تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور اس کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے آخرکار وہ فیصلہ سنادیا جس پر کچھ لوگ نگاہِ امید لگائے بیٹھے تھے، مگر اکثر کا خیال تھا کہ بھارت کی عدالت سے انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ نہیں آئے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارت سے الحاق کے بعد کشمیر کی داخلی خودمختاری کا عنصر برقرار نہیں رہا، اور دفعہ370 ایک عارضی شق تھی۔ عدالت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات 30ستمبر 2024ء تک کرانے کا حکم دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، دفعہ 370 جموں و کشمیر کے انضمام کو منجمد نہیں کرتی، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا۔ درخواست گزاروں نے بھارتی سپریم کورٹ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ370بحال کرنے کی استدعا کی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 20 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ درخواستوں میں جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ سنانے کے موقع پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں پابندیاں مزید سخت کی گئی تھیں۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو اُن کے گھروں میں نظربند کردیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی نظربندی کی تردید کی تو عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنے گھروں کے مرکزی دروازوں پر لگے تالوں اور زنجیروں کی تصویریں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر نظربند نہیں تو یہ سب کیا ہے؟ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے جموں و کشمیر کے عوام خوش نہیں، یہ ہمارے لیے ایک تاریخی بات تھی، اس سے ہمارے جذبات جڑے ہوئے تھے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ وہی جج ہیں جنہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ دیا تھا۔
یہ فیصلہ اس لحاظ سے غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے آئینِ ہند میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ370اور 35Aکے خاتمے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو چار سال تک زیر التوا رکھا تھا، اور اس عرصے میں بھارت نے کشمیر کی تمام زمینی حقیقتوں کو کسی بھی رکاوٹ کے بغیر بدل دیا تھا، جن میں کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے والی قانون سازی بھی شامل تھی۔ چار سال کے بعد رواں برس اگست میں سماعت کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کررہا تھا۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس بی آر گوائی، جسٹس سوریا شامل کانت تھے۔ ان میں جسٹس سنجے کول کشمیری پنڈت ہیں۔ بھارتی عدالت نے سولہ دن تک اس مقدمے کی سماعت کی جن میں درخواست گزاروں کے وکلاء اور حکومتی وکلاء شامل تھے۔ بھارت کے معروف وکلاء نے اس مقدمے میں درخواست گزاروں کی سماعت کی جن میں کانگریس کے لیڈر کپل سبل، راجیو دھون، گوپال سبرامینم، گوپال شنکر نارائنن اور کشمیری وکیل ظفر شاہ شامل تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت میں تاخیری انداز اختیار کرنے کے لیے یہ عذر اپنایا تھا کہ عدالت کے پاس زیادہ ضروری مقدمات زیر سماعت ہیں۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسّی لاکھ آبادی محاصرے کی حالت میں تھی اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہوچکی تھی۔ آزاد دنیا کے ساتھ اس کے سارے رابطے منقطع کردیے گئے اور کسی بھی سنگین انسانی بحران کے خطرات سایوں کی طرح سروں پر منڈلا رہے تھے۔ اس کے باوجود عدالت کی طرف سے انسانوں کے بنیادی حقوق سے زیادہ ضروری مقدمات کا عذر ہی یہ بتارہا تھا کہ بھارتی عدالتوں کی آزادی اب محض ایک تصور اور تخیل ہی ہے۔ بھارت کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات نے جہاں بھارت کے بارے میں بہت سی حقیقتوں اور تصورات کو بدل دیا ہے وہیں یہ تصور بھی تبدیل ہوگیا ہے کہ بھارت کی عدلیہ حکومتوں کے دباؤ سے آزاد ہوکر فیصلے کرتی ہے۔ محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کے مقدمات میں بھارتی عدالتوں کے فیصلوں نے تو پہلے ہی یہ حقیقت عیاں کردی تھی، اس کے باوجود بھارتی عدلیہ کا کچھ نہ کچھ بھرم باقی تھا۔
درخواست گزاروں میں مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں۔ محبوبہ مفتی نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کشمیریوں کی رائے حاصل کیے بغیر ہونے والا فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ آئینِ ہند میں واضح طور پر کشمیریوں کی مرضی اور مشورے کی بات کی گئی ہے۔ مودی حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیر اسمبلی کو ختم کردیا تھا اور اس فیصلے میں کسی طور کشمیریوں کی رضامندی شامل نہیں۔
اس فیصلے پر نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ 5 اگست 2019ء کو ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ذریعے لیا گیا فیصلہ برقرار ہے، یہ فیصلہ جموں و کشمیر اور لداخ میں بہنوں، بھائیوں کے لیے امید کی علامت ہے، عدالت نے اپنی گہری دانش مندی کے ساتھ اتحاد کے اس جوہر کو مضبوط کیا ہے۔
عمر عبداللہ نے نظربندی کے عالم میں ایک وڈیو بیان میں کہا کہ ہمارے لیے یہ غیر متوقع تھا۔ ہماری جنگ سیاسی اور طویل ہے جو جاری رہے گی۔ انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا:
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
کشمیر اقوام متحدہ میں ایک متنازع مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ کاغذوں میں اس کی متنازع حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تنازعے کے حل کے لیے بننے والے کمیشنز کی صورت موجود ہے، اور کون سا عالمی راہنما ہے جس کا بیان ریکارڈ پر موجود نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو تنازع کشمیر پُرامن طور پر مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ اور زمین پر اس تنازعے کی بین الاقوامی حیثیت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اور سیزفائر لائن کو ”کنٹرول لائن“ کہنا اور اس کے لیے ”بارڈر“ کی اصطلاح استعمال نہ کرنا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور اس کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں۔ اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ370 بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی۔ اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا۔ بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا، مگر پنڈت نہرو نے امبیڈکر کی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا، جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور، مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے، جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے۔ اس دفعہ کے تحت مہاراجا ہری سنگھ کے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من وعن اپناکر آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے، اپنے آئین اور پرچم کا حق دیا گیا۔ یوں جموں وکشمیر کی ریاست بھارت میں اپنی نوعیت کی منفرد ریاست تھی جو مہاراجا کے مشروط الحاق کے کچے دھاگے کے ساتھ بھارت کے آئین کا حصہ تھی۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کو دی گئی یہ آزادیِ پرواز محض دو سال ہی جاری رہی اور بھارتی حکومت نے اس دفعہ کو غیر مؤثر بنانے کی کوششوں کا آغاز کرکے کشمیریوں کے بال و پَر کترنا شروع کردیے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا، اور یوں پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان یارانے کی اس یادگار کی فلک بوس عمارت کی پہلی اینٹ کھسک کر رہ گئی۔ شیخ عبداللہ کی برطرفی اگرچہ دو دوستوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا کا شاخسانہ تھی اور پاکستان اس میں براہِ راست فریق نہیں تھا، مگر شیخ عبداللہ کی برطرفی پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا۔ محمد علی بوگرہ نے بھارت کا ہنگامی دورہ کرکے صورتِ حال پر اپنی تشویش ظاہر کرنے کی کوشش کی، مگر یوں لگتا ہے کہ نہرو نے انہیں اس معاملے میں کودنے سے سختی سے روک دیا کیونکہ دونوں لیڈروں کی ملاقات کا جو اعلامیہ جاری ہوا اُس میں اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ شیخ عبداللہ کو دی گئی آزادیاں بھارت نے اُن کے جانشین بخشی غلام محمد کے ذریعے واپس لینے کا عمل شروع کیا۔ بھارت نے صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیراعلیٰ میں بدل دیے۔ بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی۔ الحاق کو حتمی قرار دیا گیا۔ آل انڈیا سروسز یعنی انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایا گیا۔ 1964ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 356 اور 357کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا۔ اس سارے ناجائز تجاوز پر بھی پاکستان نے ہر مرحلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔1975ء میں اندراگاندھی اور شیخ عبداللہ کا معاہدہ ایک اندرونی معاملہ تھا جو کشمیر کی رہی سہی خودمختاری کو چاٹ گیا اور بھارتی سپریم کورٹ کا دائرہ جموں وکشمیر تک وسیع ہوگیا۔ پاکستان نے اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینے کے بجائے عام ہڑتال کی اپیل کی جس کا دنیا بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھرپور اثر ہوا، اور اپنی ہڑتال کی کال کی اس عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ کشمیریوں نے اس معاہدے کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے۔ اس لحاظ سے دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھی۔ بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا، پھر اس کے در و دیوار اکھاڑے اور 5 اگست 2019ء کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔ پاکستان کو ماضی کی روایت کے تحت ہر اُس کشمیری کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو لمحہِ موجود میں دہلی کے مقابل کھڑا ہوتا ہے۔ ایک فریق کے طور پر پاکستان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے۔
یوں تو 5 اگست 2019ء سے بہت پہلے ہی کشمیر کی خصوصی شناخت کو مٹا ڈالنے کی کوششیں آہستہ روی سے جاری تھیں، مگر 2019ء سے سال بھر پہلے یہ مقدمہ بھارتی عدالتوں میں پراسرار انداز سے پہنچا دیا گیا تھا۔ سال بھر پہلے ہی ”ہم شہری“ نامی ایک فرضی تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کو چیلنج کردیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ35Aپر فیصلہ سنانے کی تاریخوں کو آگے بڑھانا شروع کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بینچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے مقررہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا۔ جس دن فیصلہ سنانا تھا اُس وقت مقبوضہ کشمیر میں زوردار ہڑتال چل رہی تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبارِ حیات معطل کرکے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کررہے تھے۔ ”وی دی سٹیزن“(ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر کررکھی تھی۔ بھارتی آئین کی دفعہ 35A مقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں وکشمیر میں نہ تو جائداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔ یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے کا قانون جسے عرفِ عام میں اسٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتینی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے، مہاراجا ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے، اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں، پنڈتوں کے لیے الگ بستیاں بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں، امرناتھ یاتریوں کے لیے وسیع و عریض رہائشی منصوبے اور اس کے لیے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لیے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار رہی ہے، اور یوں کشمیر میں ایک ”اسرائیل“کے خدوخال اُبھرنا شروع ہوجائیں گے۔ اب چار سال سے جو کچھ ہورہا ہے اسی کی عملی تصویر ہے۔ حال ہی میں محبوبہ مفتی کا یہ چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ہے کہ بھارتی حکومت دس لاکھ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں بے زمین کو زمین دینے کے نام پر بسا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ امر ان خدشات اور خطرات کو تقویت دے رہا ہے کہ بھارت کشمیر میں نوآبادیاتی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دورِ حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جا سکا اور اب آخری چارئہ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔اس کے لیے پہلے ہی بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جا نے لگا تھا، اور اب انہی آئینی اداروں کے پاس کشمیریوں کا مقدمہ تھا جنہوں نے چار سال بعد کشمیریوں کی درخواستوں کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔