ماہنامہ ’’برہان‘‘، ندوۃ المصنفین(دہلی) کا علمی ترجمان جریدہ تھا، جس کا پہلا شمارہ جولائی 1938ء میں شائع ہوا۔ مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولاناسعید احمد اکبر آبادی اس کے بانی ارکان تھے۔ ماہنامہ ’’برہان‘‘ کے اجراء سے اپنی وفات (1985ء) تک مولانا سعید احمد اکبر آبادی اس کے مدیر رہے، البتہ درمیان کے تقریباً تین سال (فروری 1943ء تا دسمبر 1945ء) مولانا کے سینٹ اسٹیفنس کالج، دہلی میں بحیثیت لیکچرار تقرر کے باعث مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ’’برہان‘‘کی ادارتی ذمے داریاں ادا کیں۔ بعد ازاں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی وفات کے بعد مارچ1985ء سے مئی1985ء تک مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے داماد اطہر صدیقی نے ’’برہان‘‘ کے ادارتی فرائض سر انجام دیے۔ ان کے انتقال کے بعد جمیل مہدی کچھ عرصے کے لیے مدیر رہے۔ 3فروری1988ء کو جمیل مہدی راہیِ ملکِ عدم ہوئے تو عمید الرحمن عثمانی(فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی)نے مدیر کے فرائض سنبھالے اور اُنھی کی ادارت میں مارچ اور اپریل2001ء کے مشترکہ شمارے کے ساتھ ’’برہان‘‘ کی اشاعت کا یہ طویل اور شان دارسلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
ماہنامہ’’برہان‘‘ کے اداریے ’’نظرات‘‘ کے مخصوص عنوان سے شائع ہوتے تھے۔ بیشتر نظرات مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ پیشِ نظر کتاب ’’نظراتِ برہان‘‘ ماہنامہ’’برہان‘‘، دہلی کے تمام اداریوں پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق (صدر شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی) نے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرصاحب کا کہنا ہے کہ:
’’مولانا اکبرآبادی کے یہ نظرات ان کے وسیع مطالعے، عمیق مشاہدے، تبحرِ علمی، زبان و بیان پر قدرت اور اثر آفرینی کے باعث آج بھی قابلِ مطالعہ اور لائقِ توجہ ہیں۔ برہان کے نظرات لکھنے والوں میں مدیرانِ معارف مولانا سعید اکبر آبادی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، محمد اظہر صدیقی، جمیل مہدی، عمید الرحمن عثمانی کے علاوہ پروفیسر عبادت بریلوی بھی شامل ہیں، جنھوں نے جون 1948ء کے نظرات تحریر کیے۔ ’’نظراتِ برہان‘‘ ہندوستان کی کم و بیش 63 سالہ علمی، دینی، سماجی اور سیاسی تاریخ کے نشیب و فراز کے آئینہ دار ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کی ہمہ جہت تاریخ پر ایک حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ایک مخصوص نقطہ نظرکے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’برہان‘ کے سیاسی نظریات اور پالیسی سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود اس عاجز مرتب نے تاریخ کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے ان نظرات کی تلاش، جمع آوری، ترتیب اور اشاعت کو ضروری سمجھا اور بفضل ِ ربی دو سال کی تلاش و جستجو اور محنت کے بعد اسے پیش کرنے کے قابل ہوسکا۔‘‘
کتاب کا وقیع علمی و تحقیقی مقدمہ پروفیسر ڈاکٹرمجیب احمد (ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان) نے رقم کیا ہے۔ جب کہ پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی (شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، انڈیا) نے ’’نظراتِ برہان۔ موسوعہ مباحث‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون تحریرکیا ہے جس میں انہوں نے اس کے مشمولات کی اہمیت اور حسن و خوبی کو نمایاں کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’نظراتِ برہان‘‘ کی ترتیب و اشاعت پر اس کے فاضل مرتب اور ناشر کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر اصلاحی رقم طراز ہیں:
’’مولانا اکبرآبادی اور دیگر حضرات مولانا عتیق الرحمن عثمانی، محمد اظہر صدیقی، عمیدالرحمن عثمانی اورجمیل مہدی کے نظرات کو پاکستان میں رہ کر ترتیب دینا کارِ دشوار است۔ جولائی 1938ء سے اپریل 2001ء تک کے تمام شماروں تک رسائی حاصل کرنا آسان نہیں۔ لیکن جس کے یہاں علمی فکرمندی، تحقیقی جستجو اور ترتیبی اشتیاق ہو وہ ہر محاذ کوجیت لیتا ہے اور ہرسنگِ میل کو چوم لیتا ہے۔ نیز کوہِ گراں سے گزر جانا اس کے لیے دشوار نہیں۔ ڈاکٹر سہیل شفیق کے یہاں تحقیقی مداومت اورتحریری مواظبت ہونے کے سبب کامیابیاں قدم بہ قدم آپ کا استقبال کرتی ہیں بلکہ آپ کی رفیقِ کار بن گئی ہیں۔ اس سے قبل ایک بڑا کام آپ نے یہ کیا کہ ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ کا اشاریہ تیار کیا جس سے اہلِ علم مستقل استفادہ کرتے رہیں گے۔ اکثر راقم نے شعبہ اسلامیات (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے کتب خانے میں دیکھا کہ اس اشاریے کی اوراق گردانی ہورہی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے لیے کلمات تشکر بھی ادا ہورہے ہیں۔ ترتیب نظرات ماہنامہ برہان بھی ایک بڑا کام ہے۔
یہ عظیم خدمت ادارہ قرطاس کراچی سے شائع ہوئی ہے جس کے لیے ہم قرطاس کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کے صمیمِ قلب سے شکر گزار ہیں۔ ادارہ قرطاس نے اپنی مطبوعات سے علم وتحقیق کی راہیں وا کی ہیں۔ اس ادارے کا مقصد حصولِ زر ہرگز نہیں بلکہ اس کا اساسی ہدف یہ ہے کہ معیاری تصانیف وتحقیقات کو ممکن الحصول بنایا جائے، نصوص تک پہنچنے کے لیے راہیں استوارکی جائیں۔ پروفیسر نگارصاحبہ خود ایک معروف صاحب ِقلم اور مجلہ ’’الایام‘‘ کی مدیرہ ہیں۔ انھیں ترسیلِ مطبوعات کا عشق ہے اورنقود سے نفورِ کامل بھی، بس یہی تقسیمِ علم آپ کا مقصد ِحقیقی ہے۔‘‘
پیشِ نظر کتاب ’’نظراتِ برہان‘‘ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں جولائی 1938ء تادسمبر 1967ء اور دوسری جلد میں جنوری 1968ئسے اپریل 2001ء تک کے نظرات شامل ہیں۔ دونوں جلدوں کے آخر میں ’’نظراتِ برہان‘‘ کے عنوانات (مرتب کے قائم کردہ) کا اشاریہ بھی شامل ہے۔ ’’نظراتِ برہان‘‘ میں برہان کے اداریوں کی تاریخِ اشاعت،عنوان اور اداریہ نگاروں کا نام ’فہرس‘ میں درج کردیا گیا ہے۔ ’فہرس‘ میں نظرات کے عنوانات کا اندراج’’برہان‘‘ کی زمانی ترتیب کے مطابق ہے۔ جب کہ اشاریہ عنوانات، شخصیات و وفیات کو الف بائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔
کتاب کی قیمت بظاہر زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور بڑے سائز کے تقریباً 1300 صفحات پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں کاغذ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے باوجود عمدہ سفید کاغذ پر جس سلیقے اور عمدگی سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے کتاب کی یہ قیمت بہت مناسب ہے۔ ایسی تاریخی دستاویزات روز روز شائع نہیں ہوتیں۔ امید ہے اہلِ علم و تحقیق بالخصوص پاک و ہند کی علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی تاریخ میں دلچپسی رکھنے والے افراد فراخ دلی سے اس کا خیرمقدم کریں گے۔