پاکستانی سیاست کاانتخابی سرکس یا پتلی تماشا

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جمہوریت کا عمل معاشروں میں موجود مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور خرابی سے اچھائی کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کا سیاسی سفر اور اس سے جڑے معاملات میں بہتری آنے کے بجائے مزید بگاڑ شدت کے ساتھ جاری ہے۔یہاں سیاست اور جمہوریت سمیت آئین و قانون کی حکمرانی کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ درست راستے کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اس وقت قومی سیاست میں ایک بڑا سرکس انتخابات کے نام پر سجایا جارہا ہے۔ اس سرکس میں سیاسی اور جمہوری کھیل کم لیکن پتلی تماشا بڑے شاندار انداز میں جاری ہے۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بظاہر تماشا سب کے سامنے دکھایا جارہا ہے لیکن اس تماشے کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میںہے، جبکہ سامنے نظر آنے والے کردار نمائشی ہیں یا اُن کے ہاتھ پیر باندھ کر ان سے فیصلوں کی طاقت لے لی گئی ہے۔

حالیہ دنوں میں نوازشریف کی پاکستان واپسی، اور ڈیل کی خبروں کے کچھ سیاسی نتائج ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے نوازشریف کے ساتھ لاڈلے کا سا سلوک ہورہا ہے اس کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انھی عدالتوں، انھی ججوں، اسی نیب، اسی ایف آئی اے اور پراسیکیوٹرکی موجودگی میں پہلے نوازشریف کو کرپٹ قرار دے کر نااہل کیا گیا، اور اب انھیں ڈرائی کلین کی مدد سے شفاف بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی اقتدار میں واپسی کی راہ میں جو بھی سیاسی اور قانونی رکاوٹیں ہیں انھیں دور کرکے نوازشریف کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو آج نوازشریف کو ریلیف دے رہے ہیں وہ آج درست ہیں اور کل غلط تھے جب ان کو سزائیں دی جارہی تھیں؟ اگر آج سب کچھ درست ہے تو ماضی کے ان کردارو ں کا احتساب کون کرے گا جنہوں نے نوازشریف کو سیاست سے بے دخل کیا اورقوم کے اربوں روپے اس کھیل میں برباد کیے؟اسی طرح قانونی محاذ کے ساتھ سیاسی محاذ پر بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر جو سیاسی ہوا بھری جارہی ہے اور الیکٹ ایبلز کو جس انداز میں مسلم لیگ (ن) میں شامل کروایا جارہا ہے یا جو اُن کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی جارہی ہے اور ان کے سیاسی مخالفین کودیوار سے لگانے کا کھیل ہے اس کے بعد انتخابات کی شفافیت اور ساکھ کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دلچسپ تبصرہ یہ ہے کہ انتخابات کے بعد پہلے نوازشریف کو ایک مختصر عرصے کے لیے وزیراعظم بنایا جائے گا، اورپھر شہبازشریف وزیراعظم بنیں گے اور مریم نواز کو پنجاب میں اہم عہدہ دیا جائے گا۔ سیاسی پنڈت روزانہ کی بنیاد پر ایسے سوالات یا خیالات پیش کررہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاست ہو یا جمہوری عمل… سبھی ناپختگی کا شکار ہیں اور ابھی ہم ابتدائی سیڑھی پر ہی کھڑے ہیں۔ نوازشریف یا مسلم لیگ (ن) کے بارے میں ایک اور دلچسپ تبصرہ یہ ہے کہ شریف خاندان نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنی قبولیت تو ’’بڑے گھر‘‘ میں کرلی ہے مگر ان کی عوامی مقبولیت ایسے مقام پر کھڑی ہے کہ ان کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر ارکان کے بقول موجودہ حالات میں عوامی سطح پر اُن کے لیے انتخابی مہم چلانا کوئی آسان کام نہیں، اورعوامی رجحان مسلم لیگ (ن) کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس لیے اگر عوامی مقبولیت کی عدم موجودگی میں نوازشریف کو عملاً اقتدار دیا بھی گیا تو وہ دفاعی پوزیشن پر ہوں گے اور کچھ بھی نہیں کرسکیں گے بلکہ جعلی طور پر ملنے والی حکومت ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔

اسی طرح دوسری جانب آصف زرداری ایک ہی فقرے میں بلاول بھٹو کی ناتجربہ کاری کا ماتم کرتے ہیں اور کہتے ہیں اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے، اور دوسری طرف اپنے اسی لاڈلے کو اگلے وزیراعظم کے طور پر بھی پیش کررہے ہیں۔ وہ حکمتِ عملی کے تحت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود کو، بیٹے کو اور پارٹی کو متبادل کے طور پر پیش کررہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ نوازشریف کو ملنے والی میٹھی گولی میں کچھ کمی کی جاسکے اور وہ خود اقتدار کی سیاست کا حصہ بن سکیں۔

انتخابات کے ہی تناظر میں جو سیاست ابھر رہی ہے اس کے کئی پہلو خاصے دلچسپ ہیں۔ اوّل الیکشن کمیشن نے بیس دن کے اندر اندر پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کا وقت دے کر اس پر شدید سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول اگر پی ٹی آئی شفاف انداز میں اپنا پارٹی الیکشن نہیں کروائے گی تو اسے انتخابات میں بلے کا نشان نہیں دیا جائے گا۔ ماضی میں کسی بھی جماعت کو اس طرح کی صورت ِحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ خیال تھا کہ پی ٹی آئی اول تو پارٹی کے انتخابات سے گریز کرے گی، اور اگر اس کی جانب سے عمران خان کو دوبارہ چیئرمین بنایا گیا تو انتخابی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کرکے اسے انتخابی نشان سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اسے محسوس کیا، اسے اپنے خلاف سازش سمجھا اور جوابی وار کرکے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن کا اعلان کرکے پارٹی کے عبوری چیئرمین کے لیے بیرسٹر گوہر کا انتخاب کیا۔ اُس کے بقول پارٹی کے چیئرمین عمران خان تھے اور وہی رہیں گے، نئے چیئرمین کا انتخاب انتظامی اور قانونی بنیادوں پر کیا گیا ہے تاکہ الیکشن کمیشن پارٹی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم نہ کرے۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں ختم کرنے کا کھیل کھیلا گیا، لیکن تاریخ نے یہی ثابت کیا کہ سیاسی قیادتیں ہی اہم ہیں اور بے نظیر بھٹو ہوں، نوازشریف ہوں یا عمران خان… وہی پارٹی کی قیادت ہیں اور ان کو ہی ان کی جماعتیں اپنا قائد سمجھتی ہیں۔ اس لیے عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں اور ان کو ہی قائد سمجھا جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ جو نئے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں ان کی الیکشن کمیشن میں کیا قبولیت ہوتی ہے، اور کیا اس انتخابی عمل کو الیکشن کمیشن تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، یا اسے قبول کرکے مائنس عمران خان کھیل کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان ہی دیا جائے گا۔کیونکہ پی ٹی آئی کے منحرف رکن اکبر ایس بابر میدان میں آگئے ہیں اور وہ انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے عدالت جانے والے ہیں۔ کیا وہ یہ سب کچھ کسی کے ایما پر کررہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے دور رکھا جائے! یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس سارے کھیل کو کسی انتظامی یا قانونی پہلو کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سیاسی حکمت ِعملی کے تحت ہی دیکھنا چاہیے، کیونکہ بہت عرصے سے عمران خان کے مخالفین پی ٹی آئی میں مائنس ون فارمولے کے تحت عمران خان کو باہر نکال کر متبادل قیادت لانا چاہتے ہیں، اور یہ کھیل بھی اسی کا حصہ ہے جس میں الیکشن کمیشن سہولت کاری کررہا ہے۔ پی ٹی آئی نے جوابی حکمت عملی کے تحت کسی سیاسی فرد کو عمران خان کے مقابلے میں پارٹی کے چیئرمین کے طور پر نامزد نہیںکیا بلکہ کم سیاسی عزائم والے بیرسٹر گوہر کو سامنے لائی ہے جو عمران خان کی مشاورت اور فیصلوں کی مدد سے پارٹی کو چلائیں گے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے موجودہ سیاسی حالات اور انتخابی عمل میں پارٹی کی آزادانہ بنیادوں پر عدم شمولیت اور بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان حالات میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہم آزادانہ بنیادوں پر انتخابات کا حصہ بن سکیں۔ لیکن کیا موجودہ چیف جسٹس پی ٹی آئی کے چیئرمین کی درخواست پر کوئی بڑا فیصلہ کرسکیں گے، یا وہ بھی اس کھیل میں وہی کچھ کرنے کی کوشش کریں گے جو اِس وقت سمجھوتے یا بدلے کی سیاست میں کیا جارہا ہے؟ کیونکہ جس انداز سے سپریم کورٹ نے عمران خان کے خط پر اعلامیہ جاری کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس معاملے میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دوسری طرف کے پی کے میں پی ٹی آئی کے جو بھی ورکرز کنونشن ہورہے ہیں ان سے بھی صوبے کے لوگوں کے رجحان کا پتاچل رہا ہے جو عملاً پی ٹی آئی مخالف قوتوں کے لیے حیران کن ہے، اور وہ یہ محسوس کررہی ہیں کہ انتخابی حالات صوبے میں ان کے حق میں نہیں ہیں۔

ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں ایشوز کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف الزامات کی سیاست کا غلبہ رہا ہے۔ اِس دفعہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی عتاب کا نشانہ عمران خان ہیں۔ عمران خان کی نجی زندگی، ان کی سابقہ یا موجودہ بیویوں، بہنوں، خاندان، بیٹوں، یا ان کے ماضی و حال کے قصوں یا طرزِ زندگی اور بالخصوص عورتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو جس منفی انداز میںپیش کیا جارہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے یہاں مخالفت میں سیاسی لوگ کس حد تک نیچے گرسکتے ہیں۔ سیاست کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی یا سیاسی انداز میں کرنے کے بجائے گھٹیا اور منفی انداز اختیار کرنا یا منفی مہم چلانا ہماری سیاست اور جمہوریت کے حق میں نہیں، اور ہم بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی حکمت عملی کا ایک جوابی وار بھی ہوتا ہے جو ہمارے خلاف بھی سامنے آتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کے خلاف اور زیادہ منفی مہم لانے کا کھیل جاری ہے اور وقفے وقفے سے ہمیں ان کے خلاف ویڈیوز اورپریس کانفرنسیں دیکھنے یا سننے کو ملیں گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ نتائج نہیں دے سکا تو اب اس کھیل کی ابتدا کردی گئی ہے۔ ماضی میں یہ کھیل بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی کھیلا گیا جس کی تلخیاں آج تک قومی سیاست میں موجود ہیں۔ لیکن ہم ماضی کے کھیل سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ آج بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ہے بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے جس نے پورے سیاسی ماحول کو آلودہ کردیا ہے۔ بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی حکمت عملی عمران خان مخالفت میں بہت آگے تک چلی گئی ہے جس میں ان کے خلاف سیاسی، اخلاقی اور مذہبی کارڈ بھی کھیلا جارہا ہے جو مزید سنگین نتائج دے گا۔کہا جارہا ہے کہ آنے والے وقت میں عمران خان کے خلاف ملک ریاض، بشریٰ بی بی اور ان کے بچے اور فرح گوگی کے میڈیا بیانات یا انٹرویوز بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی خبریں ہیں کہ آنے والے چند ہفتوں میں عمران خان کو سائفر کے مقدمے میں سزا سنائی جاسکتی ہے تاکہ وہ انتخابات کے لیے نااہل ہوسکیں۔ عمران خان نے اس مقدمے میں سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی فریق بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اور ان کے بقول وہ اب جیل میں ہیں اور کسی بھی صورت میں کسی سے بھی کوئی مفاہمت یا سمجھوتا یا ڈیل نہیں کریں گے۔ وہ اپنے خلاف سارے کھیل کو لندن پلان سے جوڑتے ہیں۔

انتخابات 8فروری کو ہونے ہیں اور الیکشن کمیشن کے بقول تمام تر منفی مہم یا انتخاب مخالف مہم کے باوجود مقررہ تاریخ پر ہی انتخابات ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں میں انتخابات کے بارے میں ابہام ختم نہیں ہورہا اور صفِ اوّل کے لوگ لکھ یا بول رہے ہیں کہ انتخابات آگے جاسکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی انتخابات کی شفافیت پر بھی سخت ترین تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ جس انداز سے ہم اپنی سیاسی مخالفت میں ریاستی یا حکومتی اداروں بشمول نگران حکومتوں کو کسی کے حق اورکسی کی مخالفت میں استعمال کررہے ہیں اس سے پورا انتخابی عمل ہی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار سب سے متنازع ہے اور اس کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا ہونا، یا نگران حکومتوں کا مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکائو ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات کی شفافیت ریاستی یا حکومتی نظام کا ایجنڈا نہیں، اور نہ ہی یہ ان کی ترجیحات میں کہیں بالادست نظر آتا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے حوالے سے جو بھی فنڈز دینے تھے ابھی تک وہ نہیں دیے گئے اوراسی بنا پر الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف خیبر پختون خوا کے گورنر مسلسل صوبے کی سیکورٹی کو بنیاد بنا کر انتخابات کے بارے میں ابہام پیدا کررہے ہیں اور انھوں نے صوبے کے بعض علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کو مشکل قرار دیا ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی کے واقعات میں ٹی ٹی پی متحرک ہے جو انتخابی عمل کو پُرتشدد بنا سکتی ہے، اور پی ٹی آئی کے جو بھی لوگ 9مئی کے واقعات میں ملوث ہیں ان کو انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح انتخابات ہر صورت ملتوی کرنے کی اب تک 17 درخواستیں الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے اور انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس میں کے پی کے کو ہی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، ایسے میں سپریم کورٹ کیا کرے گی؟ یہ خود ایک اہم سوال ہے۔ لگتا ہے کہ ہم سیاسی بحران کو کم یا ختم کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافے کے خواہش مند ہیں، کیونکہ اس کھیل میں ہماری سیاسی مہم جوئی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔