پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور پختون خوا پارٹی کا جلسہ، مسلم لیگ نواز میں شمولیتوں کا چرچا
8 فروری2024ء کے متوقع انتخابات سیاسی جماعتوں کی فعالیت اور تنظیم سازی کا ذریعہ بنے ہیں۔ بلوچستان کے اندر بھی خوب ماحول بن چکا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے 29 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جلسہ عام کا انعقاد کیا جس میں مولانا فضل الرحمان بھی شریک ہوئے تھے۔ اگرچہ غزہ کے عوام سے پوری طرح یکجہتی کا اظہار کیا گیا لیکن یہ جلسہ سیاسی اور انتخابی ماحول کی سازگاری میں بھی معاون ثابت ہوا ہے۔ یقیناً جمعیت علماء اسلام انتخابی مہم کے تحت آئندہ بھی خصوصی اجتماع منعقد کرے گی۔ مسلم لیگ نواز اچھے خاصے لوگوں کو اپنی صفوں میں سما چکی ہے۔ وہ لوگ جو انتخابات جیتتے آرہے ہیں اس میں شامل ہوئے ہیں، اور دیگر متعدد افراد کی بھی شمولیت ہوئی جو اپنے علاقوں میں اثر کے حامل ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف اور مریم نواز کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں مقیم رہے۔ پارٹی کے دوسرے مرکزی راہنما بھی موجود تھے۔ یہ دورہ سرینا ہوٹل کے رہائشی کمروں سے ہوٹل کے تکتو ہال تک محدود رہا۔ البتہ 15 نومبر کو شہبازشریف صبح 9بجے نواب زادہ لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ گئے جہاں پارٹی میں شمولیت کی دعوت کی دوبارہ تکرار کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کوئٹہ کو مدنظر رکھا۔
ان ہی ایام میں جب مسلم لیگ نواز میں شمولیتوں کا چرچا عام تھا، پیپلز پارٹی نے56ویں یوم تاسیس کے جشن یا جلسہ عام کے لیے کوئٹہ کا انتخاب کیا۔ یہ اجتماع 30نومبر کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں رکھا گیا۔ چناں چہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری29نومبر کو کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ کا سرینا ہوٹل ایک بار پھر آباد ہوا۔ گہما گہمی اور ہلچل رہی۔ پیپلز پارٹی کے مختلف سطح کے راہنما کوئٹہ میں مقیم رہے۔ شمولیتیں ہوئیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر نصیب اللہ مری پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے۔ نصیب اللہ مری2018ءکے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ جام کمال خان کی کابینہ، اس کے بعد عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں محکمہ تعلیم اور صحت کا قلمدان ان کے پاس تھا۔ عبدالقدوس بزنجو نے بھی پیپلز پارٹی میں جانے کا اعلان کیا، البتہ وہ زرداری سے ملاقات کے موقع پرباضابطہ طور پر شامل ہوں گے۔ سرفراز ڈومکی بھی شامل ہوئے۔ وہ 2018ء کے انتخابات میں سبی لہڑی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے پاس جام کمال کی کابینہ میں محنت و افرادی قوت کی وزارت تھی۔ ان کے بھائی سابق ضلع ناظم سبی حیربیار ڈومکی بھی شامل ہوئے۔ سردار عبدالرحمان کھیتران کے صاحبزادے انعام کھیتران، صحبت پور سے میر دوران خان کھوسہ جو پچھلے الیکشن میں چند ووٹوں سے ہار گئے تھے، سابق ایم پی اے ثمینہ شکیل، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے بھائی اکبر اچکزئی اور دیگر افراد بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔ یہ شمولیتیں جلسے کے بجائے ملاقاتوں میں ہوئیں۔
آصف علی زرداری اگلے روز یعنی یکم دسمبر کو چلے گئے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری 2 دسمبر تک مقیم رہے۔ وہ ملاقاتیں کرتے رہیں، تنظیمی امور سے متعلق اجلاس کیے، سرینا ہوٹل کے ہال میں پارٹی کے رہنماؤں، بلدیاتی نمائندوں اور کارکنوں سے خطاب کیا۔ ہوٹل سے باہر بھی گئے، ملاقاتیں کیں۔ بلاول بھٹو صوبائی سیکریٹری جنرل روزی خان کاکڑ اور سابق صوبائی صدر علی مدد جتک کی رہائش گاہوں پر ضیافتوں میں شریک ہوئے۔ پیپلز پارٹی بلوچستان میں یکسر محروم نہیں رہے گی۔ کچھ نہ کچھ پَلّے ضرور پڑے گا۔ جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا:
”پاکستان میں نفرت، تقسیم اور اَنا کی سیاست دفن کرنے اور نئی سوچ اور طرزِ سیاست کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی نئی طرز کی سیاست شروع کرے گی جس میں کسی جماعت یا سیاست دان کی مخالف نہیں ہوگی بلکہ مہنگائی اور مسائل کا مقابلہ کریں گے“۔
اسی لمحے بلاول نے نواز لیگ اور پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ نون لیگ کو ”مہنگائی لیگ“ کا نام دیا، کہا کہ ”پاکستان کے عوام کو معلوم ہے کہ یہ سیاست کے شوباز ہیں۔ نون لیگ اور پی ٹی آئی 18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ یہ وفاق اور ملک کے لیے خطرناک ہوگا۔ اس ترمیم کے خاتمے کا مطلب صوبوں کے وسائل صوبوں کے عوام کے بجائے اسلام آباد پر خرچ کرنا ہے“۔ انہوں نے خود کو نوجوانوں کا نمائندہ قرار دیا اور اقتدار میں آنے پر ان کے لیے یوتھ کارڈ منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے 2 دسمبر کو پارٹی کے صوبائی صدر چنگیز جمالی کے گھر پریس کانفرنس کی، یہاں بھی نواز لیگ کو تنقید کی زد پر رکھا، کہا کہ ”میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے۔ لیکن ہمارے جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو دھچکا لگا ہے۔ نون لیگ کو پہلی بار لاہور میں پھولوں کے بجائے انڈوں اور ٹماٹروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انہیں سندھ، بلوچستان کی نہیں بلکہ اپنے گھر بچانے کی فکر ہے۔ میاں نوازشریف انتظامیہ پر انحصار کے بجائے اپنے نظریے پر الیکشن لڑیں، ووٹ کو بے عزت کرنے کے بجائے عزت دلائیں“۔
یہاں بلاول بھٹو فقط انتظامیہ کہہ کر محتاط رہے۔ کہا کہ ”اسٹیبلشمنٹ دنیا بھر میں ایک حقیقت ہے، میں چاہتا ہوں کہ ہم مزاحتمی سیاست کے بجائے اتفاق پیدا کریں۔ سیاست دانوں اور اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیے۔ بلوچستان میں ناراض لوگوں سے مفاہمت کریں گے، مگرجو لوگ دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث ہیں ان سے بات چیت نہیں کی جائے گی، وہ عدالت کا سامنا کریں گے“۔
بلاول نے افغان مہاجرین اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر معتدل مؤقف اپناتے ہوئے اہم توجہ دلائی ہے، انہوں نے کہا کہ ”مہاجرین کی واپسی کے فیصلے سے پہلے اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے تھا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتی ہونے کے بجائے مسلسل بات چیت پر انحصار کرنا چاہیے۔ طالبان کو اب تنظیم نہیں ریاست کی ذہنیت سے کام کرنا چاہیے“۔ اور قرار دیا کہ اتنی گنجائش رکھنی چاہیے، کیوں کہ طالبان کے پاس وہ استعداد نہیں، اُن کے پاس کوئی منظم فوج یا بارڈر فورس نہیں۔ لیکن طالبان کو بھی یہ مظاہرہ کرنا ہوگا کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ اُن کا دشمن ہے۔ اگر یہ الزام ثابت ہو کہ طالبان پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی سہولت کاری کررہے ہیں تو یہ انتہائی خطرناک بات ہوگی“۔
56ویں یومِ تاسیس کا جلسہ ایوب اسٹیڈیم میں تھا۔ بلاشبہ یوم تاسیس بھرپور انداز میں منایا گیا۔ پیپلزپارٹی لوگوں کو شریک کرانے میں کامیاب رہی۔ ظاہر ہے یوم تاسیس تھا اس بنا پر ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی مرد و خواتین شریک ہوئے۔ انحصار اگر صوبے کی تنظیم پر ہوتا تو شرمندگی یقینی تھی۔ جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ، نواب شاہ، حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں، حتیٰ کہ تھرپارکر سے بھی مرد و خواتین پہنچے تھے۔ شہر کوئٹہ کے اندر وہ علاقے جو اسٹیڈیم کے قریب تھے وہاں جلسے والے دن میلہ کا سماں تھا۔ ایوب اسٹیڈیم کی راہداریاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ کارکن ناچتے اور جھومتے رہے۔ جلسے میں نظم و ضبط کا البتہ فقدان تھا۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران بھی برابر شور ہوتا رہا اور نعرے لگتے رہے۔
دو دن بعد 2 دسمبر کو ایوب اسٹیڈیم کے اسی فٹ بال گراؤنڈ میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے تحت عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے جلسہ ہوا۔ میدان لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم اور میاں نوازشریف سے مایوس نظر آئے۔ انہوں نے میاں نوازشریف، مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے دوسرے قائدین سے ملاقاتوں کا کہا ہے۔ وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی راہ سے ہٹنے پر قائل کریں گے۔ گویا محمود خان اچکزئی سمجھتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں شفافیت یقینی نہیں، اور یہ انتخابات جماعتی بل بوتے اور عوام کے ووٹوں پر انحصار کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ میاں شہبازشریف کی اس بات جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں، پر تنقید کی۔ محمود خان اچکزئی نے اس جلسے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی کہ ”افغانستان کے موجودہ حکمرانوں اور افغانستان سے متصل تمام ہمسایہ ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جائے جس میں افغانستان سے ہمسایوں کے خدشات اور افغانستان کے اپنے ہمسایوں سے خدشات پر سیر حاصل گفتگو ہو، اور نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ تشکیل پائے کہ سارے ممالک ایک دوسرے کے استقلال اور آزادی کے احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پابند ہوں، اس معاہدے کے ضامن اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تمام رکن ممالک ہوں“۔ ان کے نزدیک پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل کے حل کا یہ واحد راستہ ہے۔ محمود خان اچکزئی نے ایک بار پھر عمران خان سے روا رکھے سلوک کا ذکر کیا اور کہا کہ ہر جگہ انسانی حقوق کی باتیں ہورہی ہیں، جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے اس پر شرم کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ”عمران خان میرا دوست تھا، وہ غلط راستے پر چلا۔ عمران خان کے ساتھ اختلافات اپنی جگہ، پاکستان کے تمام ادارے مضبوط ادارے ہیں، جب عمران خان کو وزیراعظم بنایا جارہا تھا تو کیا آپ لوگوں کو پتا نہیں تھا!“