بارہ قبیلے:جنہوں نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا اور عذابِ الٰہی کی زد میں آگئے

’’محرب و منبر‘‘ دراصل روزنامہ حریت کراچی کا ایک مستقل چھپنے والا کالم ہوتا تھا جو کہ 1960ء کی دہائی کے اوائل سے 1970ء کی دہائی کے اوائل تک روزانہ بلاناغہ شائع ہوتا رہا اور اپنی مخصوص طرز نگارش و اسلوب کی وجہ سے عوام الناس اور اُس وقت کے ادبی حلقوں میں بے انتہا مقبول تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بنی اسرائیل اور یہود کی تاریخ پر سلسلہ وار کالم بھی لکھے تھے۔

فرائیڈے اسپیشل میں تاریخی اہمیت کے حامل ان مضامین کو سلسلہ وار شائع کیا جارہا ہے۔

یہ بارہ قبیلے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے ہجرت کرکے شام اور فلسطین کے علاقے میں آکر بسے تھے۔ یہ ایک نبی کی قیادت میں اس عہد کے ساتھ مصر سے نکلے تھے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکام نافذ کریں گے اور جن مشرک قوموں نے اس علاقے پر اپنا جبر و استبداد قائم کررکھا ہے ان سے جنگ کرکے ان کو زیر کریں گے۔ مگر جب وہ فراعنۂ مصر کی غلامی سے چھٹکارا پاکر فلسطین میں داخل ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد تقریباً اس سارے علاقے کو انہوں نے فتح کرلیا تو اس الٰہی میثاق کو فراموش کردیا جس پر ان کے اتحاد و اتفاق کا دارومدار تھا۔ جب ان کو باہم جوڑنے والی کوئی چیز باقی نہ رہی تو وہ ایک دوسرے کے مخالف بن بیٹھے اور اپنے مفتوحہ علاقے میں کوئی متحدہ مرکزی سلطنت قائم نہ کرسکے، ان کے درمیان طوائف الملوکی پھیل گئی اور ایک الٰہی سلطنت کے بجائے بارہ قبائلی ریاستیں بن گئیں جو آپس میں ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی تھیں۔

بنی اسرائیل کے یہ بارہ قبیلے یہوداہ، شمعون، دان، بن یمین، فراییم، روہین، جد، منستی، اشکار، زیولون، نفتالی اور آشر کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی یہ علیحدہ علیحدہ ریاستیں آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہمیشہ کمزور رہیں اور بنی اسرائیل تورات کے اس منشا کو پورانہ کرسکے کہ مشرک قوموں کا خداوند خدا کی زمین پر استیصال کردیا جائے اور خداوند خداکا کلمہ بلند کیا جائے۔ اُس وقت جب کہ بنی اسرائیل متفرق و منتشر تھے مشرک کنعانی قوموں کی شہری ریاستیں بدستور قائم رہیں اور صپیدا، صور، دور، مجدد، بیت شان، جزر، یروشلم وغیرہ بڑے بڑے شہر انہی مشرکوں کے زیر اثر رہے، اور بنی اسرائیل کے یہ متفرق قبیلے جو تورات کے احکام کو پس پشت ڈال چکے تھے، ان شہروں کی مشرکانہ تہذیب اور ان کے فسق و فجور سے برابر متاثر ہوتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بعض بتوں اور استھانوں پر نذر نذرانے بھی چڑھانے شروع کردیے اور ان کی وہ حیثیت کہ اس زمین پر وہ اللہ کی توحید اور اس کے کلمے کو قائم کرنے کے لیے مامورکیے گئے ہیں، باقی نہیں رہی۔ اسرائیلی قبائل جس علاقے پر قابض تھے اس کی سرحدوں پر فلسفی، اودمی، آبی اور عمونی قبیلوں کی بڑی طاقتور ریاستیں موجود تھیں۔ جب انہوںنے بنی اسرائیل کو منتشر اور کمزور دیکھا تو چاروں طرف سے وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور پے در پے حملے کرکے ان کا بہت سا علاقہ چھین لیا۔ اور یہ نوبت آگئی کہ شاید بنی اسرائیل کو فلسطین سے بڑی ذلت و خواری کے ساتھ نکال دیا جاتا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک موقع دیا اور سموئیل نبی کی زیر قیادت طالوت نے ان کو منظم اور متحد کیا اور دشمنوں کو شکستِ فاش دے کر ایک مضبوط سلطنت قائم کردی۔

اس سلطنت کی بنیاد تورات کی تعلیمات کے مطابق نظریۂ توحید اور الٰہی قوانین پر رکھی گئی اور 926ق۔م سے 120 ق۔م تک طالوت، دائودؑ اور سلیمانؑ یکے بعد دیگرے اس کے فرمانروا ہوئے۔ ان تینوں فرمانروائوں نے جن میں سے دو منصبِ نبوت پر فائز تھے، اس ایک صدی میں اس کام کو مکمل کردیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔

حضرت سلیمانؑ کے بعد پھر یہ بدبخت قوم بغاوت اور انحراف کی روش پر چل نکلی اور انسانی ہدایت و رہنمائی کے فریضے کو چھوڑ کر دنیا پرستی میں غرق ہوگئی، اور دوبارہ بنی اسرائیل کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، یہاں تک کہ انہوں نے آپس میں لڑ کر دو علیحدہ سلطنتیں قائم کرلیں۔ ایک سلطنت تو شمالی فلسطین اور شرقِ اردن میں قائم ہوئی جس کا پایۂ تخت سامریہ تھا، اور دوسری سلطنت یہوداہ تھی جو جنوبی فلسطین اور اذوم کے علاقوں پر قابض تھی، اس کا پایۂ تخت یروشلم تھا۔

ان دونوں سلطنتوں میں بسنے والے اسرائیلی قبائلی خدا پرستی سے دور ہوتے اور مشرکانہ رسوم و رواج کو اپناتے چلے گئے۔ عقائد کی اس خرابی کے ساتھ تیزی سے اُن کے اندر اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا اور وہ ہر اُس برائی پر دل و جان سے فریفتہ ہوتے چلے گئے جو مشرک اور کافر قوموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس سارے عرصے میں اللہ کی طرف سے کئی نبیوں اور خدا ترس اصلاح پسندوں نے اُن کو دنیا پرستی کی اس دلدل سے نکالنے اور اللہ کی اطاعت و وفاداری پر قائم کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اس قدر سرکش اور انجام سے لاپروا ہوگئے تھے کہ انہوں نے ان تمام اصلاحی تحریکوں کا مذاق اڑایا، خدا کے فرستادہ نبیوں اور اپنے ہمدرد رہنمائوں کی تذلیل و توہین کی، بلکہ ان کے خون تک سے اپنے ہاتھ رنگے۔ یرمیاہ نبی کی تقریر میں ان کی اس مشرکانہ اور فاسقانہ روش کا مکمل خاکہ ملتا ہے:

’’خداوند نے مجھ سے فرمایا:
’’کیا تُو نے دیکھا کہ برگشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست) نے کیا کیا؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے گئی اور وہاں بدکاری و بت پرستی کی… اور اس کی بے وفا بہن یہوداہ (یعنی یروشلم کی یہودی ریاست) نے یہ حال دیکھا۔‘‘

پھر میں نے دیکھاکہ جب برگشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا یعنی اپنی رحمت سے محروم کردیا‘ تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جاکر بدکاری کی اور اپنی بدکاری کی برائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (بت پرستی) کی۔‘‘