امریکہ بھارت رومانس کے رنگ میں بھنگ, سکھ رہنمائوں کے قتل پر ناراضی شمالی امریکہ میں ”را“ کے آپریشن کی بندش

نائن الیون کے بعد امریکہ اور بھارت کے رومانس کے اختتام کے دن قریب آرہے ہیں یا نہیں، مگر اس رومانس کے شیشے میں شک کا بال دکھائی دینے لگا ہے۔ مغرب میں اب بھارت کی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید اور مغربی حکومتوں کی سردمہری ایک دراڑ کا پتا دے رہی ہے۔ خالصتان تحریک کے راہنمائوں کے قتل کے واقعات پر ہونے والی کشیدگی بھی مغرب کی ناراضی کا انداز ہے۔ امریکی صدر جوبائیدن نے امریکہ میں مقیم سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش بے نقاب ہونے پر رواں برس جولائی میں سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ ولیم برنز کو نئی دلی بھیجا تھا۔ امریکی حکام کی جانب سے نیویارک کے رہائشی اور ’سکھس فار جسٹس‘ کے راہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے لیے ایک بھارتی شہری کی طرف سے شوٹرکی خدمات حاصل کرنے کی سازش بے نقاب کیے جانے کے بعد سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم برنز اس معاملے کو بھارت کے ساتھ اٹھانے کے لیے نئی دلی گئے تھے۔ انہوں نے بھارت سے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت کا ایک اہلکار گرپتونت سنگھ پر قاتلانہ حملے میں ملوث ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے اگست کے اوائل میں ہندوستان کا دورہ کیا اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ روی سنہا پر زور دیا کہ بھارت اس سازش کی تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھیرائے۔ انہوں نے قتل کی اس سازش کو ’سنگین معاملہ‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ بھارت سے توقع کرتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی کسی بھی سرگرمی میں شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایسا دوبارہ نہ ہونے کے بارے میں امریکہ کو یقین دہانی کرانے پر بھی زور دیا تھا۔

رواں سال جولائی کے آخر میں بے نقاب ہونے والی قتل کی اس سازش کے بعد بھارت اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت کا آغاز ہوا۔ امریکی حکام نے اپنے بھارتی ہم منصبوں سے اس سازش کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق صدر بائیڈن نے جی 20 سربراہ اجلاس کے لیے نئی دلی کے دورے کے دوران ایک دو طرفہ ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ذاتی طور پر بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں اس واقعے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن کی کوششوں کا حصہ تھیں، جن میں نومبر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے نئی دلی کے دورے بھی شامل ہیں۔ امریکی حکام نے گرپتونت سنگھ کے قتل کی سازش کو ناکام بنادیا تھا اور بھارت کے ملوث ہونے کے خدشات پر نئی دلی کو وارننگ جاری کی تھی۔

گرپتونت سنگھ کے قتل کی سازش کینیڈا میں خالصتان تحریک کے راہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد منظرعام پر آئی ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس قتل میں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔

مودی حکومت کے ہاتھوں قتل سے بال بال بچنے والے خالصتان تحریک کے راہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات دراصل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر فردِ جرم ہیں۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے اپنے قتل کی سازش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت انہیں ہر صورت قتل کرنے کے درپے ہے۔ انہوں نے کہاکہ انہیں قتل کرنے کی سازش بھارتی حکومت نے تیارکی تھی۔ تاہم انہوں نے واضح کیاکہ ان کے قتل سے بھی خالصتان تحریک ختم نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قتل کی سازش کی باتیں امریکہ اور کینیڈا کے لیے نئی ہوں گی لیکن حقِ خودارادیت کی تحریک چلانے والوں کے لیے قتل کی سازش حیران کن نہیں۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے مزید کہا کہ ان کے قتل کی ناکام کوشش میں ملوث 52سالہ بھارتی شہری نکھل گپتا کو وہ نہیں جانتے جسے امریکی حکومت کی درخواست پر جون میں چیک ری پبلک میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اس سازش میں ملوث بھارتی سرکاری اہلکار کو بھی وہ نہیں جانتے، تاہم وہ موت سے نہیں ڈرتے اور بھارت سے آزادی کی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ خالصتان تحریک کے راہنما کا مزید کہنا تھاکہ بھارت خالصتان تحریک کے حامیوں کو دہشت گرد قرار دلوانا چاہتا ہے۔

کینیڈا میں ایک سکھ راہنما کے قتل اور برطانیہ کے شہر واکنگٹن میں ایک اورسکھ راہنما کے قتل کی سازش کے بعد مغربی ممالک خصوصاً امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ نے بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو اپنے آپریشن بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان دو بڑے شہروں سے ’را‘ کے اسٹیشن چیف کو بے دخل کردیا گیا ہے، جبکہ واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی اب نیا اسٹیشن چیف تعینات نہیں کرسکتی۔

یہ انکشافات بھارت کے معروف آن لائن جریدے ’دی پرنٹ‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کیے ہیں۔ دی پرنٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ نے بھارت سے ناراضی کا اظہار کیا ہے کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے خالصتان تحریک کے راہنمائوں کو نشانہ بناکر ان ممالک کی سرزمین پر اپنے آپریشنز کے حوالے سے غیر اعلانیہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارتی جریدے کے مطابق ’را‘ کے جن افسروں کو بے دخل کیا گیا ہے اُن میں سے ایک سان فرانسسکو میں ’را‘ کا اسٹیشن چیف تھا اور دوسرا لندن میں ’را‘ کے آپریشنز کا سربراہ تھا۔ واشنگٹن ڈی سی سے ’را‘ کا اسٹیشن چیف سمنت گوئل ریٹائرمنٹ کے سبب کچھ عرصہ قبل واپس آچکا ہے اور اب بھارت کو وہاں نیا اسٹیشن چیف لگانے سے روک دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کینیڈا نے اوٹاوہ میں ’را‘ کے اسٹیشن چیف پون رائے کو اعلانیہ طور پر بے دخل کردیا تھا۔ دی پرنٹ کا مزید کہنا ہے کہ 1968ء میں ’را‘ کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ شمالی امریکہ میں اس کے آپریشن بند ہوئے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے خلاف یہ بڑی کارروائی کینیڈا میں سکھ راہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے بعد شروع ہوئی ہے۔ اسی دوران امریکہ میں سکھ راہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ امریکہ اب بھارت سے ’را‘ کے خفیہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے گزشتہ روز تل ابیب میں ایک حالیہ پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اس حوالے سے تحقیقات کے بعد نتائج سے آگاہ کرے۔ دی پرنٹ کے مطابق سان فرانسسکو سے ’را‘ کے اسٹیشن چیف کو بے دخل کرکے امریکہ نے پیغام دیا ہے کہ اگر ’را‘ نے خطے میں جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں، تو اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا جائے گا۔