یہ ادب میں تنقید کی اصطلاح ہے۔ یہ جملہ فنون کی اصطلاح بھی ہے۔ شاعر یا ادیب جو امیجز، بیان کرتا ہے اگر کم و بیش اسی شکل میں قاری یا سامع اسے محسوس کرے جس طرح شاعر یا ادیب نے کیا ہے تو یہ ’’ابلاغ‘‘ ہے۔
اس سے مراد ’’تجربے‘‘ کی ایسی آفاقی تعمیم بھی ہے جس کے باعث شاعر کی آواز دنیائے انسانیت میں ارتعاش پیدا کردے۔ ایسے لسانی یا فنی تجربے کے خصائل کیا ہوسکتے ہیں یہ ایک طویل بحث ہے لیکن ابلاغ کی ایک اہم شرط علمی اور ذوقی سطح کی مساوات ہے۔ ’’مکالمہ‘‘ صرف اسی وقت کارگر ہوسکتا ہے جب دو ہستیاں ایک سطح پر آمنے سامنے موجود ہوں جبکہ بالعموم ایسا نہیں ہوتا کیونکہ تخلیق کار اپنی خاص مہارات، شدتِ احساس اور اوجِ تخیل کے باعث عمومی سطح سے دور جاچکا ہوتا ہے۔شیکسپیئر نے کہا ہے ’’شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ بے نام اشیا کو اسم اور بے شکل اشیا کو جسم عطا کرتی ہے‘‘۔ یہ بات صحیح ہے لیکن حقیقت کے صرف ایک رخ سے متعلق ہے اس لیے کہ شاعری اپنے ارفع ترین مقامات پر اپنے رسمی ارتقا کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے۔ شاعر ان معنوں میں لامنطقی ہے کہ وہ بیک وقت فصیح و بلیغ بھی ہے اور مانع ابلاغ بھی۔
(پروفیسر انور جمال۔ ادبی اصطلاحات)