کسی بھی انقلاب کے حقیقی مسائل کا آغاز انقلاب کے بعد ہوتا ہے۔
ایمان کی کمی کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ انسان کی خواہش اور عمل کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس ایمان کی شمع دل میں روشن ہو تو خواہش اور عمل کے درمیان حائل تمام فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ تاہم خواہش اور عمل کے درمیان موجود فاصلے اُس وقت بھی مٹ جاتے ہیں جب ایمان کی آخری رمق بھی دل سے رخصت ہوجاتی ہے۔ بظاہر یہ بات متضاد نظر آتی ہے کہ خواہش اور عمل کے درمیان کے فاصلے ایمان کی حالت میں بھی مٹ جاتے ہیں اور اُس وقت بھی جب ایمان کی آخری رمق بھی دل سے رخصت ہوجاتی ہے۔ میری ناقص رائے میں ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، کیوں کہ ان دونوں صورتوں کے درمیان دو بہت بڑے فرق پائے جاتے ہیں۔
ایمان کی موجودگی کی صورت میں انسان کی خواہش اور عمل کی ایک سمت ہوتی ہے جو واضح طور پر خالقِ کائنات کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ایمان کی روشنی سے محروم انسانی خواہش اور عمل کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔
ان صورتوں کے درمیان دوسرا فرق یہ ہے کہ ایمان کی موجودگی کی صورت میں پیدا ہونے والی خواہش انسانی وجود کے تمام مراتب یا اجزا پر محیط ہوتی ہے اورکسی ایک جزو میں منحصر نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس ایمان کی روشنی سے محروم خواہش انسانی وجود کے ایک پست درجے یا جزو کے تحرک کا نتیجہ یا شاخسانہ ہوتی ہے۔ پہلی صورت میں انسانی خواہش اور عمل علویت کی منزلیں طے کرتے ہیں اور دوسری صورت میں سفلے پن کی۔
ان دونوں صورتوں میں ایک اور فرق پایا جاتا ہے۔ پہلی صورت میں انسان کی صرف شدید خواہش ہی انسانی وجود میں نور بھر دینے کا سبب بن جاتی ہے۔ عمل اس نور کی کیفیت میں اضافہ نہیں کرتا، بس اس میں استحکام پیدا کرتا ہے، اس کی عمر دراز کرتا ہے۔ اس کے برعکس دوسری صورت میں صرف شدید خواہش انسانی روح میں اتنی پراگندگی پیدا کردیتی ہے کہ عمل اضافی ہوجاتاہے۔ اس صورت میں بھی عمل خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی پراگندگی میں اضافہ نہیں کرتا، بس اس میں استحکام پیدا کرتا ہے، اس کی عمر بڑھاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اوّلین صورتِ حال کا مثالی نمونہ ہے، اور جدید مغرب دوسری صورتِ حال کا کامل نمونہ۔ گو اب مغرب جس تیزی کے ساتھ ہمارے معاشروں میں نفوذ کررہا ہے اس کے باعث مشرق و مغرب کی تفریق دن بہ دن بے معنی ہوتی جارہی ہے، اس لیے ہم بھی دوسری صورتِ حال کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور منقلب ہورہے ہیں، گو ہمارا دعویٰ کچھ اور ہی ہے، مگر یہ دعویٰ خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔
یہ انسانی صورتِ حال کا وہ منظرنامہ ہے جس میں ہم سب زندہ ہیں۔ اس صورتِ حال کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اب ہم اپنے اصل مسائل کا رخ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا شاندار ماضی مسلمانوں کے لیے ایک شدید Facination ہے، ایک قوتِ محرکہ ہے، ایک آرزو ہے، ایک تڑپ ہے، اوروہ کچھ ہے جو ہم انسانی زندگی کی مثبت قدروں اور تجربوں کے حوالے سے تصور کرسکتے ہیں۔ مگر ہمارے لیے ہمارا ماضی ایک ذہنی رکاوٹ بھی ہے، کیوں کہ وہ واقعتاً اتنا شاندار ہے کہ ہم اجتماعی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس پورے انسانی تجربے کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں۔ ہم دوبارہ کبھی اتنے بے مثال نہیں ہوسکتے۔ ہم قوت اور خوب صورتی کا ایسا نادر امتزاج کبھی پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ احساس ہمارے اندرایک خاص قسم کی ذہنی صورتِ حال پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو تحرّک بڑھاتی ہے مگر کیفیت کو کم کردیتی ہے۔ تاہم مسلمانوں کی اجتماعی روح میں ان کا ماضی بدترین زمانے میں بھی ان کی یادوں کا مرکز اور ان کی آرزو رہا ہے اور رہے گا۔
اس وقت دنیا بھر کے مسلم معاشروں میں اسلامی انقلاب کے لیے جو تحاریک کام کررہی ہیں وہ اس آرزو کی مختلف علامتیں ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تمام تحاریک ہماری بہت گہری تمنائوں کا مرکز اور بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ کل کی مسلم دنیا پر ان تحاریک کے اثرات بہت گہرے ہوں گے، یہ الگ بات ہے کہ اثرات کی گہرائی کی سمت کا تعین یوں بھی ہوسکتا ہے اوریوں بھی۔ چنانچہ اس تناظر میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ یہ تحاریک اسلامی انقلاب کا کیا تصور رکھتی ہیں؟ اس سوال کا اس مرحلے پر پوچھ لیا جانا اس لیے ضروری ہے کہ یہ تحریکات ابھی اس منزل پر ہیں جہاں ان کے تصورات میں تبدیلی کی بڑی گنجائش ہے۔ یہ سوال اور اس کا جواب اس لیے بھی اہم ہے کہ آئندہ چل کر جو بڑی تبدیلی آئے گی وہ اسی بنیادی تصور کی عملی شکل ہوگی… جیسا بیج ویسا درخت، جیسا خیال ویسا عمل۔
اس بحث کے اہم ترین مرحلے کا رخ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ہم انقلاب کے عمومی تصور اور اس کی مختلف جہتوں پر ایک نظر ڈال لیں۔
انقلابِ فرانس سے لے کر ایران کے انقلاب تک جدید دنیا نے کئی انقلابات کا تجربہ کیا ہے۔ ایران کے انقلاب کو چھوڑ کر باقی تمام انقلاب ایک اعتبار سے مذہبی معاشروں کے خلاف بغاوت سے عبارت ہیں۔ ایسی بغاوت سے، جس نے ان معاشروں کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔
عام طور پر انقلاب سے مراد ایسی تبدیلی ہوتی ہے جو کسی معاشرے کے ڈھانچے کو یکسر بدل کر اُس کی جگہ ایک نئے سماجی ڈھانچے کو قائم کرے۔
دنیا کے ہر انقلاب کے پاس انسان کا ایک خاص تصور ہوتا ہے۔ ہم اس تصور کو انسان کی ایک خاص تعریف بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ہر انقلاب کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ انسان کو کیا سمجھتا ہے؟ وہ کس طرح کا انسان پیدا کرنا چاہتا ہے؟ اور کیوں کرنا چاہتا ہے؟ جیسا جس انقلاب کا تصورِ انسان ہوگا ویسا انقلاب رونما ہوگا اور ویسی ہی زندگی اس خاص معاشرے میں ظاہر ہوگی۔ روس میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہمارے یہاں یہ خیال عام ہے کہ سوشلزم ناکام ہوگیا ہے۔ یہ خیال ایک خاص مفہوم میں درست نہیں ہے، کیوں کہ روس میں سوشلزم نہیں بلکہ سوشلزم کے فلسفے میں موجود تصورِ انسان ناکام ہوا ہے۔ سوشلزم دراصل ایک خاص انسان کی ضروریات کو پورا کرنے والا نظام تھا۔ اگر امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہوگا تو یہ اس نظام کی ناکامی نہیں ہوگی بلکہ سرمایہ داری کے فلسفے میں موجود تصورِ انسانی کی ناکامی ہوگی۔ تصورِ انسانی کے اندر انسان کی تمام ضرورتوں کا بنیادی خاکہ موجود ہوتا ہے، یعنی یہ بات موجود ہوتی ہے کہ دراصل انسان اپنی نہاد میں کیا ہے؟ اور اس اعتبار سے اس کی ضروریات کیا ہیں؟ پھر انسان کی اسی نہاد اور اس کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر معاشرے کے مختلف اداروں کی تشکیل کی جاتی ہے، یہ ادارے اس خاص انسان کی مخصوص ضروریات کی تکمیل کے ذریعے جہاں اس تصورِ انسانی کو پختہ کرتے ہیں وہیں اس کام کے ذریعے وہ اپنی تخلیق کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ اگر انسان کی نہاد اور اس کی ضروریات کا درست اندازہ نہ لگایا جائے اور اس کی کچھ ضروریات کو نظراندازکردیا جائے تو یہ ضروریات انقلاب کے بعد سر اٹھا کر سامنے آجاتی ہیں، چونکہ اس معاشرے میں ان ضروریات کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا ہوتا اس لیے معاشرے کے پاس ان کی تسکین کا کوئی سامان بھی نہیں ہوتا جس کے باعث ان کی یہ ضروریات تشنہ رہ جاتی ہیں۔ ضروریات کی یہ تشنگی رفتہ رفتہ انسانوں میں اضطراب پیدا کرنا شروع کردیتی ہے۔
چونکہ ابتدا میں یہ ضروریات معاشرے کے چند حساس اور ذہین انسانوں میں نمودار ہوتی ہیں، اس لیے ابتدا میں ان چند لوگوں کو غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار، غدار، ضمیر فروش، بے راہ رو، اور ایسی ہی بے شمار دوسری اصطلاحات سے نوازا جاتا ہے اور انہیں یا تو قوت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے یا نظرانداز کردیا جاتاہے، مگر چونکہ یہ ضرورتیں حقیقی اور مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں اس لیے ان ضروریات کا شکار افراد کی تعداد دن بہ دن بڑھنے لگتی ہے۔ رفتہ رفتہ معاشرے میں دو قوتیں وجود میں آجاتی ہیں جن کے درمیان پیکار کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ ایک نئے انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے اور انقلاب یا تو ناکام ہوجاتا ہے، یا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جیسا روس اور مشرقی یورپ میں ہوا، اور جیسا کہ فرانس میں اصلاح پسندی کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں ہوا تھا۔
مارکسی طرزِ فکرکے مطابق انسان کی مختصراور سادہ سی تعریف یہ ہے کہ انسان ایک معاشی وجود (حیوان) ہے۔ مارکس کا یہ تصورِ انسانی کائنات اور تاریخ کی مادی تعبیر کی ناجائز اولاد ہے۔ انسان کے صرف معاشی وجود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اُس کے اندر نہ تو روحانی جہت ہے اور نہ ہی نفس کی کوئی جہت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب روحانیت ہی نہیں ہے تو ماوراء ذات کا کیا تصور ہوگا! یہی وجہ ہے کہ مارکسی طرزِفکر کی روشنی میں جو معاشرے پیدا ہوئے ہیں اُن میں انسان کی روحانی اور نفسی جہت کو رد کردیا گیا اور وہاں ایسے ادارے وجود میں آئے جو انسان کی معاشی اور نفسیاتی ضروریات کی تکمیل کرتے رہے۔ ایسے معاشروں کی پوری جدوجہد کو اگر ایک فقرے میں بیان کردیا جائے تو وہ ’’خارجی ماحول کی بہتری‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ چونکہ ایسے معاشرے انسان کی معاشی اور زیادہ سے زیادہ نفسیاتی ضروریات کے سوا کسی اور انسانی ضرورت کا تصور نہیں رکھتے، اور چونکہ انسانوں میں روح اور نفس کی جہت موجود ہے اور تمام دیگر جہتوں پر غالب ہے اس لیے یہ دونوں عناصر ابھر کر سامنے آئے اور پورے نظام کو ناکارہ کر گئے۔ آخری دنوں میں ایمان کی کمی کے باعث ان معاشروں میں خواہش اور عمل کے درمیان کا فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا جس کے باعث وہاں پر معاشرتی تغیر کی رفتار حیرت انگیز طور پر تیز ہوگئی اور ان کی قیادتوں کے لیے اس کو روکنا ناممکن ہوگیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانے میں ایمان کی کیفیت کی شدت کے باعث بھی خواہش اور عمل کے درمیان فاصلہ کم ہوگیا تھا اور اسلام اتنی توانائی اور سرعت سے پھیلا کہ دنیا کی کسی قوت کے لیے اسے روکنا ناممکن ہوگیا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوںگے کہ کالم کی ابتدا میں خواہش اور عمل کے ذیل میں ہم نے جو بحث کی ہے اس کے معنی کیا ہیں؟ اشتراکی معاشروں میں تبدیلی کے سلسلے میں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کاکیا حصہ ہے اور اس کے ڈانڈے بالآخر کن تصورات سے جا ملتے ہیں اس پر ہم پھر کبھی اظہارِ خیال کریں گے۔
اس طرح کے انقلابات چونکہ انسان کی ناقص تعبیر کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں اس لیے ان کی نہاد میں ایک خوف کا عنصر ہمیشہ کام کرتا رہتا ہے۔ یہ عنصر ضابطوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ضابطے اور قانون بنیادی طور پر انسان کے اس احساس کی علامت ہوتے ہیںکہ انسان ناقابلِ اعتبار ہے، چنانچہ ایسی جگہوں پر پورے معاشرے کو خارجی ضابطوں کی پابندی کے ذریعے چلانے اور قائم رکھنے کا تصور عام ہوتا ہے۔ خارجی ضابطوں کا نتیجہ مزید خارجی ضابطوں کے نفاذ کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ نتیجتاً معاشرہ خارجی ضابطوں کے جال میں جکڑ جاتا ہے اور زندگی کی ہر صورتِ حال بے یقینی اور پیچیدگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ پیچیدگی سے زیادہ سادگی کو پسند کرتا ہے۔ پیچیدگی جھوٹ کی علامت ہے اور سادگی سچ کی۔
اس نوع کے انقلابی رویوں کا اثر مسلم معاشروں میں کارفرما انقلابی فکر پر بھی پڑا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی یہ تصور بہت عام ہوچلا ہے کہ معاشرے کو چند قوانین اور ضابطوں کے ذریعے پاک صاف بنایا جاسکتا ہے اور اسے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اسلام میں قوانین اور ضابطوں کی بھی بڑی اہمیت ہے اور بعض صورتوں میں ان کی خلاف ورزی کی بڑی سخت سزائیں ہیں جو کہ درست ترین ہیں، تاہم میری ناقص رائے میں اسلام ضابطوں سے زیادہ داخلی تقاضوں پر زور دیتاہے، یعنی اسلام چاہتا ہے کہ ایک ایسا ماحول قائم کیا جائے جو انسان کے اندر موجود خیر کی طلب کو ابھارے، اس میں صداقت سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے کی آرزو پیدا کرے تاکہ انسان خارجی ضابطوں کے بجائے اپنے اندرونی تقاضوں کے سہارے زندہ رہے اور روحانی ترقی کرے۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں ضابطے انسان کے لیے خوف کی علامت سے زیادہ ان کی روحانی جدوجہد میں مددگار کا فریضہ انجام دیتے ہیں، جو انسان کو یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اس کی حدودِ عمل کیا ہیں؟
انقلاب کی حد سے بڑھی ہوئی ضابطہ پسندی سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انقلابی حضرات کا تصورِ انسان ناقص ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ حضرات انسان کو ایک روحانی وجود ہی سمجھتے ہیں، مگر ان کی روحانیت کا نفس اور جسم سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ تصور مغرب کے تصورِ انسان کی ضد ہے، وہ جسم کے ساتھ روح کا کوئی تصور نہیں رکھتے، یا اگر رکھتے ہیں تو اس کے بارے میں ان کا رویہ خاصا تحقیر آمیز ہوتا ہے، جب کہ دین میں انسانی وجود کے کسی درجے کی تحقیر کا کوئی شائبہ بھی سرے سے موجود نہیں، بلکہ انسانی فطرت میں کسی طرح کی ترمیم و تنسیخ کو ایک خطرناک ترین بات سمجھا گیا ہے، کیوں کہ انسانی وجود کے مختلف عناصر ایک وحدت تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک ہم آہنگ کُل ہے۔ اس تصور کو مسلم صوفیہ نے بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے، ان کے بقول ’’روح جسم کا لباس ہے، اور جسم روح کا لباس ہے۔‘‘
اس پس منظر میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر مجرد روحانی انسان کا تصور سامنے رکھ کر کوئی تبدیلی لائی گئی تو انسانی وجود کے دوسرے تقاضوں کو کچھ عرصے بعد ابھرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ بات تو انسانی فطرت کے بارے میں سطحی معلومات رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اگر کسی حقیقی اور جائز تقاضے کو دبایا جائے تووہ پھر اتنی شدت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی اہمیت سے کہیں زیادہ کا طالب ہوتا ہے۔ اسے اصطلاح میں Reactionary Thinkingیعنی ردعمل کی فکر کہا جاتا ہے جس میں معروضیت اور توازن کی قلت ہوتی ہے۔
میرے خیال میں کسی بھی انقلاب کے حقیقی مسائل کا آغاز انقلاب کے بعد ہوتا ہے۔ انقلاب لانا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، لیکن انقلاب کی کیفیت کو برقرار رکھنا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں کہ جب انقلاب بہت زیادہ انسانی قربانیوں کے بعد ظہور پذیر ہوا ہو، کیوں کہ اس صورت میں لوگوں کی توقعات انقلاب سے بہت بڑھ جاتی ہیں، اتنی زیادہ کہ جوابی ردعمل بھی انقلاب کے ساتھ ساتھ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انقلاب کی ہنگامہ خیزی میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی، مگر جب انقلاب کا ہنگامہ ذرا مدھم پڑتا ہے تویہ ردعمل ابھر کر سامنے آتا ہے اور انقلابی قیادت کو حیران کرجاتا ہے۔ چونکہ یہ ردعمل ظاہر کرنے والے لوگ خود انقلاب کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ردعمل کو بہت دنوں تک نظرانداز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
انقلابی سرگرمیوں کے عروج کے زمانے میں زندگی کی بہت سی نارمل سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں (مثال کے طور پر ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں آٹھ، دس برس تک عام شاعری یا ادب تخلیق نہیں ہوا)، مگر جب انقلاب آچکا ہوتا ہے تو زندگی کی یہ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوجاتی ہیں۔ چونکہ انقلاب کے زمانے میں یہ سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں اس لیے ان کے بارے میں بعض ایسے لوگوں کے اذہان میں جو اِن سرگرمیوں کو پہلے ہی غیر انقلابی سرگرمیاں سمجھتے ہیں، یہ غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ دوبارہ شروع نہیں ہوں گی۔ مگر وہ سرگرمیاں جن کا تعلق انسانی وجود کی گہرائیوں سے ہوتا ہے، شروع ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ یہ دراصل ایک اعتبار سے معاشرے کے حوالے سے بڑے مثبت اشارے ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ ہنگامیت اور خارجیت پسندی کے دور سے گزر کر ایک بار پھر اپنی باطنی جہت سے مربوط ہورہا ہے۔ ان سرگرمیوں میں انسانی وجود کے زیادہ گہرے تقاضے آشکار ہوتے ہیں، لیکن چونکہ انقلابی ایک طویل عرصے تک ہنگامی اور خارجی زندگی کے عادی رہ چکے ہوتے ہیں اس لیے اُن کے لیے یہ سرگرمیاں پسندیدہ نہیں ہوتیں۔ وہ ان سرگرمیوں کو معاشرے سے کٹنے کا عمل تصور کرتے ہیں۔ ان کا محدود تصورِ انسان انہیں اپنے اس احساس کو سچا سمجھنے پر مزید مائل کرتا ہے۔ تاہم اگر کوئی انقلابی قیادت ابتدا ہی سے انسان کا سچا اور معروضی تصور لے کرچلی ہو تو یہ صورتِ حال رونما نہیںہوتی۔
مغرب نے گزشتہ نصف صدی میں جو بات سب سے زیادہ ہمارے اذہان میں بٹھائی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ انسان کے تمام مسائل بنیادی طور پر معاشی اور سیاسی ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انقلاب کے لیے کام کرنے والی قوتیں بھی اپنی سرگرمیوں سے یہی تاثر دے رہی ہیں کہ وہ ایک سیاسی، معاشی اور سماجی انقلاب کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان قوتوں کے ’’روحانی انسان‘‘ کی حقیقت اس رویّے سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ ہمارا انسان جو کہ ایک ’’روحانی انسان‘‘ ہے اس کے مسائل روحانی نہیں، بلکہ سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں۔ گویا ’’رہائش سمندر میں اور مسائل صحرا کے‘‘۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اُس کے انسان کے ساتھ ابتدائی طور پر سیاسی اصطلاحات ہی میں ابلاغ ہوسکتا ہے، کیوں کہ آج کا انسان یہ بات مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک واقعی بھول چکا ہے کہ اس جہانِ فانی میں اس کے حقیقی مسائل روحانی ہیں، سیاسی اور معاشی نہیں۔ مگر اس رجحان میں یہ خطرہ پوشیدہ ہے کہ اگر ہم عوام کے ساتھ مسلسل سیاسی اصطلاحات میں ابلاغ کرتے رہے تو وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کے مسائل واقعتاً سیاسی اور معاشی ہیں۔ اس صورت میں ہم دین کے حقیقی منشا کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوں گے، اور اگر ہم نے انقلاب برپا کرکے لوگوں کے یہ مسائل واقعی حل کردیے تو یہ کامیابی حقیقی کامیابی کا سایہ بھی نہیں ہوگی۔
دنیا بھر کے انقلابیوں نے اپنے ایک خاص مشترک رجحان سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے اندر کسی تصور یا تصورات کی قبولیت کی جو سطح ہے معاشرے کے دوسرے افراد کے اندر بھی قبولیت کی وہی سطح ہوگی۔ اس تصور کے ساتھ ان کی توقع ہوتی ہے کہ پورا معاشرہ ان کے تحرّک سے ہم آہنگ ہوکر حرکت کرے گا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت غلط تصور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ معاشرے کے اندر موجود لوگوں کی ذہنی سطح بہت مختلف ہوتی ہے، ان کا نفسیاتی اور جذباتی ڈھانچہ بھی ایک دوسرے سے بہت جدا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کسی خیال کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی ان کے اندر مختلف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انقلاب کے کچھ ہی عرصے بعد انقلابی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر عمل کرنا ترک کردیتے ہیں۔ ان کا عمل اتنا ہی ہوتا ہے جتنی ان کی قبولیت ہوتی ہے۔ اسلام کی جیسی قبولیت امام غزالیؒ کے اندر تھی، آپ کے یا میرے اندر نہیں ہوسکتی۔ اُن کی قبولیت کے اعتبار سے ان کا عمل بڑا تھا، اور آپ کی اور میری قبولیت کے اعتبار سے آپ کا اور میرا عمل چھوٹا ہوگا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی قیادت کو انسانی روح، انسانی ذہن اور انسانی نفس کی صورتِ حال کو پیش نظر رکھنا چاہیے، کیوں کہ انقلاب کسی ایک فرد یا کسی ایک گروہ یا طبقے کے لیے نہیں ہوتا، اس کا دائرہ کروڑوں لوگوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے اور ان کروڑوں لوگوں میں اکثر لوگ معمولی ہی ہوا کرتے ہیں۔
انقلابی قیادت کو یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بھی خیال مصفا ترین شکل (Purest Form) میں صرف اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ انسان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ خیال جیسے ہی عمل میں ڈھلتا ہے اس کی Purity میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ خیال کی مجبوری ہے، اگر وہ اپنی Purity کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ کبھی عمل میں نہ ڈھلے، خاص طور پر اجتماعی زندگی میں تو یہ صورت بالکل ہی ناممکن ہوجاتی ہے۔
انقلاب کے سلسلے میں ایک اور صورتِ حال پر توجہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ انقلابی عمل میں ’’خلوص‘‘کو ہر چیز کا نعم البدل سمجھ لیا جاتا ہے۔ خلوص بہت سی چیزوں کا نعم البدل ہوسکتا ہے مگر ہر چیز کا نہیں… ’’اہلیت‘‘ کا تو ہرگز نہیں۔ بلاشبہ خلوص ایک بہت بڑی دولت ہے، مگر صرف خلوص کی بنیاد پر بہت سے ایسے کام ہیں جو کہ نہیں ہوسکتے۔ خلوص سے ریاست تو کیا سائیکل بھی نہیں چل سکتی۔ آپ سائیکل چلانے کے سلسلے میں خواہ کتنے ہی مخلص ہوں مگر اسے چلانے کے لیے آپ کو ہر صورت میں سائیکل چلانا سیکھنا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اگر آپ سائیکل چلانا سیکھ جائیں اور آپ کے اندر خلوص بھی ہو تو آپ بہت سے دوسرے لوگوں سے بہتر انداز میں سائیکل چلا سکیں گے۔
انقلابی جدوجہد میں بہت سے ایسے افراد بھی شریک ہوتے ہیں جو اپنے خلوص کو اپنی بہت سی خامیوں کا پردہ بناتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں کا خلوص جھوٹا خلوص ہوتا ہے، تاہم اس جھوٹے خلوص سے قطع نظر تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے انقلابیوں کو جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ ان کا ’’خلوص‘‘ ہے جو اہلیت کی عدم موجودگی کی صورت میں ذہنی جمود بن جاتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی تاریخ نے جتنی بڑی شخصیات پیدا کی ہیں وہ مخلص ترین کے ساتھ ساتھ اہل ترین بھی تھیں۔
اس ذیل میں اور بھی بہت سی باتیں کہنے کی ہیںجو اِن شاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا۔ میری ان معروضات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اسلامی انقلاب کے سلسلے میں ہمارے اذہان میں جو رویّے پائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے، اور اگر ان میں کہیں کوئی غلطی ہو تو اس کو درست کرلیا جائے، کیوں کہ انقلاب کا عمل اتنا ہمہ گیر ہوتا ہے کہ اس کے معمولی سے مثبت اور معمولی سے منفی اثر کو زائل کرنے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ مندرجہ بالا سطور میں کہی گئی باتیں بہت گہری باتیں نہیں ہیں، بلکہ اس کے برعکس بہت معمولی باتیں ہیں۔ تاہم معمولی باتوں کا معاملہ چھوٹے گناہوں کی طرح ہوتا ہے، بڑا گناہ ہمیں یاد رہتا ہے مگر چھوٹا گناہ یاد نہیں رہتا۔ نتیجتاً ہم بڑے گناہ کی معافی کی سعادت تو حاصل کر لیتے ہیں مگر چھوٹے گناہوں کی توبہ سے محروم رہتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنی بڑی بڑی خامیوں کا شعور تو رکھتے ہیں مگر چھوٹی چھوٹی خامیوں کو بھولے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی خامیاں ہماری بڑی بڑی خامیاں بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک دعا جو میں ہرکام کے آغاز پر دل میں پڑھا کرتا ہوں، آج اسے تحریرکرتا ہوں، اور وہ یہ کہ اگر ان سطور میں کوئی خیر ہے تو اے خدا! اسے پڑھنے والوں کے قلوب میں اتار دے، اور اگر ان میں کوئی شر ہے تو اس سے قارئین کے قلوب کو محفوظ رکھ۔