آئندہ انتخابات اور ملک کی سیاسی صورت حال

معروف کالم نگار سکندر چنا نے گزشتہ دنوںوطنِ عزیز کی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سوپ‘‘ (سوبھ) کراچی کی ادارتی صفحے پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’بھیڑ اپنی ساری زندگی خوں خوار جانور بھیڑیے سے ڈرتے ہوئے گزار دیتی ہے، اور پھر آخر میں بھیڑ کو خود اُس کا چرواہا ہی ذبح کرکے کھا لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بلوچستان عوامی پارٹی سے بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کی سیاست کی چال ڈھال تو اپنی مثال آپ ہے، جو ماضی کے دشمن تھے وہ آج دوست بن چکے ہیں۔ آصف علی زرداری جنہیں میدانِ سیاست کا ایک بڑا شہسوار قرار دیا جاتا ہے اور جن کی کوشش سے نوازلیگ کے میاں شہبازشریف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوسکے تھے، آج وہی نواز لیگ خصوصاً میاں شہبازشریف، آصف علی زرداری کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ویسے تو سابق صدر بے حد ہوشیار سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ شہبازشریف کی طبیعت اور مزاج کو نہیں بھانپ پائے، گویا انہوں نے اِس بار اپنے آپ ہی کو دھوکا دے ڈالا ہے، جس کا اعتراف آج بلاول بھٹو زرداری بھی برملا کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ میاں شہبازشریف کی عاجزی اور انکسار نے ان کے والدِ گرامی کو دھوکا دے دیا۔ لگتا ہے کہ اِس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی نواز لیگ کو مضبوط کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ ان کی جوانی کی مشینری بھی اپنی جوانی کے جوبن کے مزے لے چکی ہے اور نوازشریف کی دماغی مشینری اور نوجوان ناکتخدا بلاول بھٹو کی مشینری میں دن رات فرق کا تصور کیا جارہا ہے۔ اس طرح سے تو نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو بہترین اور فیوریٹ امیدوار ہونا چاہیے، یہ اور بات ہے کہ آصف علی زرداری کے انویسٹر مخمصے کا شکار ہیں۔ ان میں وہ چالاکی اور پھرتی فی الوقت مفقود دکھائی دیتی ہے جو مطلوب اور درکار ہے، جبکہ نواز لیگ کے انویسٹر پھرتیلے اور چالاک ہیں۔ نوازشریف کی وطن واپسی سے نون لیگ کے اندر دو اقسام کی نفسیاتی سوچ نے جنم لیا ہے، ایک تو خوش ہیں اور دوسرے مایوس۔ خاص طور پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نواز لیگ سے بے حد ناراض ہیں بلکہ یوں بھی لگتا ہے کہ وہ کہیں تحریک انصاف کے آشیانے میں اپنی جائے پناہ نہ ڈھونڈ لیں۔ نوازشریف کے جلسوں کو کامیاب کرانے کے لیے بڑا زور لگایا جارہا ہے، لیکن عوامی سطح پر پہلے کے مقابلے میں نوازشریف کو بہت کم پذیرائی دیکھنے میں مل رہی ہے، خصوصاً پنجاب میں۔ پنجاب سمیت کے پی کے میں عوام تاحال پی ٹی آئی سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت نواز لیگ کو ایک بڑا اور اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوام کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کی ’’بی ٹیم‘‘ کے طور پر سامنے آچکی ہے، اور عوام نواز لیگ کے اس کردار اور تاثر سے خوش نہیں ہیں۔ نوازشریف کو وطن واپسی کے وقت جس طرح کا پروٹوکول دیا گیا اس سے بھی صاف یہی دکھائی پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں چوتھی مرتبہ بھی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوں گے بشرطیکہ ملک میں کوئی بڑا حادثہ نہ رونما ہوجائے۔ نوازشریف اس وقت لاڈلے کے منصب پر فائز ہیں، جبکہ پرانا لاڈلا ناراضی کی وجہ سے جیل میں بند ہے۔ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے لیے میڈیا کی مارکیٹ اور سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ پارٹیاں ماسوائے مقتدر حلقوں کی آشیرباد کے، نہیں چل سکتیں اور ان دونوں ہی پارٹیوں کا سیاسی ملاپ بھی نواز لیگ کے ساتھ کردیا گیا ہے۔ مریم نواز کے بلوچستان کی ’’باپ‘‘ پارٹی کے لیے یہ جملے آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں: ’’باپ اپنے باپ کی مرضی کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتی اور یہ لوٹوں کی جماعت ہے، اور لوٹے واش روم میں ہی ہوا کرتے ہیں اور وہیں پر سجے اور رکھے ہوئے یہ اچھے لگتے ہیں‘‘۔ لیکن قابلِ استعجاب امر یہ ہے کہ ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے لیے پھر مریم نواز، میاں نوازشریف اور شہبازشریف خود ’’باپ‘‘ کے ہاں چل کر گئے ہیں اور اُن سے اپنا ساتھ دینے کے لیے ملتمس ہوئے ہیںٖ۔ یوں بھی جام کمال خان اور اُن کا خاندان پارٹیاں بدلنے کے لیے مشہور ہیں۔ دور کیوں جائیں، پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں جام کمال خان وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ ایک قول مشہور ہے کہ ’’سیاست میں کوئی بھی بات یا فیصلہ حرفِ آخر نہیں ہوا کرتا‘‘، تو پھر آخر آصف علی زرداری دادو کی طاقتور سیاسی شخصیت لیاقت علی خان جتوئی کو اپنی سیاسی پارٹی میں شامل کیوں نہیں کررہے ہیں؟ پتا نہیں اس کے پیچھے اُن کی کیا مصلحت پوشیدہ ہے! اس صورت میں لیاقت جتوئی نواز لیگ میں شامل ہوجائیں گے۔ لگتا ہے کہ الیکشن سے پہلے لاڑکانہ کا عباسی خاندان بھی پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلے گا۔ ماضی میں، سردی کے موسم میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو عباسی خاندان کے گھر میں ساگ اور مکھن کے ساتھ جوار کی روٹی کے روایتی کھانے سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں۔ اس خاندان کی پی پی کے لیے دی گئی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ بہرحال قبل از الیکشن اگر نواز لیگ اور استحکامِ پاکستان پارٹی (جہانگیر ترین گروپ) باہم انتخابی اتحاد کر لیں تب بھی یہ بیل اس لیے منڈھے چڑھتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہے کہ عوام اس وقت سخت غم و غصے کا شکار ہیں، اور وہ یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں مقتدر حلقوں کی منظورِ نظر ہیں۔ آنے والے الیکشن میں پنجاب کے اندر بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے اور آصف علی زرداری کی خاموشی کسی بڑے تبدیل شدہ سیاسی طوفان کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ ان کی سیاست ہمیشہ ملکی سیاست کا رخ تبدیل کردیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ نواز لیگ کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام کے ساتھ الیکشن سے قبل جتنے بھی وعدے وعید کیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ جتنے بھی سروے ہوئے ہیں پنجاب کے عوام کا رجحان ان میں پی ٹی آئی کی طرف ہی پایا گیا ہے اور یہی معلوم ہوا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ووٹ پی ٹی آئی کو دیں گے۔ ایسے میں نواز لیگ کی کشتی ایک طرح سے بھنور میں پھنسی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہے۔

الیکشن کی تاریخ کا اعلان تو ہوچکا ہے لیکن الیکشن کا شیڈول تاحال جاری نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے بھی عوام کے اندر خدشات اور وسوسے جنم لے رہے ہیں۔ ملکی معیشت بھی بہت زیادہ خرابی سے دوچار ہے۔ آرمی چیف کا مافیاز کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ میاں شہبازشریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بھی ہماری معیشت کو بڑا نقصان پہنچاہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کی بنا پر نواز لیگ کی مقبولیت میں بڑی کمی آئی ہے۔ کاروبار جو تباہی سے دوچار ہوا وہ اس پر مستزاد ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نوازشریف بھلے سے اپنے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف کی عدم کارکردگی سے اظہارِ لاتعلقی کریں لیکن عوام کی سوچ اور نفسیات میں کیا اس سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما ہوسکے گی؟ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جیل میں ہوتے ہوئے بھی دن بہ دن عوام میں مقبول ہوتے چلے جارہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے شاید اُن کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے ایک حربہ آزمانے کا بھی سوچا ہوا ہے، اور وہ یہ کہ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین قبل از الیکشن جیل سے رہا نہیں ہوسکے تو پھر وہ اپنے ووٹرز تک یہ پیغام پہنچائیں گے کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی میں الیکشن تو ہوگیا ہے، اس لیے پی پی کو ووٹ دیا جائے۔ سندھ میں پی پی اور پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے نواز لیگ اب قوم پرستوں سے بھی اپنے روابط استوار کررہی ہے، لیکن ماضی کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ پی پی کے خلاف بننے والا ہر اتحاد انتخابات کے موقع پر کامیاب نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری کی موجودہ خاموشی مستقبل کے کسی سیاسی انتخابی طوفان کا پیش خیمہ بھی دکھائی دے رہی ہے اور الیکشن سے پہلے انتخابی سیاست میں بہت کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بہرحال نواز لیگ کو خواہ ایک گھوڑے کی طرح سے طاقتور غذائیں اور خوراک کھلا کر اور بنا سنوار کر مقتدر قوتیں الیکشن کے میدان میں کمزور اور بھوکے تحریک انصاف کے گھوڑے کے سامنے میدان میں دوڑانے کے لیے لے آئیں تو کیا پھر بھی نواز لیگ کا گھوڑا تحریک انصاف کے کمزور گھوڑے سے الیکشن کی بازی جیت سکے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک بڑی قوت کے ساتھ اگر تحریک انصاف میدان میں اتری تو ممکن ہے کہ اس صورت میں پھر آئندہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی اور پی پی پی کی ہو، اور ایسی صورت میں بلاول بھٹو زرداری بھی وزارتِ عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے ملکی سیاست کا پانسہ پلٹ جائے گا اور پی پی پی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہوگی۔‘‘
(نوٹ: کالم نگار کے تمام خیالات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)