انتخابات، ابہام اور قرضوں کی معیشت!

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دس فیصد غریب ترین طبقہ دس فیصد امیر ترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے

انتخابات اور ابہام، دونوں نہر کے دو کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ جب تک پولنگ نہیں ہوجاتی، یہ ابہام قائم رہے گا۔ نئی حکومت آجانے کے بعد اس کی نئی شکل سامنے آئے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی معیشت اس وقت سیاست سے بڑا موضوع بنی ہوئی ہے اور مستقبل میں بھی یہ سیاست سے زیادہ اہمیت کی حامل اور توجہ کی مستحق ہوگی۔ قومی معیشت میں جب جان ہی نہیں ہوگی تو کوئی بھی سیاسی جماعت وفاق میں حکومت بنائے، عوام کے لیے کچھ کرنا اُس کے لیے مشکل ہی رہے گا۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے اختتام 30 جون 2024ء تک قرض کی مالیت 820کھرب روپے ہوجائے گی اور 2024-25ء میں یہ رقم 922.4کھرب روپے تک جاسکتی ہے۔ ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان تجارتی عدم توازن اور اندرونی سطح پر ٹیکسوں کے کمزور نظام کی وجہ سے ہوا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دس فیصد غریب ترین طبقہ دس فیصد امیر ترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ جاگیردار اپنی آمدنیوں پر ٹیکس نہیں دے رہے۔ صنعت کاروں نے خود کو من پسند پالیسیوں کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ قصہ مختصر، اس بوسیدہ ٹیکس انفرااسٹرکچر کی وجہ سے ملک کو ہر سال ایک تہائی ٹیکس وصولیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک تحقیقی ادارے کی یہ رپورٹ بھی چشم کشا ہے کہ ملک میں صرف رئیل اسٹیٹ، چائے، ادویہ، ٹائرز اور لبریکنٹس کے شعبوں میں سالانہ 9 کھرب 56 ارب کا ٹیکس چوری ہورہا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل 20 ٹریلین روپے تک ہے۔ ملک کی معاشی ابتری پر قابو پانے کے لیے امیر طبقے کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ درست حکمتِ عملی اور اصلاحات کے عزم کے ساتھ پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پا سکتا ہے۔

پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے کی مزید شرائط مان لیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایم ای ایف پی ڈرافٹ میں آئندہ مالی سال کے لیے شرائط رکھی گئیں۔ آئندہ مالی سال مالیاتی خسارہ 9 ہزار ارب روپے سے زائد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے تحت آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 11 ہزار ارب سے زائد رکھنے پر اتفاق ہوا ہے، آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت کے اخراجات کی مد میں ساڑھے 16 ہزار ارب روپے مختص ہوں گے، قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لیے آئندہ مالی سال ساڑھے 9 ہزار ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں آئندہ مالی سال دفاعی اخراجات کا تخمینہ 21 سو ارب روپے تک لگایا گیا ہے، ایم ای ایف پی ڈرافٹ میں سبسڈیز اور گرانٹس کی مد میں 3 ہزار ارب روپے دینے کا تخمینہ ہے، صوبوں کو آئندہ مالی سال 5 ہزار 320 ارب روپے جاری کیے جائیں گے جب کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت 780 ارب روپے سے زائد رکھنے کی تجویز ہے۔

یہ ہے وہ معاشی منظر نامہ جس سے اگلی حکومت کا واسطہ پڑے گا۔معیشت سے متعلق یہ صورت حال ایک ایسا جن ہے جسے بوتل میں بند کرنے کی حکمت عملی کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔قومی معیشت پر یہ مشکل ترین وقت کون لے کر آیا؟ سپریم کورٹ ضرور اس پر آئین کی محافظ عدالت ہونے کے ناتے سوچے، اور اس کی نظروں میں اس کے جو بھی ذمہ دار ہیں، وہ سب قومی مجرم ہیں، ملک میں ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ انہیں تاحیات سیاسی عمل سے بے دخل کردیا جائے۔قومی معیشت سے متعلق آئی ایم ایف کے اس تشویش ناک تخمینے کی تحقیقات لازمی ہونی چاہیے۔

ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق عالمی بحرانوں نے پاکستان سمیت 54ملکوں کو ایسی صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے جس میں ان ممالک کو قرضوں میں ریلیف ملنا چاہیے، پاکستان میں گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے تباہ کن صورتِ حال پیدا کی ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کو مطلوب امداد بھی نہیں ملی، اس کی وجہ یہ رہی کہ ہمارے ملک میں اپوزیشن جماعتوں نے واویلا مچا کر حکومت کی ساکھ خراب کی، اور نقصان سیلاب متاثرین اور عوام کو ہوا۔ حال ہی میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے والے ممالک میں شامل قرار دیا گیا ہے اور امداد کا اعادہ کیا گیاہے، اورحالیہ کوپ کانفرنس کے توسط سے پاکستان سمیت موسمی تغیرات سے متاثرہ ملکوں کے بارے میں میکنزم بنائے جانے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔

عالمی امداد اپنی جگہ ضروری ہے، تاہم اس کے علاوہ ملک میں معاشی بہتری کے لیے متعدد اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں سے بہت سوں کا تعلق نئی سرمایہ کاری سے ہے۔ قومی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام ایک مثبت اور بہتر پیش رفت ہے، تاہم بہت سے چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ یہ صورتِ حال ملک میں سیاسی استحکام مانگ رہی ہے، اسی وجہ سے ترسیلاتِ زر ملنے کی امید ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، اہم بات یہ ہے کہ کوئی ایسی حکومت آئے جو قرضوں کا طوق قوم کی گردن سے اتارتے ہوئے اپنے وسائل پر اکتفا کرنے کی سعی کرے۔

ملک کا سیاسی منظرنامہ ابھی تک دھندلا ہے، اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک نئی آئی جے آئی بھی بننے جارہی ہے، اعجازالحق اور دیگر متعدد راہنما اس کا حصہ ہوں گے، تاہم کوئی منظر واضح دکھائی نہیں دے رہا۔ ہوسکتا ہے کہ یہی حکمتِ عملی ہو اور یہ صورتِ حال انتخابات تک جاری رہے، تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات کے لیے باقاعدہ تیاری نہ کرسکے، لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ عمران خان جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جماعتوں کے لیے چیلنج ہیں۔ اگر وہ نااہل قرار پائے تو ہوسکتا ہے سیاسی منظر بدل جائے۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات میں گوہر خان کا انتخاب اگرچہ ایک عارضی عمل ہے تاہم عمران خان کے خلاف اسے ابتدا ضرور کہا جاسکتا ہے۔ اپنی گرفتاری کے بعد عمران خان نے پہلی بار میڈیا کے ساتھ گفتگو کی، اور جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ وہ سائفر کیس میں جنرل(ر) باجوہ اور امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کو بطور گواہ طلب کرنے کی درخواست دیں گے۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے بہت سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ مجیب کا انہوں نے کیا بگاڑ لیا تھا، جس طرح وہ جیتے اسی طرح پی ٹی آئی بھی جیتے گی۔ میڈیا سے گفتگو میں تو یہی لگا ہے کہ عمران خان واقعی آخری سانس تک لڑنے کے موڈ میں ہیں،البتہ انہیں نکاح کے معاملے پر خاور مانیکا کی درخواست آنے پر سخت صدمہ ہے، انہیں خدشہ ہے کہ خاور مانیکا اپنے بچوں کے ذریعے کہیں بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی بیان بازی نہ کریں۔

ملک کی حالیہ سیاسی صورتِ حال بالکل واضح ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور یقین ہے کہ آئندہ بھی اتحادی حکومت بنائی جائے گی، اور اگر انتخابات التوا کا شکار ہوئے تو ملک کو نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ اسے کارنر کرنے کی کوشش ہورہی ہے، اور نوازشریف کو لاڈلا بنایا جارہا ہے۔ یہی صورتِ حال2018ء میں بھی تھی، تب عمران خان لاڈلے تھے اور مسلم لیگ(ن) زیر عتاب تھی۔ عمران خان کو فیض سے بے فیض ہوجانے کے سفر کا تجزیہ کرتے ہوئے اب اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، اور قومی معیشت اور قرضوں کے باعث اب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے قومی سوچ اپنانی چاہیے تاکہ ملک کی معیشت سنبھل سکے، بہتر یہی ہے کہ نوازشریف اب جیسے تیسے بھی واپس آئے ہیں، انہیں اپنی خاموشی توڑ دینی چاہیے، اور کھل کر بتانا چاہیے کہ وہ ملک و سیاست کو کس سمت لے کر جانا چاہتے ہیں۔نوازشریف پر دیگر سیاست دانوں سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ لاڈلا ہونے کا تاثر ختم کریں اور بتائیں کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ ’’ہمیں اقتدار دو‘‘ میں کیوں تبدیل ہوگیا ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخل ہوکر دوبارہ اسی کے کاندھوں پر چڑھ کر آنا ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ(ن) کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ملک میں شاہد خاقان عباسی جیسے دس بارہ سیاست دان انتخابی عمل سے دور رہتے ہیں تو یہ خود مسلم لیگ(ن) کا نقصان ہوگا۔ پیپلزپارٹی اسی لیے تو فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے کہ اسے نوازشریف کی مجبوریوں کا علم ہے، بلاول نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ’’ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے، سیاسی جماعتیں اس پر گفتگو کریں‘‘۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم حکومت کے مزے بھی لیے اور اب سارا بوجھ شہبازشریف کے سر ڈال کر’’ نیٹ اینڈکلین‘‘ بنی ہوئی ہے۔ سامنے کا سچ یہی ہے کہ آج بھی سیاسی جماعتیں نظریے کی نہیں بلکہ اقتدار کی سیاست کررہی ہیں، انہیں یہ ادراک کرلینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسے گھاٹ پر کھڑا ہے جہاں فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں برابر کی اسٹیک ہولڈر بن چکی ہیں، جب تک یہ ایک پیج پر نہیں ہوں گی تب تک ملک میں معیشت سدھرے گی نہ سیاست۔

جہاں تک قومی سیاست کا تعلق ہے، اگرچہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، تاہم ملکی سیاست میں بلوچستان ایک بہت بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوئٹہ میں یوم تاسیس منانے کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی کوئٹہ سے ہی’’ انتخابی مہم‘‘ شروع کی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں بلوچستان میں ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہے۔ بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ سے ہی قبائلی رنگ، نسلی امنگوں اور قومی سیاسی قوتوں کے باہمی تعامل کا ایک پیچیدہ اور غیر مستحکم مرکب رہا ہے،پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی بساط میں پیپلز پارٹی بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے غلبے کی کوششوں کو چیلنج کرتے ہوئے نمایاں فیصلے کررہی ہے۔ بلوچستان سے الیکٹ ایبلز اور نوازشریف کے درمیان حالیہ اشتراک قابلِ ذکر ہے، لیکن یہ آئندہ انتخابات میں فتح کی ضمانت نہیں دے سکتا، کیونکہ ملک کے نوجوان اور خواتین اب ایک اہم اسٹیک ہولڈر بن گئے ہیں۔بہرحال صوبے میں بزرگ امیدواروں اور موروثی سیاست کا بھی زور ہے، البتہ نوجوان ووٹر کافی بدل چکا ہے، یہ اب خودداری اور آئینی بالادستی کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ انتخابی نتائج میں اگرچہ یہ سب بنیادی کر دار ہیں لیکن حلقہ بندیوں کا اپنا ایک گہرا اثر ہوتا ہے، تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کی اگلی قومی اسمبلی 342 کے بجائے 336 ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ملک بھر سے قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے 266، جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔اس مرتبہ قومی اسمبلی کا ایوان 336 اراکین پر مشتمل ہو گا۔صوبہ پنجاب میں مظفر گڑھ کے قومی اسمبلی کے حلقے 6 سے کم ہو کر 4 رہ گئے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان کے حلقے 4 سے کم ہوکر 3 رہ گئے ہیں۔ وزیر آباد کا الگ سے حلقہ بنا لیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ کے حلقے 6 سے کم ہو کر 5 رہ گئے، مری کا حلقہ راولپنڈی کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے۔صوبہ خیبر پختون خوا میں قومی اسمبلی کے 6 حلقے کم ہو گئے ہیں۔ باجوڑ، خیبر اور کرم کے دو، دو حلقوں میں سے کم ہو کر ایک، ایک حلقہ رہ گیا۔ وزیرستان کے حلقے 3 سے کم ہو کر 2 رہ گئے ہیں۔صوبہ سندھ میں سانگھڑ کے حلقے 3 سے کم ہو کر 2 رہ گئے ہیں۔ جبکہ کراچی ساؤتھ کے حلقے 2 سے بڑھ کر3 اور کراچی ویسٹ کے 5 سے کم ہو کر 3 رہ گئے ہیں۔صوبہ بلوچستان کے حلقوں میں کوئی رد وبدل نہیں ہوا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے اسلام آباد کی 3 جنرل نشستیں ہوں گی اور قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستیں ہوں گی، جبکہ اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 297 جنرل نشستیں ہوں گی۔ پنجاب سے قومی اسمبلی میں خواتین کی 32 مخصوص نشستیں ہوں گی۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستیں ہوں گی۔ سندھ سے خواتین کی 14 مخصوص نشستیں ہوں گی۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی اسمبلی کی 115 جنرل نشستیں ہوں گی۔ خیبرپختون خوا سے خواتین کی 10 مخصوص نشستیں ہوں گی۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16، صوبائی اسمبلی کی 51 جنرل نشستیں اور خواتین کی چار مخصوص نشستیں ہوں گی۔ صوبہ پنجاب میں اٹک سے قومی اسمبلی کی 2، راولپنڈی کی 6 اور راولپنڈی اور مری کی ملا کر ایک جنرل نشست ہوگی۔ وزیر آباد اور حافظ آباد کی ایک، ایک نشست جبکہ منڈی بہاؤالدین کی 2 نشستیں ہوں گی۔ فیصل آباد کی 10 اور لاہور کی 14 نشستیں ہوں گی۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی 3، 3 نشستیں ہوں گی۔ صوبہ بلوچستان میں شیرانی، ژوب، قلعہ سیف اللہ پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہوگا۔ جبکہ موسیٰ خیل، بارکھان، لورالائی، دکی پر بھی مشتمل قومی اسمبلی کا ایک ہی حلقہ ہوگا۔ خضدار کا ایک، جبکہ پنجگور اور کیچ پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہوگا۔ کیچ اور گوادر پر مشتمل بھی ایک ہی حلقہ ہوگا۔ کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے 3 حلقے ہوں گے۔ صوبہ سندھ میں سانگھڑ اور میرپور خاص کے 2، 2 جبکہ عمرکوٹ کا ایک اور تھرپارکر کے 2 حلقے ہوں گے۔ مٹیاری اور ٹنڈوالہ یار کا قومی اسمبلی کا ایک، ایک حلقہ ہوگا۔ سجاول، ٹھٹہ، جامشورو کا قومی اسمبلی کا ایک، ایک حلقہ ہوگا۔ ملیر کے قومی اسمبلی کے 3، کورنگی کے 3، کراچی ایسٹ اور کراچی سائوتھ کے 4، 4 حلقے ہوں گے۔ کیماڑی کے 2، کراچی ویسٹ کے 3، کراچی سینٹرل کے قومی اسمبلی کے 4 حلقے ہوں گے۔ حلقہ بندیوں کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کے اپر اور لوئر چترال سے قومی اسمبلی کا ایک اور سوات کے 3 حلقے ہوں گے۔ ہنگو اور اورکزئی پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک، جبکہ کرم، کرک، بنوں کا ایک، ایک حلقہ ہوگا۔ شمالی وزیرستان اور لکی مروت کا قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہو گا، جبکہ اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان پر مشتمل ایک، جبکہ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہوگا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے 2 حلقے ہوں گے۔

انتخابی فہرستوں کی تکمیل اور بروقت حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اب انتخابات پر شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ وسط دسمبر تک انتخابی شیڈول بھی متوقع ہے۔ الیکشن شیڈول انتخابات سے 54 روز پہلے جاری ہوگا۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 6نشستیں کم ہوگئی ہیں۔ جنرل نشستوں کے لیے 266اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593حلقے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے 5 اگست 2022ء کو حلقہ بندیاں کی تھیں مگر پھر ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کی وجہ سے اسے قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔ حتمی حلقہ بندیوں کے مطابق اسلام آباد کی 3 جنرل نشستیں ہوں گی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، صوبائی اسمبلی کی 297، سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 اور صوبائی اسمبلی کی 130، خیبر پختون خوا میں قومی اسمبلی کی 45، صوبائی اسمبلی کی 115 اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 51 جنرل نشستیں ہوں گی۔ اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342نشستیں کم ہو کر 336رہ گئی ہیں جس کی وجہ قبائلی علاقوں کا انضمام ہے۔ 2018ء میں فاٹا کی آزاد حیثیت تھی اور اس کی 12نشستیں تھیں، 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کردیا گیا اور اس کی نشستیں 6 کردی گئیں۔ 1336شکایات اور تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد نئی حلقہ بندیوں میں معمولی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ ووٹرز کی کل تعداد کے بجائے آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندی کا ایک مقصد این ایف سی سمیت دیگر وسائل کی تقسیم بھی ہے۔ ابھی تک ایم کیو ایم کے سوا کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن کی طرف سے کی جانے والی ان حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اب اگر کسی کو حلقہ بندیوں پر اعتراض ہوگا تو اسے الیکشن کمیشن کے بجائے عدالتوں کا رخ کرنا پڑے گا۔

انتخابات کی تیاریوں اور حلقہ بندیوں کے اعلان کے باوجود اگر کہیں ابہام ہے تو اس کی وجہ سیاسی مقدمات ہیں،مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کو ایک مقدمے میں برّیت اور دوسرا مقدمہ واپس لیے جانے کے باعث خارج ہونے کی صورت میں عدالتی ریلیف ملا ہے۔ اُن کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ ابھی بھی ابہام کی دھند کی لپیٹ میں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی 11سال قیدکی سزا کالعدم قرار دے کر نوازشریف کو بری کر دیا، جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کی برّیت کے خلاف نیب اپیل واپس لیے جانے پر خارج کردی، اب العزیزیہ کیس رہ گیا ہے، یہ تینوں مقدمات ایک ہی جے آئی ٹی سے نکلے اور ایک ہی پروسیڈنگ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب نے یہ تاثر چھوڑا کہ مقدمات سپریم کورٹ کے دبائو پر بنائے گئے۔ ہمارے ہاں بعض صورتوں میں کیس پہلے بن جاتا ہے شواہد کی تلاش بعدازاں افراتفری میں کی جاتی ہے۔ اسی لیے مقدمات کی عمارت آگے چل کر منہدم ہوجاتی یا وقت کی تبدیلی حقائق سامنے لانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بدھ کے فیصلے کے بعد ’’نیب‘‘ کی افادیت و کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ جبکہ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی روش پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری اقدار کو مزید مضبوط بنایا جائے۔