خشک میوے موسم سرما کی سوغات

کراچی میں موسم سرما بہت مشکل سے اور بہت کم عرصے کے لیے آتا ہے۔ موسم سرما نہیں آتا تو سرما کا کلچر بھی نہیں آتا۔ مرچ مسالے، مسالے دار کھانے، نہاری، پائے، مچھلی، گاجر، انڈے کا حلوہ، چکن سوپ، کشمیری چائے اور پھر خشک میوہ جات کھانے کو کم ملتے ہیں۔ خشک میوہ جات سال بھر بھی کھائے جاسکتے ہیں مگر موسم سرما میں انھیں فوقیت دی جاتی ہے۔ شدید سردی ہو، کوئٹہ کی ہوا چل رہی ہو، تو کمبل لحاف اوڑھ کر میوہ جات (اخروٹ، بادام، پستہ، چلغوزہ، کاجو اور مونگ پھلی)کھانے کا مزا اور ہے۔ ویسے ہمارے ہاں میوہ جات سے تواضع بھی کی جاتی ہے اور میٹھے کھانوں میں بھی انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ میوہ جات میں سب سے سستا میوہ مونگ پھلی ہے جو سردی کے موسم میں بازار میں آجاتی ہے۔

اخروٹ: ایک ہموار سخت خول کا میوہ ہے۔ اس کا مغز نرم ہوتا ہے جب کہ اس کا چھلکا بہت سخت اور ٹھوس ہوتا ہے۔ مغز اور چھلکا دونوں اپنی ساخت کے اعتبار سے گول ہوتے ہیں۔ اس کی ایک قسم کاغذی اخروٹ بھی ہوتا ہے جس کا چھلکا ہاتھ سے دبانے سے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے مغز میں ایک قسم کا فرازی تیل پایا جاتا ہے جس میں بے حد تیزی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر اخروٹ کو زیادہ مقدار میں کھا لیا جائے تو منہ، زبان اور گلے میں سوزش ہوجاتی ہے۔ اس کا چھلکا خام حالت میں سبز ہوتا ہے، جب کہ پختہ ہونے پر خاکی رنگ کا ہوجاتا ہے، جب کہ مغز سفید خاکی مائل ہوتا ہے۔ اس کا مغز چرب خشک لیکن بہت لذیذ ہوتا ہے۔

اخروٹ کے درخت پاکستان میں وادی کاغان، کوہ مری اور بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اخروٹ ایران میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے درخت کی لمبائی ایک سو فٹ سے ایک سو بیس فٹ تک ہوتی ہے جب کہ گولائی بارہ فٹ سے اٹھائیس فٹ تک ہوتی ہے۔ جب اس درخت کی عمر چالیس ماہ ہوجاتی ہے تو اس پر پھل آنے لگتے ہیں۔ پھلوں کو اکٹھا کرنے کے تین ماہ بعد انھیں استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے ان میں دودھ جیسی رطوبت بھری ہوتی ہے جو تین مہینے بعد جم کر مینگ یا مغز بن جاتی ہے۔

سو گرام اخروٹ میں ۵۲۵ حرارے،۱۰ اعشاریہ ۶گرام پروٹین، ۸۱ اعشاریہ ۵ گرام چکنائی، ۵ اعشاریہ ۲ گرام ریشہ (پھوک) اور ۶۹۰ ملی گرام پوٹاشیم پایا جاتا ہے۔

اخروٹ کے اندر خانے بنے ہوتے ہیں جن میں سفید رنگ کا مغز ہوتا ہے۔ یہی مغز کھایا جاتا ہے۔ اخروٹ کا مغز بدہضمی دور کرتا ہے اور طاقت دیتا ہے۔ اخروٹ کے مغز کو کڑاہی میں تھوڑا سا بھون کر کھایا جائے تو دوسرے فائدوں کے ساتھ ساتھ سرد کھانسی کو بہت فائدہ دیتا ہے۔ اخروٹ کا تازہ چھلکا دانتوں پر مَلنے سے مسوڑھے اور دانت مضبوط ہوجاتے ہیں۔ اسے دنداسہ کہتے ہیں۔ چوںکہ اس کا رنگ چڑھتا ہے اس لیے یہ خاص طور پر عورتوں کے لیے بہترین قسم کا مسواک ہے۔ اس سے منہ کا گندہ لعاب خارج ہوجاتا ہے، دانت صاف اور مسوڑھے مضبوط ہوجاتے ہیں۔ معدے کی سردی کے لیے مغز اخروٹ شہد کے ہمراہ کھانا مفید ہے۔

اخروٹ کی گری لطیف ہے۔ اجابت خلاصہ لاتی ہے، اعضائے رئیسہ کو قوت پہنچاتی ہے، خصوصاً دماغ کو قوت دیتی ہے، حواس کو روشن کرتی ہے۔ بوڑھوں کے لیے موافق ہے، تازہ کھانا چاہیے۔ خونِ صالح پیدا کرتی ہے۔ معدے کے کیڑے نکالتی ہے۔ چوٹ کے نشان پر تازہ گری کا لیپ سداب اور شہد کے ساتھ لگانے سے چوٹ کا نشان مٹ جائے گا۔ اس کی گری نہار منہ چباکر داد پر لگانے سے داد ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی گری معدے کو موافق ہے۔ اخروٹ کی گری باہ اور حافظہ کو قوت دیتی ہے۔ آتشک کی بیماریوں میں مفید ہے۔ ریاح اور بدہضمی کو دور کرتی ہے۔ بھنی ہوئی گری کھانا فائدہ مند ہے۔

گری کو پیس کر ناف پر لیپ کیا جائے تو مروڑ ختم ہوجاتی ہے۔ پانی میں جوش دے کر پانچ روز تک پینے سے سر کا تنقیہ ہوجاتا ہے اور ذہن اور فکر میں تیزی آجاتی ہے۔ سرکے میں ڈالی ہوئی گری ضعف ِ معدہ کے لیے تریاق کا اثر رکھتی ہے۔ سبل اور دمہ میں فائدہ مند ہے۔ اخروٹ کی پرانی گری کو چباکر آنکھ کے ناسور پر لگانا فائدہ مند ہے۔ منہ پر مَلنے سے منہ کا تشنج دور ہوجاتا ہے۔ ساڑھے دس گرام اخروٹ کی گری ہم وزن مصری کے ساتھ سات دن تک کھانے سے کمر کے درد کو فائدہ ہوتا ہے۔

انجیر کے ساتھ کھانے سے زہر اثر نہیں کرتا۔ دیوانے کتے کے کاٹے کے مقام پر شہد، نمک اور پیاز کے ساتھ لگائیں تو فائدہ ہوتا ہے۔

اخروٹ کے درخت کے تمام اجزاء میں قوت ِ قابضہ پائی جاتی ہے۔

بادام:بادام بحرِ روم کے ساحلی علاقہ جات، جنوب مغربی ایشیا، امریکہ، پرتگال، اسپین، ایران، مراکش اور اٹلی میں پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی بادام پیدا ہوتا ہے مگر یہ ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔ بادام ایک ایسا میوہ ہے جسے دورِ حاضر کے عوام الناس کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ قدیم یونانی اور مصری عام باشندے اس کے استعمال پر قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ میوہ اُس دور کے امراء اور بادشاہوں تک محدود تھا۔ اسے ایک مقدس میوہ تصور کیا جاتا تھا اور اس درجہ تقدس کی بنا پر عوام الناس اس کے استعمال سے محروم رہتے تھے۔ یہ کشمیر، شمالی علاقہ جات اور تبت کے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مصر کے اہراموں میں دفن شدہ ممیوں میں لاش کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے جو مسالے استعمال ہوتے تھے ان میں مغز بادام کا سفوف بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ گزشتہ برسوں عراق میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ایک شہر کی کھدائی کے دوران حیرت انگیز انکشاف کیا ہے، انہیں کھدائی کے دوران ایک چھوٹی سی صندوقچی ملی جو بالکل صحیح سلامت تھی۔ اس صندوقچی کو کھولنے پر اس سے کچھ بادام برآمد ہوئے جنھیں کیڑا نہیں لگا تھا اور ان کا پوست بھی درست حالت میں تھا۔ جب ایک بادام کو توڑا گیا تو اس سے اس کا مغز بھی صحیح حالت میں نکلا۔ اس کا ذائقہ بھی خراب نہیں ہوا تھا، البتہ اس کا روغن خشک ہوچکا تھا۔ ان باداموں کی قدامت کا تخمینہ سات ہزار سال لگایا گیا ہے۔ بادام کا ذکر انجیل مقدس میں بھی ہوا ہے۔ بادام کے خوشے یہودی لوگ اپنے معابد میں ساتھ لے جایا کرتے تھے۔

بادام کو مغزوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کی غذائیت وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ اس میں وہ تمام عناصر ہوتے ہیں، جن کی انسانی بدن کو ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی مؤثر، صحت بخش غذا ہے جو بدن اور دماغ دونوں کو فائدہ دیتی ہے۔ یہ متعدد عام بیماریوں کا غذائی علاج بھی ہے۔

سو گرام بادام میں ۵۶۴ حرارے، ۱۹ گرام پروٹین، ۲۰ گرام نشاستہ، ۵۴ گرام چکنائی اور ۱۵ گرام ریشہ (پھوک) پایا جاتا ہے۔

اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں: کاغذی اور کاٹھا۔ کاٹھا ذرا سخت ہوتا ہے۔ ذائقے کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں: شیریں اور کڑوا۔ کڑوا بادام کھانا نہیں چاہیے۔ یہ زہریلا ہوتا ہے۔ بادام طاقت بخشتا ہے۔ پورے بدن کی خشکی اور خاص طور پر دماغ اور آنتوں کی خشکی کو دور کرتا ہے۔ خشک کھانسی کے لیے اسی وجہ سے مفید ہے۔ بینائی کو تیز کرتا ہے۔ بادام کے استعمال کے بے شمار طریقے رائج ہیں۔ قبض دور کرنے اور دماغی طاقت وغیرہ کے لیے عام طور پر روغنِ بادام استعمال ہوتا ہے۔ اسے سوتے وقت نیم گرم دودھ کے ساتھ ملاکر پیا جاتا ہے۔

قوت و طاقت کے لیے ۱۲ عدد بادام اور ۱۲ گرام کشمش رات کو پانی میں بھگو دیں۔ صبح چبا چبا کر کھائیں۔ پسے ہوئے باداموں کو جَو کے پانی (بارلے واٹر) کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پسے ہوئے بادام کے ساتھ شہد ملانے سے اس کی طاقت اور فوائد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

پستہ: یہ ایک کثیرالفوائد میوہ ہے اور دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ اس میوے کا آبائی وطن بحیرہ روم سے ملحقہ ممالک اور الجزائر ہیں، جب کہ امریکہ، ترکی، شام، ایران، اسپین، اٹلی، جنوبی فرانس، چین، ایشیائے کوچک، فلسطین، افغانستان کے علاوہ پاکستان میں اس کی کاشت اسکردو، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ اور قلات کے خشک آب و ہوا والے علاقوں میں ہوتی ہے۔ اس پھل کی کاشت کے لیے خشک موسم زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ ریتیلی زمین پر بھی اس کی کاشت ممکن ہوتی ہے۔ جب اس کے پودوں پر پھول آنا شروع ہوتے ہیں تو موسم کا خشک ہونا ضروری ہے۔

پستہ نہایت خوش ذائقہ مغز ہے۔ سبز رنگ کے مغز کے اوپر سفید رنگ کا چھلکا ہوتا ہے۔ تاثیر میں گرم اور تر ہے۔ پستہ اور بادام دو بہترین مغز ہیں۔ پستہ کئی پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پستہ دل و دماغ کو قوت دیتا ہے، بدن کو موٹا کرتا ہے، بلغم کو خارج کرتا ہے، حافظہ کو تیز کرتا ہے، کھانسی میں بھی مفید ہے۔ اطبا کے نزدیک اس کا استعمال گردے کی لاغری میں مفید ہے۔ پستے کا چھلکا دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ معدے کو قوت دیتا ہے، قبض دور کرتا ہے، متلی اور قے کو روکتا ہے،آنتوں کو قوت دیتا ہے، دستوں کو بند کرتا ہے۔ اس کو باریک پیس کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مقدار خوراک۳ گرام سے ۵ گرام ہے۔ مغزیات کا تھوڑی مقدار میں مستقل استعمال پروسٹیٹ گلینڈ کو ٹھیک کرتا ہے۔

۱۰۰ گرام پستے میں لحمیات تقریباً ۲۱ فی صد، معدنی اجزاء ۸ء۲فی صد، چکنائی۵۹ فی صد،کاربوہائیڈریٹس ۱۱ فی صد، رطوبت ۱ء۵ فی صد، جب کہ حیاتینی اور معدنی اجزاء میں فاسفورس ۴۸۵ ملی گرام، آئرن ۵ء۴ ملی گرام، کیلشیم ۲۲۵ ملی گرام، نایاسین ۲ء۴ ملی گرام ہوتی ہے۔کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ پستے کے ۱۰۰ گرام مغز میں تقریباً ۶۵۸کیلوریز ہوتی ہیں۔

پستے میں پروٹین، چکنائی، کاربوہائیڈریٹس وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح معدنی اجزاء مثلاً فاسفورس، سوڈیم، سلفر، پوٹاشیم اور کیلشیم بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ عمومی طور پر مغزیات کے اجزائے ترکیبی حسب ذیل ہوتے ہیں: چکنائی۴۰ فی صد سے ۶۰ فی صد، خلوی مادے ۳ فی صد سے ۵ فی صد، لحمیات ۱۰ فی صد سے ۲۵ فی صد، معدنی اجزاء ۲ فی صد تک اور کاربوہائیڈریٹس۱۰ فی صد سے ۲۵ فی صد تک۔ ایک سو گرام مغز میں بالعموم کیلوریز کی تعداد ۶۰۰ تک ہوتی ہے۔

پستہ پیاس کی شدت کو ختم کرتا ہے۔ بواسیر، پیچش، ورم طحال اور دق کے امراض میں نافع ہے۔ اسہال کے مریضوں کو اس سے اجتناب برتنا چاہیے۔ یادداشت اور حافظے کو بہتر کرتا ہے، دماغ کو تقویت دیتا ہے، دل کی دھڑکن اعتدال پر لاتا ہے۔ قے اور متلی کی کیفیت میں نافع ہے۔ جسم کو فربہ کرتا ہے، دھات کی کمی کو دور کرتا ہے، جگر کی سختی میں نافع ہے۔ بے چینی، اختلاج اور خفقان کے عوارض میں بھی مؤثر ہے۔

شیخ الرئیس بو علی سینا نے پستہ کا ذکر ادویہ قلبیہ میں کیا ہے۔ یہ خفقان، متلی، مروڑ اور جگر کی سردی کو رفع کرتا ہے، بدن کو فربہ کرتا ہے۔ مغزیات میں پستہ سے بہتر معدہ کے لیے کوئی چیز نہیں، مگر اس کے ساتھ اس کا سرخ چھلکا بھی کھانا چاہیے۔

پستہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خون کے تھکے ختم کرتا ہے اور شریانوں کے سکڑنے اور تنگ ہونے کے عمل کو بھی روکتا ہے۔ ماہرین نے اپنی تحقیقات میں بتایا ہے کہ مٹھی بھر پستے کھانے سے امراضِ قلب کے خطرے سے کافی حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ماہرین نے ایک گروپ کو روزانہ تین اونس پستے کھلائے تو ایک ماہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے مجموعی کولیسٹرول میں ۴ء۸ فی صد کمی واقع ہوگئی، جب کہ مضر صحت کولیسٹرول (ایل ڈی ایل) ۶ء۱۱ فی صد کم ہوگیا، صرف یہی نہیں بلکہ مضر صحت کولیسٹرول مفید صحت کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل) میں تبدیل ہوگیا۔ جن غذاؤں میں پستہ شامل کیا جاتا ہے ان غذاؤں کا استعمال کرنے والوں میں مفید صحت کولیسٹرول کے مقابلے میں مضر صحت کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے، جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ میوہ انسانی جسم کو امراض سے بچانے میں معاون ہے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

کاجو:کاجو مغزیات میں سب سے زیادہ ذائقہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ کاجو مشرقِ بعید کے گرم مرطوب ملکوں کے علاوہ جنوبی ہند میں خوب پیدا ہوتا ہے۔

اس کا سدا بہار درخت دس سے بیس فٹ تک بلند ہوتا ہے۔ پھول سفید سرخی مائل گچھوں میں لگے ہوتے ہیں۔ پھل امرود سے ملتے جلتے اور بہت رسیلے ہوتے ہیں۔

کچے کاجو کا رنگ سبز ہوتا ہے جو پک کر گلابی مائل زرد ہوجاتا ہے۔ اس کی اوپری پرت یا پوست بہت پتلا ہوتا ہے، پکنے پر پھل کی رنگت سرخ بھی ہوجاتی ہے۔ یہ بڑا نازک سا پھل ہوتا ہے۔ اس کا گودا سفید میٹھا، کرارا اور رسیلا ہوتا ہے۔ اس میں گلاب جیسی خوشبو بھی ہوتی ہے۔ اسے کچا نہیں کھایا جاتا، کیونکہ اس کا مزا بگھٹا ہوتا ہے۔

کاجو کا اصل وطن جنوبی امریکہ ہے۔ کئی پھلوں، سبزیوں وغیرہ کی طرح پرتگالی اسے دنیا بھر میں متعارف کرا گئے۔ کاجو کے درخت میں دوا کی خاصیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے درخت کے تمام حصوں میں سخت خراش پیدا کرنے والا رس ہوتا ہے۔ کاجو (مغز) پر بھی جو پرت ہوتی ہے اس سے بھی خراش پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسے پھل سے الگ کرنے کے بعد بھونا جاتا ہے۔ اس طرح اس پرت کے اترنے کے بعد سفید اور لذیذ کاجو کا مغز حاصل ہوتا ہے۔

یہ بادام سے بھی زیادہ لذیذ اور روغنی مادے سے پُر ہوتا ہے۔ بدن کو غذائیت دینے اور فربہ کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔ دماغ کی تقویت کے لیے نسیان کے مرض اور حافظہ کی کمزوری میں کاجو تھوڑے سے کھاکر اوپر سے ایک چمچہ شہد چاٹ لیا جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کاجو میں پروٹین گوشت کے پروٹین کے برابر ہوتا ہے، جس سے بدن کو بہت فائدہ پہنچتا ہے اور جسم پھرتیلا رہتا ہے۔ کمزوری میں اگر کھانا ہضم نہ ہوتا ہو اور بار بار قے ہوجاتی ہو تو کاجو کے چند دانے وقفے وقفے سے کھانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کاجو میں وٹامن ’’بی‘‘ بھی کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بھوک بھی کھلتی ہے۔ یہ اعصابی کمزوری، بھوک نہ لگنے، بدہضمی اور وٹامن ’’سی‘‘ کی کمی کی وجہ سے اسکوے ہوجانے پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے کھانے سے بڑھاپا بھی جلدی نہیں آتا۔ اس میں لوہا بھی بہت ہوتا ہے، اسی وجہ سے خون کی کمی میں بھی مفید ہوتا ہے۔ قبض ہو تو بیس دانے کاجو کشمش کے ساتھ روزانہ کھانے چاہئیں۔ کاجو اور میٹھے پھلوں جیسے کھجور، انجیر، خوبانی کا میل اچھا رہتا ہے۔ کاجو کا تیل دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک کلو کاجو میں ایک ہزار یونٹ وٹامن ’’اے‘‘، ایک ہزار یونٹ وٹامن ’’بی ٹو‘‘، اور پانچ ہزار نو سو ساٹھ یونٹ حرارت ہوتی ہے۔ خاصی مقدار میں نکوٹینک ایسڈ اور کیلشیم فولاد وغیرہ بھی ہوتا ہے۔

کاجو میں اہم غذائی اجزا، حیاتین ب (تھایامین)، رائبوفلاوین اور نایاسین کے علاوہ پروٹین، حرارے، چکنائی، نشاستہ، کیلشیم، فولاد اور فاسفورس سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔کاجو میں حیاتین الف اور حیاتین ج بالکل نہیں ہوتے۔ کاجو کے رسیلے، میٹھے اور خوشبودار پھل کی فراہمی تو محدود ہے لیکن آپ کاجو کا مغز مناسب مقدار میں کھاکر صحت و تندرستی کا سامان کرسکتے ہیں۔ دوسرے مغزیات کے مقابلے میں اس کا ذائقہ بہت سوندھا ہوتا ہے۔

چلغوزہ: چلغوزے کے چھلکے کا رنگ سرخ اور مغز سفید ہوتا ہے۔ ذائقے میں قدریِ شیریں اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ چلغوزہ نمکین اور بغیر نمکین دونوں صورتوں میں کھایا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ ذائقے دار ہوتا ہے اس لیے سبھی اسے کھانا پسند کرتے ہیں۔ تاہم یہ دوسرے خشک میووں کی نسبت مہنگا ہے اور اس کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔

چلغوزے میں بہت سے معدنیات، حیاتین اور روغن پائے جاتے ہیں، جو صحت کے لیے ضروری ہیں۔ یہ شریانوں کو سکون بخشتا، کولیسٹرول کو کم کرتا اور دل کے انتشار اور بے ترتیبی کا سدباب کرتا ہے۔ ایک سوگرام چلغوزے میں ۳۱ گرام لحمیات (پروٹینز) ہوتے ہیں۔ یہ بھوک کو گھٹاتا ہے اور ان لوگوں کے لیے فائدے مند ہے جو وزن کی کمی کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ چلغوزہ مانع تکسید ہے۔ چلغوزے سے تیل نکالا جاتا ہے جو کئی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔

چلغوزہ دوسرے مغزیات کی طرح بدن کو فربہ کرتا ہے۔ دل اور پٹھوں کو طاقت دیتا ہے۔ فالج، لقوہ، رعشہ اور کھانسی میں مفید ہے۔ اس کے مغز کا شیرہ بناکر قدرے شہد ملا کر چاٹنا بلغمی کھانسی میں مفید ہے۔ مفلوج مریضوں کے لیے بھی اچھا ہے۔ مثانے اور گردوں کو طاقت دیتا ہے۔

چرونجی:ایک پہاڑی درخت کے پھل کی گری ہے جو قدرے شیریں، خوش ذائقہ اور چکنی ہوتی ہے۔ اس کا درخت بارہ سے پندرہ میٹر بلند ہوتا ہے۔ اس کا تنا اور چھال خوب موٹے ہوتے ہیں۔ اس کے پتے ڈھاک کے پتوں کے برابر ہوتے ہیں جو گرمی کے موسم میں گر جاتے ہیں۔ اس کا پھل خوشوں میں ہوتا ہے۔ پہلے ہرا ہوتا ہے، پکنے پر ترش اور سرخ ہوجاتا ہے۔ خوب پکنے پر اودا اور شیریں ہوجاتا ہے۔ پکا ہوا پھل آدھا انچ لمبا اور کالے رنگ کا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا سخت ہوتا ہے۔ اس کا گودا کھایا جاتا ہے۔ اس کے اندر گٹھلی ہوتی ہے، اس گٹھلی کے اندر مغز ہوتا ہے، یہی چرونجی ہے جو چھوٹے چنے کے برابر ہوتی ہے۔ اس میں تیل خوب نکلتا ہے۔ اس کے درخت سے ایک قسم کا گوند بھی ملتا ہے۔

اس میں غذائیت بہت ہے۔ بدن کو موٹا کرتی ہے۔ اس کو پیس کر ضماد کرنے سے چہرے کے داغ اور جھائیاں دور ہوتی ہیں۔ مادہ تولید خوب پیدا کرتی اور اسے گاڑھا کرتی ہے۔ باہ، گردے اور کمر کو قوت دیتی ہے، جلا بخشتی ہے۔ آدھا پاؤ چرونجی کو آدھا پاؤ گلاب میں خوب پیسیں، جب مرہم کی طرح باریک ہوجائے تو نیم خام سہاگہ پونے دو تولہ پیس کر ملا کر ترکھجلی پر لگادیں، صرف تین دن کی مالش میں بالکل ٹھیک ہوجاتی ہے۔ اس کا پھل صفرا کے بگاڑ کو دور کرتا ہے، خون کے جوش اور پیاس کو تسکین دیتا ہے، قے اور پیٹ کے درد میں مفید ہے، سرکا درد اور خمار زائل کرتا ہے۔ اس کے درخت کا گوند دستوں کو روکتا ہے۔ چرونجی جگر، پھیپھڑے اور دماغ کی سردی کو دور کرتی ہے، ملین ہے، دوسری ملین ادویہ کے ساتھ ملا دینے سے ان کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ مصری کے ساتھ استعمال کرنے سے ان کی قوت بڑھا دیتی ہے اور بدن کی حرارت کم کرتی ہے۔

مونگ پھلی:مونگ پھلی کا اثر زیتون کے تیل جیسا ہے۔ زیتون کا تیل بہت مہنگا ملتا ہے۔ اس کی جگہ مونگ پھلی کا تیل کام میں لاسکتے ہیں۔ مونگ پھلی میں چکنائی، پروٹین اور شکر پائی جاتی ہے۔ ایک انڈے کے برابر مونگ پھلی میں جتنی پروٹین اور حرارت ہوتی ہے، اتنی دودھ اور انڈے میں مجموعی طور سے بھی نہیں ہوتی۔ اس کی پروٹین دودھ سے ملتی جلتی ہے اور چکنائی گھی جیسی ہے۔ مونگ پھلی کے کھانے سے دودھ، بادام اور گھی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ مونگ پھلی جسم میں گرمی پیدا کرتی ہے، اس لیے سردیوں کے موسم میں زیادہ مفید ہے۔ یہ ترکھانسی میں مفید ہے۔ معدے اور پھیپھڑوں کو قوت دیتی ہے۔ روزانہ مونگ پھلی کھانے سے موٹاپا بڑھتا ہے۔ مونگ پھلی میں تیل کا عنصر ہونے کی وجہ سے یہ ریاحی بیماریوں کو بھی ختم کرتی ہے، قوتِ انہضام کو بڑھاتی ہے اور مزیدار ہوتی ہے، لیکن گرم مزاج کے لوگوں کے لیے ضرر رساں بھی ہے۔ مونگ پھلی زیادہ کھانے سے بلغم بڑھتا ہے۔ حمل کے دوران 60گرام مونگ پھلی روزانہ کھانے سے بچے کی بڑھوتری ہوتی ہے۔ روزانہ کچی مونگ پھلی کھانے سے دودھ پلانے والی ماؤں کے دودھ میں اضافہ ہوتا ہے۔

سردیوں میں جلد میں سوکھا پن آجاتا ہے۔ تھوڑی سی مونگ پھلی کا تیل، دودھ اور عرقِ گلاب ملا کر مالش کریں۔ بیس منٹ بعد غسل کرلیں۔ اس سے جلد کا سوکھا پن ٹھیک ہوجاتا ہے۔ نہانے سے پہلے ہتھیلی پر چوتھائی چمچ مونگ پھلی کا تیل لے کر انگلی سے ہتھیلی پر رگڑیں اور پھر ہونٹوں پر اس تیل کی مالش کریں۔ ہونٹوں کے لیے یہ مفید ہے۔