پیر بھائیوں کے حقوق کلاس فیلوز، آفس کولیگز، ہم عصرعلما و مشائخ کے لیے

اسلام میں پیرِ کامل اپنے مریدین کے دلوں میں عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر کسی کو بیعت کرتا ہے، اور اسی طرح مریدوں کو بھی صحابہؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے فیوض و برکات کے حصول اور تزکیہ نفس کے لیے بیعت ہونا چاہیے جو کہ پیری مریدی کے اس نظام کا مقصد ہے۔

کامل مرشد مرید کے نفس کی اصلاح کرتا ہے، اور اسی اصلاح کی بدولت مرید کا خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا مرض ختم ہوجاتا ہے اور ایک مرید خود کو ہوا میں اڑنے والے مچھر، یا زمین میں رینگنے والی چیونٹی سے بھی کم تر اور کم زور سمجھتا ہے، وہ اپنے پیر بھائیوں کے ادب کے ساتھ ساتھ سب مسلمانوں کا ادب کرتا ہے اور ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھنے لگتا ہے۔

پیش لفظ میں پیرزادہ مدثر علی محسنی لکھتے ہیں:

’’خواجہ فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص تمہارے خلاف کوئی جھوٹی بات کہے تب بھی تم اُس سے بدلہ لینے کا سوچتے ہو اور سال ہا سال دل میں اُس سے بغض اور نفرت رکھتے ہو، لہٰذا جب جھوٹی اور ناشائستہ بات کا دل پر اس قدر اثر ہوتا ہے تو اندازہ کیجیے سچی اور شائستہ باتوں کا اثر کتنا زیادہ ہوگا‘‘۔

مزید لکھتے ہیں ’’سچ بولنا مشکل ہے اور سچ بولنے سے مشکل ہے سچ سننا، جبکہ سچ سننے سے مشکل ہے سچ کو تسلیم کرنا، اور تسلیم کرنے سے مشکل ہے سچ کی تصدیق کرنا۔ لہٰذا سچی بات کو قبول کرنے والا ہی حلیم الفطرت کہلاتا ہے، جب کہ فقط عقل کی غلامی کرنے والا دل اس آفاقی حقیقت کا لطف ہرگز حاصل نہیں کرسکتا‘‘۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:

صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول

میرے شیخ معظم محمد محسن منور یوسفی لکھتے ہیں کہ مفتی احمد یار خان نعیمیؒ فرمایا کرتے تھے ’’قرآن سے ہر شخص ہدایت نہیں لے سکتا، اس سے گمراہی بھی ملتی ہے۔ یعنی جس کے دل میں قرآن والے سے تعلق اور محبت ہو اُس کو قرآن سے ہدایت ملے گی، اور جس کے دل میں محبوب سے الفت نہ ہو اسے قرآن سے گمراہی ہی ملے گی۔ قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے کہ اگر سینے میں تحم (بیج) اچھا ہے تو درخت اچھا ہی نکلے گا۔‘‘

پیرو مرشد کے ادب کے عنوان پر طریقت، روحانیت و تصوف، اور اسی طرح اپنے پیرو مرشد کی روحانی اولا مریدین یعنی پیر بھائیوں (کلاس فیلوز، کولیگز، ہم عصر مشائخ) کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ و تعلق رکھنا چاہیے، ایک دوسرے سے متعلق کن خیالات کا اظہار کرنا چاہیے، کس طرح باہمی اختلاف کی صورت میں احترام کا دامن ہرگز ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے، اس موضوع پر پیرزادہ مدثر علی محسنی مدظلہ العالی نے بہت عمدہ لوازمہ پیش کیا ہے جو لائقِ تحسین بھی ہے اور لائقِ توجہ بھی۔ انہوں نے دوستوں کی اللہ و رسول کریمؐ کی نسبت سے باہمی محبت کی خاطر خامہ فرسائی کی جسارت کی ہے، اللہ کریم ان کے خلوص و محبت کے دامن میں رکھتے ہوئے اللہ کے بندوں کی محبتوں اور نگاہِ رحمت و توجہ کا حق دار بنادے۔ خوب صورت سرورق اور سفید کاغذ پر کتاب اچھی طبع ہوئی ہے۔ اس کا ایک ایڈیشن انڈیا سے بھی چھپ گیا ہے۔