مسئلہ کشمیر اور بھارتی عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ

بھارتی عدلیہ نے ایک بار پھر انصاف پسند اور جمہوری سوچ رکھنے والے حلقوں کو شدید مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے لیے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے انتہاپسند ہندو وزیراعظم نریندر مودی کے متنازع اقدام کی توثیق کردی ہے اور 5 اگست 2019ء کے سراسر غیر انسانی، غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اعلان کے خلاف انصاف پسند حلقوں کی طرف سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردی ہیں۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ جسٹس ڈی وائی۔ چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنے فیصلے میں بھارتی حکومت کے اس مؤقف کو دہرایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اور فیصلہ سنایا ہے کہ بھارت سے الحاق کے بعد کشمیر کی داخلی خودمختاری کا عنصر برقرار نہیں رہا، آئین کی دفعہ 370 ایک عارضی شق تھی جو جموں و کشمیر کے بھارت میں انضمام کو منجمد نہیں کرتی، جموں و کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل ادارہ بنانا نہیں تھا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے اپنی مرضی اور اپنے اقدام کی تائید و توثیق میں دیے گئے اس فیصلے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اسے تاریخی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف قانونی فیصلہ نہیں بلکہ امید کی کرن اور روشن مستقبل کا وعدہ ہے، یہ فیصلہ مضبوط اور پہلے سے زیادہ متحد بھارت کے ہمارے اجتماعی عزم کا اظہار ہے۔ جب کہ دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ بھارتی حکومت نے تحریک حریت کشمیر کے رہنمائوں کو تو پہلے ہی طویل عرصے سے پسِ دیوارِ زنداں رکھا ہوا ہے اور ان میں سے قائدِ حریت سید علی گیلانی شہید سمیت کئی کشمیری رہنما قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکے ہیں، تاہم بھارتی عدالتِ عظمیٰ میں دائر 5 اگست 2019ء کے اقدام کے خلاف بیس سے زائد درخواستوں کی سماعت کے بعد عدالت کا محفوظ فیصلہ سنانے سے قبل حکومت اس قدر خوف زدہ تھی کہ ماضی کے اپنے منظورِ نظر سابق وزرائے اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو بھی نظربند کر نا ضروری سمجھا۔

بھارتی عدالتِ عظمیٰ کا یہ پہلا فیصلہ نہیں جس نے بھارت پر راج کرنے والے ہندوتوا کے ایجنڈے کی تکمیل کا راستہ ہموار کیا ہو، قبل ازیں بابری مسجد پر ہندو انتہا پسندوں کی دن دہاڑے دہشت گردی اور کئی دیگر معاملات میں بھی یہ عدالت عدل و انصاف کے تمام مسلمہ عالمی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اس طرزِعمل کا مظاہرہ اور اپنے کردار کو داغ دار کرچکی ہے۔ تازہ فیصلے میں واضح حقائق کو جس طرح مسخ کیا گیا ہے اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ کشمیری عوام اور عالمی برادری اسے قبول کرے گی، قطعی عبث ہے۔ فیصلے میں کشمیر کے بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ الحاق کس نے اور کب کیا؟ بھارتی حکومت خود درخواست لے کر اقوام متحدہ میں گئی تھی کہ کشمیر میں سیزفائر کروا دیا جائے، ہم پورے جموں و کشمیر کے عوام کو رائے شماری کے ذریعے یہ موقع دیں گے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں کہ بھارت سے الحاق کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ… مگر آج تک بھارت نے کشمیری عوام کو یہ موقع نہیں دیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے جبری تسلط کو طول دیتا چلا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی عمل درآمد کی منتظر ہیں تو پھر آخر بھارت سے الحاق کا دعویٰ کیوں کر تسلیم کیا جاسکتا ہے! بھارتی عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کے منافی اور تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، جس سے کشمیر کی بین الاقوامی طور پر مسلمہ متنازع حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان اوّل روز سے خود کو کشمیری قوم کا وکیل کہتا رہا ہے، وہ تنازعے کا بنیادی فریق بھی ہے، مگر موجودہ حالات میں اس کا کردار قطعی اطمینان بخش نہیں۔ پاکستان کے حکمران سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حقائق کو اجاگر کرنے، اقوام متحدہ میں متحرک کردار ادا کرنے، عالمی رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے بجائے مسلسل سستی و سست روی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ آزاد کشمیر کو جدوجہدِ آزادی کا ’’بیس کیمپ‘‘ قرار دیا جاتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے انتہائی افسوس ناک اور منفی کردار ادا کرتے ہوئے وہاں نہ صرف حریت پسندوں کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں بلکہ ایسی کوششوں کی سختی سے حوصلہ شکنی اور انہیں طاقت کے زور پر کچل دیا جاتا ہے۔ حریت پسندوں کی تنظیموں کو خلافِ قانون بلکہ دہشت گرد تک قرار دیا گیا ہے۔ سیزفائر لائن آزاد اور مقبوضہ خطے کے مابین سرحد نہیں بلکہ عارضی لکیر ہے مگر ہمارے برسرِاقتدار طبقے نے عالمی طاقتوں کے دبائو کے تحت بھارت کو یہاں خاردار تار لگاکر دونوں خطوں کے مابین رابطے کو نا ممکن بنانے میں تعاون کیا ہے جس سے حریت پسندوں کی جدوجہد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کے خلاف بھی پاکستانی دفتر خارجہ نے زبانی ردعمل تو دیا ہے مگر کوئی واضح عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ٹھوس، واضح اور عملی اقدامات کریں، ورنہ کشمیر میں جاری بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے وہ بری الذمہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔(حامد ریاض ڈوگر)