پچھلے کالم کا عنوان آنند نرائن ملا کے مشہور شعر کا معروف مصرع تھا ’’چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے‘‘۔ کالم پڑھ کر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر جناب سرشارالحق نے اپنے نامِ نامی، اسمِ گرامی کے تعلق سے تحریر فرمایا:
’’میرا نام سرشارالحق ہے۔ میرے سرکاری اسکول کے اُردو کے استاد ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہ جماعت میں فرماتے تھے’’کاکا یہ بے معنی ہے‘‘۔ اب میری عمر ستّر اور اسّی کے درمیان ہے، میری عمر بھر کی الجھن دور کردیجیے۔ حق عربی میں استعمال ہوتا ہے اور سرشار فارسی میں۔ پھر میرے استادِ محترم ایسا کیوں فرماتے تھے؟ اس نام کا ایک اثر یہ ہوا کہ تمام عمر بے معنی گزاری۔ مگر حق کی سرشاری کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی‘‘۔
صاحب! جن بزرگوں کے نام بے معنی نہیں تھے اُنھوں نے کون سی بامعنی عمر گزارلی؟ اِلّا ماشاء اللہ۔ یعنی سوائے اُن بزرگوں کے جن کو خود اللہ نے چاہا کہ بامعنی عمر گزاریں۔ گنتی کے چند ہی بزرگ ایسے ہوں گے جو اپنی زندگی میں اسم بامسمیٰ نکلے۔ قبلہ! آپ نے کم از کم حق کی سرشاری میں تو عمر گزاری۔ اپنی سرشاریِ حق اور رفتہ و گزشتہ عمر کی معنویت تو آپ نے خود اپنے ایک شعر میں بیان فرما دی ہے:
سب کے اپنے نصیب ہوتے ہیں
کون چڑھتا ہے کس کی سولی پر؟
سو، آپ نے اپنے نصیب سے جو گزاری اور جیسی گزاری، اُس پر خوش رہیے اور باقی بھی گزار دیجیے۔ اُلجھن دور کرنے کی فرمائش پر ہماری تو وہ کیفیت ہوئی جو زیڈ اے بخاری کی ہوئی ہوگی۔ قصہ یہ ہے کہ ایک بار ایک مشہور عالمِ دین کو ریڈیو کے ایک نشریے میں مدعو کیا گیا۔ پروگرام ریکارڈ کرانے کے بعد مولانا کو چائے پلانے کے لیے اسٹیشن ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں لے جایا گیا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار علی بخاری تھے۔ یہی صاحب زیڈ اے بخاری کے مخفف سے مشہور ہوئے۔ زیڈ اے بخاری، مشہور مزاح نگار احمد شاہ بخاری پطرسؔ کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ بڑے بخاری کہے جاتے تھے، یہ چھوٹے بخاری۔ چھوٹے بخاری اپنے بڑے بھائی کے درجے کے مزاح نگار تو نہیں تھے، مگر ’مزاح گو‘ اعلیٰ درجے کے تھے۔ شاعر بھی تھے۔ ریڈیو سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد ریڈیو پاکستان سے دلچسپ اور پُرمزاح گفتگو پر مشتمل دس منٹ کا ایک پروگرام کرتے تھے جس کا نام تھا: ’’زیڈاے بخاری کے ساتھ دس منٹ‘‘۔ تو مولانا والا قصہ یہ تھا کہ چائے پر غالباً گفتگو برائے گفتگو کی خاطر مولانا نے بخاری صاحب سے پوچھ لیا: ’’بخاری صاحب! طنبورے اور تان پورے میںکیا فرق ہوتا ہے؟‘‘
بخاری صاحب سوال سُن کر چکراگئے۔ ایک تو مولانا سے اس سوال کی توقع نہ تھی، دوسرے، فرق غالباً اُنھیں خود بھی معلوم نہ تھا۔ مگر آدمی حاضر دماغ اور حاضر جواب تھے۔ سنبھل کر پوچھا:’’مولانا! اِس وقت آپ کی کیا عمر ہوگی؟‘‘
مولانا بھی چکرا گئے۔ عمر پوچھنے کا یہ کون سا موقع تھا؟ خیر، اُنھوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا:’’یہی کوئی پچہتر برس کے لگ بھگ‘‘۔
بخاری بولے: ’’مولانا! جہاںآپ نے اپنی عمرعزیز کے 75سال طنبورے اور تان پورے کا فرق جانے بغیر گزار دیے، وہیں کچھ برس اور بھی گزار لیجیے!‘‘
بلاشبہ ’سرشار‘ فارسی کا لفظ ہے۔ فارسی میں ’شار‘ کے معنی ہیں سیلان یا بہاؤ۔ ’سرشار‘ کا مطلب ہے وہ چیز جو سر سے چھلک جائے۔ لبا لب ہونا۔ اس معنی سے کنایتہً لیے گئے معنی ہیں ’نشے سے بدمست ہوجانا‘۔ گویا بدمستی کی کیفیت ’سرشاری‘ ہوتی ہے۔ شہیدیؔ کو شبہ تھا:
مے کشو! سرخ ہیں آنکھیں جو تمھاری، شاید
شب تمھیں ساقیِ سرشار نے سونے نہ دیا
جب کہ صائبؔ کا کہنا ہے کہ ساقی کی نظرِ التفات مخمور کو سرشار کردیتی ہے اوراُس کی نگہِ عتاب بدمست کو ہُشیار:
مخمور را نگاہِ تو سرشار می کند
بد مست را عتابِ تو ہشیار می کند
اب رہا ’سرشاری‘ کو حق کے ساتھ جوڑنے کا معاملہ… تو ہرچند کہ اہلِ معاملہ نے فارسی عربی جوڑ اور ہندی فارسی پیوند کو سخت ناپسند کیا ہے، مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہوتا آرہا ہے۔ مثلاً ’قریب المرگ‘ اور ’لبِ سڑک‘۔ مثالیں اور بھی ہیں۔ انھیں مثالوں سے مجبور ہوکر ماہرین لسان نے جواز کی راہ نکالی اور ان تراکیب کو ’اُردو تراکیب‘ کا نام دیا گیا۔ کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جو لفظ اُردو میں آجائے، ضروری نہیں کہ جس زبان سے آیا ہے، یہاں آکر بھی وہ اُسی زبان کے قواعد کا پابند رہے۔ ترکِ وطن کرکے اس لفظ نے جس زبان کی شہریت اختیار کی ہے، اب اسی زبان کے قواعد کے تحت اسے اپنی عمر گزارنی ہوگی۔ چناں چہ ہمارے ہاں ’کتب‘ کی جگہ ’کتابیں‘ کہنے کا رواج ہے۔ ہماری عدالتوں میں ججز کے بجائے ججوں کا تقرر ہوتا ہے۔ کسی موقعے پر’شب ہا‘ کہنا ہو تو ہمارے شاعر کو ’’اس کی شبوں کا گداز‘‘یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو’پارلیمان‘ کہہ کر اُردو نے قبول کیا تو نامناسب الفاظ کو ’غیر پارلیمانی الفاظ‘ قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ ہمیں اخبارات میں ’بین الپارلیمانی‘ کی ترکیب بھی پڑھنی پڑ گئی۔ یہ تو سپہ سالارانِ لسان ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے کمان داروں کو ’الپارلیمان‘ِ قبول ہے یا نہیں؟ یہاں واضح کرتے چلیں کہ یہ ہماری زبان کا ’کمان دار‘ تھا جو انگریزوں کی غلامی اختیار کر کے ‘Commander’ بن بیٹھا۔
یوں تو رتن ناتھ سرشارؔ سے لے کر سرشارؔ صدیقی تک بہت سے سرشار ہو گزرے ہیں، مگر ایک روز ایک رہ گزر پر ایک صاحب ایسے بھی ملے جن کا نام سرشارالرحمٰن تھا۔ اُن سے عرض کیا: ’’اگر کوئی شخص آپ کے عقب سے آپ کا پورا نام لے لے کر آپ کو مسلسل دو تین بار پکارنا چاہے تو اُس کے لیے آپ کے والدین نے اچھی خاصی لسانی لڑکھڑاہٹ کھڑی کردی ہے‘‘۔ اپنے والدین کی اس ہُشیاری پرنہایت سرشاری سے تادیر مسکراتے رہے۔ اُن سے مل کر یاد آیا کہ ہمارا ایک ہم جماعت ہوا کرتا تھا۔ اُس کے والدین نے خسرو پرویز جیسے دشمنِ خدا اور دشمنِ رسولؐ کے نام کے ساتھ ’الحق‘ جوڑ کر اپنے بیٹے کو ’پرویزالحق‘ بنا چھوڑا تھا۔ خدا جانے اس بے معنی نام کے ساتھ اُس کی عمر کیسی گزری ہوگی؟ مگر ہماری ان بقراطیوں سے، امید کی جاتی ہے کہ، سرشارالحق صاحب کی ’عمر بھر کی الجھن‘ کو کچھ نہ کچھ سلجھن مل ہی گئی ہوگی۔
سرشارالحق میں جو ’سر‘ ہے وہ بڑی قیمتی اور کثیرالاستعمال شے ہے۔ ’سر‘ کا عام مفہوم چندیا، کھوپڑی، مُوڑی، مُنڈی یعنی انسانی جسم میں گردن سے اوپر کا تمام علاقہ ہے۔ مگر کسی بھی چیز کے بالائی حصے، سرے، چوٹی یا آغاز کو بھی ’سر‘ کہا جاتا ہے، مثلاً ’سرِشام‘۔ ہمارے ہاں سین پر زبر ہے، مگر ہندی میں اور بیگمات کی زبان میں سین کو زیر کرکے بولا جاتا ہے۔ میر انیسؔ نے بھی سین بالکسر والا تلفظ استعمال کیا ہے:
بالائے زمیں تیغ سے کٹ کٹ کے گرے سِر
اِک چشم زدن میں صفِ اوّل ہوئی آخر
زیر ہو یا زبر، لیکن سر ہے بڑے کام کی چیز۔ یوں تو اس سے کئی کام لیے جاتے ہیں، اُٹھایا جاتا ہے، جھکایا جاتا ہے،اونچا کیا جاتا ہے اور بالآخرتھام لیا جاتا ہے۔ غرض اسی طرح کے بے شمار مصارف ہیں۔ مگرسر کا سب سے اچھا مصرف ہے ہلانا۔ حکمرانوں کی ہر بات پر سر ہلاتے رہیے، سر سلامت رہے گا۔ نہ ہلایا تو کٹانا پڑے گا۔ صاحبو! اب ہم یہیں بس کرتے ہیں۔ کیوں کہ بقول اطہر نفیسؔ’’ہم آج بہت سرشار سہی، پر اگلا موڑ جدائی ہے‘‘۔ یعنی اگرکچھ زیادہ ہی ’سرشارالحق‘ ہوگئے تواگلا مرحلہ ہے سرکا تن سے جدا ہوجانا۔