حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
” اس وقت تک مجھ سے حدیث بیان نہ کرو جب تک تمہیں صحیح علم نہ ہو۔ (یاد رکھو)
جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے“۔
(ترمذی)
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ شیطان اُس پر کہاں سے وار کر سکتا ہے؟ اس لیے کہ شیطان ہر انسان پر حملہ کرنے کے لیے اپنا موزوں طریقہ اپناتا ہے۔ وہ زاہد پر زُہد کے طریقے سے، عالم پر علم کے دروازے سے، اور جاہل پر جہالت کے راستے سے وار کرتا ہے، اور یوں اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ شیطان کے چند ہتھکنڈے یہ ہیں:
مسلمانوں کے مابین تنازع اور بدگمانی: شیطان مسلمانوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کرتا ہے۔ وہ بدگمانی پھیلا کر بغض، نفرت اور اختلاف پیدا کرتا ہے۔
بدعت کو خوش نما بنانا: وہ ’جدید عبادت‘ کے نام پر مسلمانوں کو اکساتا ہے۔
تاخیر: وہ سنجیدہ اور بامقصد کام کرنے والوں کو تاخیر پر آمادہ کرتا ہے۔ نیکی کرنے والوں کو کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا۔ وہ سُستی، کاہلی اور تاخیر پر اکساتا رہتا ہے۔
تکبر و غرور: یہ شیطان کی اپنی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا۔
تشکیک: شیطان نیکی کرنے والوں کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کردیں۔
ڈرانا: شیطان اہلِ ایمان کو اپنے لشکروں، پیروکاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے۔ وہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو ڈراتا ہے کہ تم نادار ہوجائو گے۔
نظربازی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے اسے اللہ کے خوف سے چھوڑا، اللہ اسے ایمان عطا فرمائے گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔
شیطان کا طریقۂ واردات: علامہ ابن القیمؒ نے شیطان کے بہکاوے کے چھے تدریجی مراحل یوں بیان کیے ہیں: ’’شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کفر اور شرک کرے۔ اگر شکار مسلمان ہو تو پھر شیطان دوسرا مرحلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ بدعت پر کاربند ہوجائے۔ اور اگر مسلمان سنت پر سختی سے قائم ہو تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں پر اکساتا ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اس سے بھی بچا لے تو شیطان مایوس نہیں ہوتا۔ اب وہ اسے چھوٹے گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر وہ چوتھے مرحلے میں بھی اس کا شکار نہ بنے تو شیطان انسان کو، زیادہ تر مباح کاموں میں مشغول رہنے پر اکساتا ہے، تاکہ وہ اہم اور سنجیدہ کاموں کو نظرانداز کردے۔ چھٹا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو افضل کے بجائے غیرافضل کاموں میں مشغول کردے، مثلاً وہ سنت کا تو اہتمام خوب کرے مگر فرض کو نظرانداز کردے۔ نفلی نماز تو پابندی سے پڑھے مگر فرض نماز ترک کردے۔‘‘
علامہ ابن القیمؒ نے مزید فرمایا:
’’ہر عقل مند جانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:
اسراف و زیادتی: انسان کو زائد از ضرورت سہولیات حاصل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو مطلوب سہولیات مکمل طور پر فراہم کرنے سے بچے۔ وہ غذا، نیند، لذت یا راحت، ہر ایک سہولت سے ضرورت کے مطابق ہی فائدہ اٹھائے۔ شہوات و ممنوعات سے دور رہے۔ یوں وہ دشمن کی مداخلت سے محفوظ ہوجائے گا۔
غفلت: اللہ کو ہر وقت یاد رکھنے والا گویا قلعہ بند ہوجاتا ہے۔ جب انسان ذکر سے غفلت برتتا ہے تو قلعے کا دروازہ کھل جاتا ہے، دشمن اندر آجاتا ہے۔
لایعنی اُمور میں مشغولیت: شیطان انسان کو لایعنی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے، لہٰذا انسان کو تمام فضول و غیر متعلق امور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔
شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے مومن کے ہتھیار:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ کثرت پڑھا کرتے تھے: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین اور طاعت پر ثابت و برقرار رکھ۔‘‘
مومن کو شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل ہتھیار استعمال میں لانے چاہئیں تاکہ اس کے شر اور وسوسے سے امان میں رہے:
اللہ پر ایمان و توکل، صحیح مآخذ سے شرعی علم حاصل کرنا، اخلاص، اللہ کی پناہ میں آنا، مجاہدۂ نفس (یعنی رغبت، خوف، خواہش اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھنا)، استغفار، باوضو رہنا، ذکر، معوذتین (قرآن کریم کی آخری دونوں سورتیں) اور آیت الکرسی پڑھنا۔