے باہمی تصادم کی وجہ سے ملکی حالات بگڑ جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں اپنا منشور سامنے لائیں۔ قومی معیشت کی بحالی کیسے ہوگی اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ فی الحال تو یہی نظر آرہا ہے کہ انتخابات کے بعد نگران حکومت کا سب سے بڑا ایجنڈا نج کاری کا ہے، نگراں حکومت پی آئی اے سمیت تین چار قومی اداروں کی نج کاری کی ٹھوس سفارشات مرتب کرکے نئی حکومت کے حوالے کرکے جائے گی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 ارب اور اِس سال 50 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ نقصان پورا کرنا مشکل ہے۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے، جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے اور 8 ہزار ملازمین ہیں۔ سول ایوی ایشن کے واجبات اور پی ایس او کو ایندھن کی قیمت کی ادائیگی اس کے لیے ایک مسئلہ بنی رہتی ہے۔ حکومت کے ذرائع بتاتے ہیں کہ 109 ارب روپے براہِ راست پی آئی اے پر خرچ کیے ہیں اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہوئی ہے۔ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، دیر یا بدیر اب ائرلائن کی نج کاری ہوکر رہے گی۔ اسی طرح پاکستان ریلوے بھی پیچھے نہیں ہے۔ پچھلے سال حکومت نے اِسے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے ہیں، ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے دیے گئے۔ 15 سالوں میں پاکستان ریلوے کو 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس ادارے کی کُل مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے، لیکن اس کی نج کاری کے لیے سفارشات یہ مرتب کی جارہی ہیں کہ پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کی نج کاری ہونی چاہیے، وزارتِ ریلوے صرف ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرے، ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کرکے پیسہ کمائے، اس رقم سے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ اسٹیل مل آٹھ سال سے بند ہے اور اس پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں، تجویز یہ ہے کہ نیشنل بینک کو قرضوں کے بدلے اسٹیل مل کی باقی ماندہ زمین حوالے کردی جائے جو 20 ہزار ایکڑ میں سے اب صرف 8 ہزار ایکڑ رہ گئی ہے۔ نقصان میں جانے والے قومی اداروں کی نج کاری کے لیے آئی ایم ایف کا بھی دبائو ہے، تاہم حکومت کو ایسی راہ تلاش کرنی چاہیے جس سے ملازمین کا معاشی تحفظ یقینی بنایا جاسکے اور مسائل بھی حل ہوجائیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہر حکومت بلیک میل ہوتی ہے اور ردعمل میں غلط فیصلے کرلیے جاتے ہیں جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ٹیکس نیٹ بھی نہیں بڑھتا۔
قومی ٹیکس نظام کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آمدن بڑھانے کے لیے حکومت پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر ہی ہر نیا بوجھ ڈالتی ہے اور اس کے دائرۂ کار کو وسعت دینے کی آج تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ملک کی مالی صورتِ حال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے، اور وہ بھی قرضوں کی واپسی، سود کی ادائیگی اور پیٹرول کی خریداری پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی مخصوص طبقے پر بار بار ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے عاجز آگیا ہے، اس کی تکنیکی ٹیم نے حال ہی میں پاکستان میں دو ہفتے قیام کے دوران مالیاتی خودمختاری، پرچون فروشوں، زرعی آمدن اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت شرائط عائد کرنے کی سفارشات تیار کی ہیں، وہ چاہتا ہے کہ ایف بی آر انکم ٹیکس قوانین 2001ء میں تبدیلی لائے اور صوبوں اور مرکز دونوں سطحوں پر رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس شرح بڑھائے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے زرعی آمدن اور خدمات پر محصولات بڑھانے اور پراپرٹی ٹیکس کو حقیقی بنانے کی سفارش کی ہے اور زور دیا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس مشینری میں اصلاحات لائے جس کے لیے اس ادارے کا مکمل طور پر خودمختار ہونا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس شق میں ایف بی آر کے چیئرمین اور سیکرٹری ریونیو ڈویژن پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے جس میں وزیراعظم ہائوس سمری بھجوانے کے لیے وزارتِ خزانہ سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ IMF ایف بی آر کی بیوروکریسی کو سیاسی حکومت کے دبائو سے آزاد کرنے کا خواہاں ہے، یہ سب کچھ ہوجانے پر ہی تیسری قسط جنوری 2024ء میں ملنے کی توقع ہے۔ حکومت کے پاس ابھی ایک ماہ کا عرصہ ہے، اور ملک میں عام انتخابات ہوجانے کی صورت میں اگلے 6ماہ میں نومنتخب حکومت سفارشات کے مطابق ہی بجٹ تیار کرے گی۔ ان سفارشات کے تحت پرچون فروشوں اور زرعی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ فی الحال تو پرچون فروشوں کا مؤقف ہے کہ ان کی اکثریت ایف بی آر کی لکھت پڑھت سے عاری ہے لہٰذا وہ فکس ٹیکس ہی دے سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ موجودہ ٹیکس نظام سے خوف زدہ ہیں، وہ دوستانہ ٹیکس کلچر چاہتے ہیں جس میں رہتے ہوئے لوگ خوشی سے ٹیکس دیں، کیونکہ دوست ممالک بھی قرضے لینے کے بجائے اپنے سیاسی اور معاشی معاملات درست کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب پاکستان کو قرضوں کی امید لگانے سے قبل اپنے اندرونی استحکام کی کوششیں کرنی چاہئیں۔
مستقبل میں بننے والی حکومت کیسی ہوگی اس پر فی الحال تو کچھ نہیں کہہ سکتے، تاہم ایک منظرنامہ یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیںہوگی۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ عام انتخابات میں سیٹوں کی بندر بانٹ یقینی رہے گی، یوں سیاسی حالات اسٹیبلشمنٹ کے عین مطابق اور موافق ہی رہیں گے اور مرضی کے نتائج بھی ممکن ہوں گے۔
جوں جوں ساعتیں قدم بہ قدم آٹھ فروری کی جانب بڑھ رہی ہیں، انتخابات سے متعلق غیر یقینی میں تکلیف دہ انداز میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کا اظہار تحریک انصاف کو انتخابی نشان کی الاٹمنٹ میں ہونے والی تاخیر سے بھی ہوتا ہے۔ جماعتوں پر پابندی لگانے یا اُنھیں زبردستی سیاسی کردار ادا کرنے سے روک دینے کی روایت اس ملک میں نئی نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جو ایک حقیقی جمہوری ریاست بننے کی خواہش رکھتا ہے لیکن تاحال یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ ایک قدم آگے، دوقدم پیچھے کی طرف حرکت نے بے انتہانقصان پہنچاتے ہوئے اسے عالمی برادری میں ایک توانا اور ترقی پسند ملک بننے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔ اس کے بجائے گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ یہ ایک چبھتا ہوا مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کی پوری آئینی اور قانونی عمارت کو گرایا جا رہا ہے تاکہ مجرموں کے قبیلے کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا طاقت ور حلقوں کو250 ملین لوگوں میں کوئی بہتر آپشن نہیں ملا؟ وہ آزمائے ہوئے گروہ سے آگے کیوں نہیں دیکھ سکے جو ماضی میں متعدد بار ملک کو تباہ کر چکاہے؟ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ گنوانے کے بعد میاں نوازشریف کو سیاست و ریاست کے معاملات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینے کے عزم کا خیال آیا بھی تو تب جب اُن کی سیاست کے دودھ میں صرف پانی ہی پانی بچ رہا ہے، اور اب پانی سر سے گزرنے کے بعد ’’حکومت ہی نہیں، احتساب بھی چاہیے‘‘ کا تقاضا ایسے لگا جیسے کوئی بچہ کھیلن کو مانگے چاند، اور وہ کمند جو میاں صاحب کو ستاروں پہ ڈالنی تھی، وہ انہوں نے برادرِ خورد کے ہاتھوں کبھی کی کمانداروں کے حوالے کردی ہے۔ وہ تو ایسے بیٹھ گئے ہیں جیسے ’’بس بات ہوچکی ہے اور وزارتِ عظمیٰ پکی‘‘ ہے۔ ایسے میں عوامی حمایت بچی ہے، نہ اس کی کوئی پروا ہے۔ لیکن دوسری جانب میدان خالی نہیں ہے۔ انتخابات کے 8 فروری کو انعقاد کے حوالے سے کنفیوژن کے پیچھے بھی ایک کھیل ہے۔